کابل پر قابض ہوجانے کے بعد 1997میں جب طالبان نے "امارات اسلامی افغانستان" کے قیام کا اعلان کیا تو اس بندوبست کو پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ایک باقاعدہ حکومت کے طورپر تسلیم کیا تھا۔ اقوام متحدہ میں تاہم افغانستان کی نمائندگی برہان الدین ربانی کی زیر قیادت بنائی حکومت کے پاس رہی۔ بعدازاں وہ ہمارے ہاں "شمالی اتحاد" کے نام سے مشہور رہی۔ اسے بھارت، ایران اور روس کی حمایت بھی میسر رہی۔
پاکستان امریکہ اور یورپ سے درخواست کرتا رہا کہ طالبان کے بنائے بندوبست کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی اور اقتصادی روابط بڑھائے جائیں۔ یورپ نے اس درخواست پر توجہ نہیں دی۔ امریکہ نے مگر اپنی ایک تیل کی اجارہ دار کمپنی کو طالبان سے روابط کو راغب کیا۔ طالبان کا ایک وفد ان کے امریکہ میں قائم ہیڈ کوارٹربھی گیا۔ نائین الیون نے مگر ہر شے کو الٹ پلٹ کردیا۔
طالبان اب کابل میں فاتح کی صورت لوٹ آئے ہیں۔ ان کی جانب سے کسی عارضی یا مستقل حکومت کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ صوبوں اور مختلف وزارتوں کے گورنر اور نگہبان ہی تعینات ہوئے ہیں۔ پاکستان سمیت کئی ممالک اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ طالبان مذاکرات کے ذریعے کسی ایسی حکومت کا قیام عمل میں لائیں جو افغانستان کی بھرپور نمائندہ نظر آئے۔ طالبان کو اگرچہ یہ ممالک بھی حتمی اختیارکی قوت تسلیم کررہے ہیں۔
طالبان کی کابل میں واپسی بنیادی طورپر دوحہ مذاکرات کی وجہ سے تیز تر اور حیران کن انداز میں ہوئی۔ دوحہ قطر میں واقع ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اسے اپنا حلیف نہیں حریف گردانتے ہیں۔ غالباََ اسی باعث اشرف غنی نے افغانستان سے فرار ہوکر متحدہ عرب امارات میں پناہ گزین ہونے کو ترجیح دی۔ افغانستان کے طالبان سمیت کئی سرکردہ افراد نے متحدہ عرب امارات میں قیمتی جائیدادیں بھی خرید رکھی ہیں۔ متحدہ عرب امارات مگر افغانستان کے موجودہ حالات میں نظر بظاہر دلچسپی لیتا نظر نہیں آرہا۔ سعودی عرب کا رویہ بھی بے اعتنائی والا ہے۔
میری شدید خواہش تھی کہ عالمی امور کی بابت ہمیں باخبر رکھنے والے مبصرین، لکھاری اور اینکر خواتین وحضرات مجھ جیسے کم علم افرادکو یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ طالبان کے دیرینہ خیر خواہ ہوتے ہوئے بھی مشرق وسطیٰ ہی نہیں مسلم اُمہ کے اہم ترین یہ دونوں ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان کا کابل میں فاتحانہ واپسی کے بارے میں پراسرارخاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہماری رہ نمائی کو تاہم کوئی عقل کل آمادہ نظر نہیں آرہا۔
قطر کا رویہ بھی قابل غور ہے۔ کابل ایئرپورٹ کے باہر اور اندر جمع ہوئے ہزاروں افغانوں کو امریکی طیاروں میں لادکر اس ملک پہنچارہے تھے۔ ان کی تعداد بڑھتی نظر آئی تو قطر نے صاف لفظوں میں امریکہ کو بتادیا کہ وہ افغانستان سے منتقلی کے خواہاں ہر شہری کو عارضی طورپر ہی سہی اپنے ہاں قیام کی اجازت نہیں دے سکتا۔ قطر کے اس فیصلے کے بعد امریکہ کو کئی گھنٹوں تک افغانستان سے پناہ کے خواہاں افراد کی پرواز کو روکنا پڑا۔ اب انہیں دنیا کے ایسے ممالک لے جایا جارہا ہے جہاں امریکہ کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ ارادہ یہ بتایا جارہا ہے کہ وہاں تقریباََ محصور ہوئے افغانوں کی چانچ پڑتال کے بعد انہیں بالآخر امریکہ میں آباد کرنے کی راہ نکالی جائے گی۔
بائیڈن انتظامیہ مذکورہ ارادے کا تواتر سے اظہار محض اس وجہ سے کررہی ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے گردا ب بھی ہزاروں افغان اپنے انخلاء کی خواہش سمیت بیٹھے ہوئے ہیں۔ پناہ کی تلاش کو بے چین افغانوں کا ہجوم ٹی وی سکرینوں کو "انسان دوستی" کی دہائی مچانے کو اکسا رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ تسلی دینے کی کہانیاں گھڑنے کو لہٰذا مجبور ہے۔ افغانستان سے عالمی اداروں کے "سٹار" رپورٹر اب باہر آچکے ہیں۔ ان کے لئے کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کرنے والے مقامی رپورٹروں کی کثیر تعداد بھی افغانستان چھوڑ چکی ہے۔ کابل ایئرپورٹ کا مکمل کنٹرول فی الوقت امریکہ کے پاس ہے۔ اسے مؤثر بنانے کے لئے چھ ہزار سے زائد امریکی فوجی بھی وہاں موجود ہیں۔
طالبان نے مگر اب امریکہ کو کھل کر بتادیا ہے کہ وہ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کو 31اگست گزرجانے کے بعد ایک دن کے لئے بھی برداشت نہیں کریں گے۔ جس روز میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اسی دن امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے G-7نامی تنظیم کا اجلاس بلارکھا ہے۔ شنید ہے کہ اس تنظیم کے ذریعے طالبان کوقائل کرنے کی کوشش ہوگی کہ وہ افغانستان سے انخلاء کے خواہش مند شہریوں کی خاطر امریکی افواج کی وہاں موجودگی کی میعاد بڑھادے۔ طالبان اس کی بابت رضا مند ہوتے نظر نہیں آرہے۔
دو دہائیوں کی جنگ کے بعد کابل لوٹے طالبان کو اپنے امیج کی بہت فکر لاحق ہے۔ میڈیا کی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے سوچا جائے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبان کے کابل میں داخلے کے بعد وہاں کے شہری متاثر کن تعداد میں سڑکوں پر نکل کر ان کا خیر مقدم کرتے۔ خیر مقدمی ہجوم کے بجائے کابل ایئرپورٹ کے گردجمع ہوئے ہجوم نے تاثر مگر یہ پھیلایا ہے کہ طالبان کی کابل آمد نے وہاں کے شہریوں کو خوفزدہ کردیا ہے۔ وہ خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔ افغانستان میں مستحکم اور خوش گوار مستقبل کی امید کھوبیٹھے ہیں۔ اپنے امیج کے بارے میں متفکر طالبان کو کابل ایئرپورٹ کے گرددکھائے مناظر پریشان وناراض کررہے ہیں۔ اسی باعث وہ مزید شدت سے خواہش مند ہوں گے کہ امریکہ کو افغانستان میں 31اگست سے زیادہ روز قیام کی اجازت نہ دی جائے۔
میرے وسوسے بھرے دل کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اپنی افواج کو 31اگست کے بعد افغانستان میں تعینات رکھنے کی دل سے خواہش مند نہیں۔ طالبان نے اجازت نہ دی تو وہ یہ بہانہ بآسانی تراش سکتی ہے کہ وہ امریکہ کے لئے گزشتہ 20برسوں سے کام کرنے والے ہر افغان کو اس لئے پناہ فراہم نہ کر پائی کیونکہ طالبان نے تعاون سے انکار کردیا تھا۔
امریکی افواج کا 31اگست کے روز افغانستان سے کامل انخلاء ہوگیا تو اس کے بعد ہمیں بی بی سی اور سی این این وغیرہ پر اس ملک کا تذکرہ بتدریج معدوم ہوتا نظر آئے گا۔ دریں اثناء طالبان نے مقامی میڈیا کے لئے ویسا ہی انتظام متعارف کروادیا ہے جو وطن عزیزمیں ہمارے وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب نہایت لگن سے لاگو کرنا چاہ رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور کی طرح اب افغان اخباروں میں چھپنے کے لئے بنائی ہر خبر اور مضمون اور ٹی وی پر چلانے کے لئے تیار ہوا پروگرام پہلے طالبان حکام "کلیئر" کریں گے۔ افغان اور عالمی میڈیا میں اس کے بعد افغانستان کی بابت وہی "خبر، شائع اور نشر ہوگی جو طالبان چاہیں گے۔ یوں نام نہاد عالمی ضمیر افغانستان کو ویسے ہی نظرانداز کرنا شروع کردے گا جیسے مقبوضہ کشمیر یا لبنان کے موجودہ حقائق کو کیا جارہا ہے۔