مشیر خزانہ شوکت ترین نے نان فائلر کمرشل اداروں سے بجلی کے بلوں میں ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک بھر کے تاجروں نے ان کے اس اعلان کے خلاف صف بندی شروع کر دی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت ٹھیک کر رہی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہاں تاجر ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب بھی تاجروں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا جائے یہ احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ پاکستان میں تاجروں کے اسی رویہ کی وجہ سے حکومتیں ماضی میں بھی بالواسطہ ٹیکس لگانے پر مجبور ہوتی رہی ہیں۔ اس سے پہلے بھی بجلی کے بلوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس وصول کرنے کی روایت موجود ہے۔
تاجر اور دکاندار کسی بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہمارا تاجر اور دکاندار کسی بھی معاشی نظام کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سیل کی کچی رسیدیں اور نان فائلر کا رحجان پاکستان کے لیے زہر قاتل ہے۔
حکومت نے چند بڑے برینڈ کو پوائنٹ آف سیل بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ لیکن مسئلہ بڑے برینڈز کا نہیں ہے بلکہ عام تاجر کا ہے جو ٹیکس کے کسی بھی نظام میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو حکومت کو اپنے کاروبار کا کوئی بھی حساب کتاب فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جس کی خواہش ہے کہ اس سے اس کی آمدن اور اخراجات کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے۔ جس کے پاس حکومت سے رعایتیں مانگنے کے لیے ہر وقت ایک لمبی فہرست تو موجود ہوتی ہے لیکن وہ حکومت کے مالیاتی نظام کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دکان بڑی ہو یا چھوٹی اسے پاکستان کے ٹیکس نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ کاروبار بڑا ہو یا چھوٹا اسے پاکستان کے ٹیکس نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ میں اس بات کے بھی حق میں ہوں کہ ایف بی آر اور ٹیکس کے حوالے سے جھوٹ بولنے کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ جس کے پاس بھی گھر ہے گاڑی ہے کاروبار ہے اسے پاکستان کے ٹیکس نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ بڑی بڑی مارکیٹوں سے ٹیکس وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بڑی بڑی دکانیں ٹیکس نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ آج بھی کچی رسیدوں اور کچی کاپیوں کا کام ہو رہا ہے۔ ایسے پاکستان نہیں چل سکتا۔ پاکستان کی تباہی میں سیاستدانوں کا کم اور تاجروں کا بڑا ہاتھ ہے۔
یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ ہر حکومت نے ان کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں تو یہ مسلمہ رائے تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ تاجر ان کا ووٹ بینک ہیں۔ اس لیے وہ تاجروں کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انھوں نے ہی پاکستان میں تاجر سیاست کی بنیاد رکھی اور چیمبر آف کامرس سے علیحدہ تاجروں نے اپنی تنظیموں کے ذریعے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مساجد بنا لیں تا کہ وہ حکومت کے ساتھ اپنا الگ معاملہ رکھ سکیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس تاجر سیاست کو بہت پروان چڑھایا۔ اور ان تاجر تنظیموں کی بہت سرپرستی کی جس کی وجہ سے آج تک پاکستان کا ٹیکس مالیاتی نظام ٹھیک نہیں ہو سکا۔
لیکن نواز شریف مخالف حکومتیں بھی تاجروں سے بلیک میل ہوتی رہی ہیں۔ ان کی ہڑتال کی طاقت سے بلیک میل ہوتی رہی ہیں۔ ان کے ووٹ بینک کی طاقت سے بلیک میل ہوتی رہی ہیں۔ حتیٰ کے مشرف نے بھی جب ان کو ٹیکس کے قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے مشرف کو بھی بلیک میل کر لیا۔ ان کی ہڑتال اور احتجاج کی طاقت کے آگے مشرف جیسے آمر نے بھی ہتھیار ڈالے۔ موجودہ حکومت نے بھی تاجروں کے حوالے سے ٹیکس اصلاحات شروع کی تھیں۔ لیکن انھوں نے پھر اسلام آباد میں دھرنا اور احتجاج کی کال دیکر حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
پاکستان میں اس وقت اکٹھا ہونے والے ٹیکس کا بڑا حصہ چند بڑی کمپنیوں سے آتا ہے۔ پھر تنخواہ دار طبقہ اپنی تنخواہوں سے ٹیکس کٹواتا ہے۔ لیکن دکاندار اور تاجر کو ہم ستر سال سے ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے پاس اچھی گاڑیاں ہیں، گھر ہیں، ان کے بچے اعلیٰ مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ یہ چھٹیاں منانے بیرون ملک بھی جاتے ہیں۔
لیکن ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کہ دکاندار پکی رسید نہیں دے سکتا۔ دکاندار اپنے کاروبار کا حساب کتاب نہیں رکھ سکتا۔ دولت جمع کر سکتا ہے لیکن ٹیکس نہیں دے سکتا۔ پاکستان میں اس وقت ایک محتاط انداذے کے مطابق اٹھارہ ٹریلین روپے کا کاروبار ان چھوٹے دکانداروں اور تاجروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ان میں صرف تین ٹریلین ٹیکس نیٹ میں باقی ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے۔ اس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے چاہیے۔ پاکستان میں مینوفیکچرر تو ٹیکس دے رہا ہے لیکن ریٹیلر ٹیکس نہیں دے رہا ہے۔
شوکت ترین کا پاکستان کے تاجر دکاندار اور ریٹیلر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدمات درست سمت میں ہیں۔ پہلے مرحلہ میں بجلی کے بلوں میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی وصولی ٹھیک ہے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ بہر حال بالواسطہ ٹیکس کا نظام کوئی صحت مند نظام نہیں ہے۔ لوگوں کو براہ راست ٹیکس کے نظام میں ہی لانا ہوگا۔ لیکن بہر حال اگر پاکستان کو چلنا ہے تو پاکستان کے تاجر کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کی میں نہ مانوں کی رٹ پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ ستر سال میں پاکستان کا تاجر بہت خوشحال ہوا ہے۔ لیکن تاجر خوشحال ہوا اور پاکستان بدحال ہوا ہے۔
جس تاجر کی دکان کا بل ستر ہزار سے زائد آتا ہے وہ دکان ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے۔ کیا یہ درست ہے۔ جو سال میں ایک دفعہ بھی بیرون ملک جاتا ہے لیکن ٹیکس نہیں دیتا کیا یہ درست ہے۔ اگر کسی کے کاروباری بینک اکاؤنٹ میں اچھے پیسے ہیں لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتا کیا یہ درست ہے۔
حج عمرہ کرتا ہے لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتا کیا یہ درست ہے۔ بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھاتا ہے اور ٹیکس نہیں ادا کرتا کیا یہ درست ہے۔ بچوں کو بیرون ملک پڑھاتا ہے لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ کیا یہ ٹھیک ہے۔ یہ تمام اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حکومت پاکستان کو باقاعدہ ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔ اور اگر نہیں کرتا تو غلط کرتا ہے۔ اس لیے اسے ٹیکس نیٹ میں لانے کے ہر اقدام کی حمایت کرنی چاہیے۔ شوکت ترین صاحب نے اعلان کیا ہے کہ ان سب کو پہلے مرحلہ میں ٹیکس نوٹس بھیجے جائیں گے اور اگر انھوں نے ٹیکس ادا کر دیا تو ٹھیک ورنہ سختی کی جائے گی۔
یہ سب بھی ٹھیک ہے لیکن ساتھ ساتھ ٹیکس کے نظام کو سادہ اور آسان بنانے پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر میں اصلاحا ت کی بھی ضرورت ہے۔ میں اس پراپیگنڈہ سے بھی متفق نہیں ہوں کہ ایف بی آر ہراساں کرتا ہے اس لیے اس کی طاقت کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کا نظام آسان بنانا چاہیے۔
لیکن جو ٹیکس نہیں دیتا اس کے ساتھ سختی سے پیش آنا الگ بات ہے۔ اس سے کوئی بھی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ تاجروں کے روایتی ہتھکنڈے حکومت کو کہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کردیں۔ ہڑتال اور دھرنوں کے آگے حکومت کہیں پھر پیچھے نہ ہٹ جائے۔ ووٹ بینک کا خوف کہیں پھر حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کردے۔ حکومت کو اپوزیشن سے محاذ آرائی ختم کر کے اس کام پر توجہ دینی چاہیے۔ اسی سے پاکستان کی معاشی بحالی ممکن ہے۔ جب یہ ہوجائے گا تو سب ساتھ ہونگے۔ لوگ آپ کو خود بخود سر پر بٹھالیں گے۔