پاکستان میں اس وقت آمریت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک عام رائے یہی ہے کہ جمہوریت اور آمریت کی اس نئی شکل کو ہائبرڈ نظام کا نام دیا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بات تو باعث اطمینان ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں جمہوریت چل تو رہی ہے۔ کمزور سہی لولی لنگڑی سہی لیکن جمہوریت کا تسلسل تو نظر آرہا ہے۔ موجودہ نظام میں پارلیمنٹ سب سے غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے۔
موجودہ حکومت نے بہت سی اہم وجوہات کی وجہ سے ہی پارلیمنٹ کو غیر موثر کیا ہوا ہے۔ ورنہ اور بہت سے دعوؤں میں سے ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ وزیر اعظم ہر ہفتہ پارلیمنٹ میں سوالات کے جواب دیں گے۔ تا ہم ایسا نہ ہو سکا بلکہ پارلیمنٹ کو تالے ہی لگ گئے۔ موجودہ دور میں پارلیمنٹ گزشتہ دور کی نسبت زیادہ غیر موثر اور غیر فعال ہے۔
آج کل سینیٹ الیکشن میں پیسوں کے لین دین کا بہت شور ہے۔ ایک عمومی رائے بنائی جا رہی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اراکین پارلیمنٹ پیسے لے کر ووٹ دیتے ہیں۔ ووٹوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ اس لیے سینیٹ الیکشن کے لیے سیکرٹ بیلٹ کو ختم کر کے اوپن ووٹنگ ہونی چاہیے۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس نے کس کو ووٹ ڈالا ہے۔
تاہم متعدد کوششوں کے باوجود تادم تحریر یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اپوزیشن کی طرف سے ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ سے ناراض ہیں۔ اس لیے حکومت اوپن ووٹنگ کروانا چاہتی ہے۔ جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ کبھی کوئی حکومت سے ناراض ہوا ہے۔ لوگ اپوزیشن سے ناراض ہو کر حکومت کی طرف جاتے ہیں کبھی کوئی حکومت سے ناراض ہو کر اپوزیشن کی طرف بھی گیاہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے اس موقف میں بہت جان ہے حکومت چھوڑ کر اپوزیشن کی طرف جانا بہت مشکل ہے۔ بہت کم سیاستدانوں میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن کی طرف چلے جائیں۔ عمومی طورپر شدید اختلافات کے باجود بھی لوگ حکومت کو نہیں چھوڑتے۔ حکومت کو تب ہی چھوڑا جاتا ہے جب حکومت جانے کا یقین ہو جائے۔ لیکن تمام تر مخدوش حالات کے باجود ملک میں اپوزیشن ایسا ماحول نہیں بنا سکی ہے کہ حکومت جانے کی باتیں شروع ہو جائیں۔ اور اراکین پارلیمنٹ کو یہ یقین آنا شروع ہو جائے کہ ان کی حکومت جا رہی ہے۔ اس لیے میں بھی نہیں سمجھتا کہ اپوزیشن کے اس موقف میں جان ہے کہ حکومت کے اراکین پارلیمنٹ حکومت کو چھوڑ کر ان کے ساتھ آنے کو تیار ہیں۔
جہاں تک اس مفروضہ کا تعلق ہے کہ حکومت کے لوگ حکومت سے اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن کے امیدوران کو ووٹ ڈال دیں گے۔ مجھے یہ بھی مشکل نظر آتا ہے۔ حکومت کی ایک نہیں کئی آنکھیں ہوتی ہیں۔ اگر ووٹ سیکرٹ بیلٹ سے بھی ہوں تب بھی حکومت کے پاس ایسے حساس ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ہیں جو یہ پتہ لگا لیتی ہیں کہ کس نے حکومت کو اور کس نے اپوزیشن کو ووٹ ڈالا ہے۔ بات اتنی خفیہ نہیں رہتی۔ ایک بھی ووٹ کا ادھر ادھر ہونا پتہ لگ جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں پہلے ہی ووٹوں کی تعداد محدود ہے۔
پھرچھوٹے چھوٹے گروپ بن جاتے ہیں۔ اور جس گروپ سے بھی ووٹ ادھر ادھر ہو پتہ لگ جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نہ ماضی میں کبھی ایسی باتیں خفیہ رہی ہیں اور نہ ہی اب رہنے کا کوئی چانس ہے۔ اس لیے سیکرٹ بیلٹ اتنا بھی سیکرٹ بیلٹ نہیں ہے کہ حکومت کو خبر ہی نہ ہو۔ ماضی میں بھی اگر کسی نے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دیا ہے تواس کا معلوم ہوگیا ہے۔ اگر کسی نے ووٹ کو بیچا ہے تو وہ بات بھی کوئی راز نہیں رہی ہے۔ آج پیسے لینے کی جو فلمیں مارکیٹ میں آرہی ہیں ان کے بارے میں سب کو پہلے سے معلوم تھا۔ حکمران جماعت اتنی بھولی نہیں کہ اسے معلوم نہیں تھا۔ بیس اراکین پنجاب اسمبلی کو اسی لیے نکالا گیا تھا کہ انھوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالے تھے۔ پنجاب میں ن لیگ کی جن خواتین نے چوہدری سرور کو ووٹ ڈالے تھا۔ ان کا سب کو بعد میں معلوم ہو گیا تھا۔ اور ن لیگ نے بعد میں انھیں اگلے ٹکٹ نہیں دیے تھے۔
پاکستان میں ایک تو آمریت کا مسئلہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اس سے بھی بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت کا ہے۔ اب بھی حکومت کی جانب سے شو آف ہینڈ اور شفافیت کے نام پر جو ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں ان سے سیاسی جماعتوں میں آمریت مضبوط ہو گی۔ ہم نے پہلے ہی پارٹی پالیسی سے وفاداری کے نام پر اراکین پارلیمنٹ کو سیاسی جماعتوں کی قیادت کا غلام بنا دیا ہوا ہے۔ ان کی اپنی سوچ کو ختم کر دیا ہوا ہے۔ اگر وہ کسی بات پر اپنی پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے کی جرات کریں تو اسے پارٹی سے غداری اور لوٹا کریسی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس سوچ نے نہ صرف پارلیمنٹ کو غیر موثر کر دیا ہے بلکہ اس کو ربڑ اسٹیمپ بھی بنا دیا ہے۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں اراکین پارلیمنٹ کو اس طرح باندھ کر جمہوریت کو نہیں چلا یاجا رہا ہے۔
ہم یہ بات کیوں نہیں کرتے کہ سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے اور ہر سیاسی جماعت کی قیادت اپنی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کی مرضی سے ٹکٹ دینے کی پابند ہو۔ جب ٹکٹ ہی سیاسی جماعتیں اراکین پارلیمنٹ کی مرضی سے دیں گی تو پھر ان سے ووٹ لینے میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ لیکن ابھی تو یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم نے جس کو بھی ٹکٹ دے دیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ اس کو ووٹ دینے کے پابند ہو جائیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت تو پیسے لے کر ٹکٹ جاری کر سکتی ہیں۔
لیکن اراکین پارلیمنٹ ووٹ نہیں دے سکتے۔ یہ کیسا انصاف ہے۔ کیا سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے مالی اور دیگر مفادات کی روشنی میں ٹکٹیں نہیں دے رہی ہیں۔ کیا ان مفادات کی روشنی میں ٹکٹ دینا جائز ہے۔ لیکن نظام ایسا بنایا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کے فیصلوں پر سوال اٹھانے کی کسی کو کوئی جرات نہ ہو سکے۔ اگر آپ کو اپنی سیاسی جماعت کی قیادت کے فیصلوں پر اعتراض ہے تو آپ سیاسی جماعت چھوڑ دیں۔ سیاسی جماعت کے اندر رہ کر اختلاف کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
ہم اراکین پارلیمنٹ سے تو میرٹ پر پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کا تب مطالبہ کریں جب سیاسی جماعتیں میرٹ اور شفافیت کے مطابق ٹکٹوں کی تقسیم کریں۔ سیاسی قیادت کو اجازت ہے کہ وہ ٹھیکیداروں اور اپنے اے ٹی ایم کو ٹکٹ دے لیکن اراکین پارلیمنٹ کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ان کو ووٹ دینے سے انکار کر دیں۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اجازت ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ دیں۔ لیکن اراکین پارلیمنٹ کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ان کو ووٹ نہ دیں۔ سیاسی قیادت کے ہر فیصلے پر چپ چاپ انگوٹھا لگانا کونسی جمہوریت ہے۔ ، یہ بھی آمریت کی ہی ایک شکل ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اوپن بیلٹ کے نام پر عمران خان بھی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت کو ہی مضبوط کرنے کی ایک اور کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے جمہوریت کے مضبوط ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ صرف مطلق العنان آمر ہی ایسی وفاداری کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اور ہم جمہوریت میں ایسی وفاداریوں کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ جو اپنی جگہ ایک افسوسناک امر ہے۔
بہر حال مجھے اپوزیشن کے اس دعویٰ میں بھی حقیقت نہیں لگتی کہ حکمران جماعت کے لوگ اپوزیشن کو ووٹ ڈال دیں گے۔ جو لوگ ناراض نظر آرہے ہیں وہ نظام کی ستم ظریقی کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے حکمران جما عت کو ہی ووٹ ڈالیں گے۔ ناراض ارکان کے پاس ماننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ کوئی کم پر مان جائے گا کوئی زیادہ پر مان جائے گا۔ لیکن ماننا سب کو ہے۔ البتہ اپوزیشن کے فارورڈ بلاک کے لوگ ضرور حکومت کو ووٹ ڈالیں گے۔ کیونکہ اپوزیشن کے پاس ابھی منانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔