تحریک انصاف کی حکومت ایسے نان ایشوز میں پھنس جاتی ہے جہاں پھنسنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نان ایشوز کی وجہ سے ہی ابھی تک تحریک انصاف ملک میں گڈ گورننس نہیں دے سکی ہے۔ بے وجہ اپوزیشن سے محاذ آرائی بھی ایک نان ایشو ہے۔
اپوزیشن سے فضول اور بے مقصد محاذ آرائی نے اپوزیشن کا کم اور حکومت کا زیادہ نقصان کیا ہے۔ اس محاذ آرائی نے حکومت کا سارا وقت کھا لیا ہے۔ اپوزیشن کے پاس تو پہلے ہی کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس لیے اگر دیکھا جائے تو اس محاذ آرائی سے اپوزیشن کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا ہے۔
البتہ حکومت نے اپنا بہترین وقت کام کرنے اور عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اس محاذ آرائی میں گنوا دیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہم وزرا جنہوں نے کام کر کے حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا، وہ اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی میں ایسے پھنس گئے کہ ان کے پاس کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔
اسی طرح حکومت نے بے وجہ خود کو ایسے مسائل میں الجھا لیا۔ جن میں الجھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ آج اگر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو اپنی وکٹ اور اپنے ایجنڈے پر کھلانے کے بجائے خود اپوزیشن کی وکٹ اور ایجنڈے پر کھیلتی رہی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ ایسی الجھ گئی کہ اس کے پاس کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔
وزیر اعظم صاحب کا بھی زیادہ وقت ترجمانوں کے اجلاس میں ہی لگ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کوئی اور کام ممکن ہی نہیں ہے۔ سارا زور میڈیا مینجمنٹ پر لگانے کے بعد آج حکومت ایک ایسے موڑ پر کھڑی نظر آرہی ہے جہاں میڈیا مینجمنٹ بھی نہیں ہے، بیانیہ بھی نہیں ہے اور عوام کو دکھانے کے لیے کارکردگی بھی نہیں ہے۔ صرف اپوزیشن کو بربھلا کہنے کی پالیسی پر اگلا الیکشن جیتنا مشکل نظر آرہا ہے۔
حکومت کی سیاسی تنہائی بھی اس کی ناقص کارکردگی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ سیاسی تنہائی کی وجہ سے ہی حکومت پارلیمان کو موثر طریقے سے چلانے میں ناکام رہی ہے۔ اپوزیشن سے پوائنٹ آف نو ریٹرن نے حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ پارلیمان کو غیر فعال رکھے۔ ورنہ اس سے پہلے ہم نے دیکھا ہے کہ سیاسی و جمہوری حکومتیں پارلیمان کو چلانے کے لیے اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب رہتی تھیں۔
پارلیمان کی کارروائی بھی چلتی تھی اور سیاسی نوک جھونک بھی چلتی تھی۔ ایک دوسرے پر پوائنٹ اسکورنگ بھی ہوتی تھی لیکن محدود تعاون بھی جاری رہتا تھا۔ اس طرح دونوں اپنی اپنی سیاسی مخالفت برقرار رکھتے ہوئے پارلیمان کو فعال رکھنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔
حکومت بڑے سے بڑے سیاسی بحرانوں کو پارلیمان کی طاقت سے شکست دیتی تھی۔ یہ حقیقت عمران خان سے بہتر کون جانتا ہے۔ ان کے آزادی مارچ اور دھرنے کو حکومت نے پارلیمان کی مدد سے ہی شکست دی تھی۔ لیکن آج حکومت چھوٹے چھوٹے بحرانوں میں بھی اس لیے پھنسی نظر آتی ہے کیونکہ سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ نہ حکومت کسی سے بات کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی کوئی حکومت سے بات کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ماحول حکومت کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔
مہنگائی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں اپوزیشن نے حکومت کو پھنسا لیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے مہنگائی نہیں ہوئی۔ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن اس ضمن میں بھی اپوزیشن نے حکومت کو ان کی وکٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر چینی کو ایسا ایشو بنایا گیا ہے کہ حکومت چینی کے مسئلہ پر اپوزیشن کے ٹریپ کا شکار ہوتی گئی ہے۔ حکومت کے پاس اپوزیشن کے چینی بیانیہ کا کوئی جواب ہی نظر نہیں آیا۔ آج اگر دیکھا جائے تو حکومت نے فقط چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے جتنی طاقت اور حکومتی مشینری لگا دی ہے کیا وہ ٹھیک ہے۔
یہ درست ہے کہ حکومت شدید کوشش کے باوجود مارکیٹ میں چینی کی قیمت کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لیکن کیا اس قیمت کو مصنوعی طریقہ سے کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے جس قدر حکومتی وسائل جھونک دیے ہیں، وہ جائز ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے جال میں پھنستے ہوئے چینی کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ اس وقت ساری حکومت سستی چینی بیچنے کی کوشش کر رہی ہے اور چینی سستی بک بھی نہیں رہی ہے۔
چینی کے لیے لمبی لمبی لائنیں حکومت کی ساکھ اور اس کی عوامی مقبولیت میں کوئی اضافہ نہیں کر رہی ہیں۔ سستے بازاروں میں چینی کی لائنیں کوئی حکومت کی کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑ رہی ہیں۔ دو کلو چینی کے لیے شناختی کارڈ دکھانے کی شرط کوئی گڈ گورننس کی مثال نہیں ہے۔
اپوزیشن نے حکومت کو چینی کے چکر میں ایسا پھنسا لیا ہے کہ حکومت کے ہوش گم ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایک گھر میں ماہانہ کتنی چینی لگ جاتی ہے۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ ایک گھر میں ماہانہ پانچ کلو چینی لگتی ہے اور چینی کی قیمت میں چالیس روپے اضافہ ہوا ہے۔ تو اس طرح ایک گھر پر صرف دو سو روپے کا اضافی بوجھ نظر آتا ہے۔ ویسے یہ بوجھ اس سے کم ہے۔ اکثر گھروں میں اب پانچ کلو چینی بھی نہیں لگتی ہے۔
امیر لوگوں نے تو چینی استعمال کرنا بند کر دی ہے۔ متوسط طبقہ بھی چینی زیادہ استعمال نہیں کرتا۔ ایسے میں سارے حکومتی وسائل چینی پر لگا دینا کوئی عقلمندی کاکام نہیں ہے۔ لیکن حکومت چینی کی دلدل میں ایسی پھنسی ہوئی نظر آتی ہے جہاں سے نکلنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
چینی کا صنعتی استعمال زیادہ ہے۔ بیکریوں اور دیگر فیکٹریوں میں چینی کا استعمال گھریلو استعمال سے بہت زیادہ ہے۔ حکومت کے تمام تر اقدمات کا اس سیکٹر کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لیے لائنوں میں لگوا کر جو چینی بیچی جا رہی ہے۔ اس سے مہنگائی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ وہاں چینی کی وجہ سے جو مہنگائی ہوئی ہے وہ اپنی جگہ قائم ہے اور رہے گی۔ اس لیے کیا حکومت اس بات کا تجزیہ کر سکتی ہے کہ فقط دو کلو سستی چینی دینے کے لیے جس قدر حکومتی وسائل اورمشینری کو لگا دیا گیا ہے، کیا یہ درست ہے۔ کیااتنی طاقت سے کوئی اور بہتر کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔
جس طرح حکومت مصنوعی طریقہ سے چینی سستی بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح باقی مہنگائی کو بھی مصنوعی طریقہ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اصل مسائل کی طرف حکومت کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ کیا حکومت کو اندازہ نہیں ہے مہنگائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بے روزگاری نے لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔ بجلی گیس کے ٹیرف میں بے پناہ اضافہ نے لوگوں کے بجٹ خراب کر دیے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہے۔ گھی، دودھ، گوشت مہنگا ہو رہا ہے۔ مرغی کا گوشت کیوں مہنگا ہو رہا ہے؟ صرف چینی سستی دینے سے ملک میں مہنگائی کنٹرول نہیں ہو جائے گی۔
لوگوں کا شائد چینی کے بغیر گزارا ممکن ہے لیکن آٹا، دودھ، گھی، سبزیوں اور دالوں کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ بجلی گیس کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ ادویات کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ ہر گھر میں بزرگ ہیں۔ ان کی ادویات مہنگی ہو گئی ہے۔ صرف ہیلتھ انشورنس سارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ صرف چینی میں پھنسا کر اپوزیشن نے حکومت کی اصل مسائل سے توجہ ہٹا دی ہے۔ گالم گلوچ میں پھنسا کر اپوزیشن نے حکومت کو مفلوج کر دیا ہے۔ اب حکومت کا سارا وقت اپوزیشن کے ساتھ تو تو میں میں، میں ہی گزر جاتا ہے اور اصل کام کرنے کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔