سوشل میڈیا اعدادوشمار جنہیں انگریزی میں ان دنوں ڈیٹا کہا جاتا ہے کے ذریعے ذہنوں کو گمراہ کرنے والے سوالات اٹھانے میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ تازہ ترین مثال اس کی آزادکشمیر کے انتخابی نتائج آجانے کے بعد نمودار ہوئے"تجزیے" ہیں۔ سب سے اہم سوال ان میں یہ اٹھایا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اجتماعی ووٹ تو اسے تیسرے نمبر پر آئی جماعت دکھارہے ہیں۔ آزادکشمیراسمبلی میں لیکن جو نشستیں اسے نصیب ہوئیں وہ اسے دوسرے نمبر پرلے آئی ہیں۔ یہ"معجزہ" کیسے ہوگیا؟ "معجزے" کا ذکر یہ سوچنے کو بھی اُکساتا ہے کہ کہیں بلاول بھٹو زرداری کو نیا "لاڈلا" بنانے کی تیاری تو نہیں ہورہی۔
فی الوقت میں اس سوال کا جواب سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ محض بنیادی حقائق پر توجہ دلانامقصود ہے۔ ہمارے ہاں جو انتخابی نظام مروج ہے اسے انگریزی میں First Past The Postکہا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ہمارے ہاں قانون ساز اداروں کی نشستیں حلقے طے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے آزادکشمیر کے حالیہ انتخاب میں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ سے زیادہ "حلقے"جیتے ہیں۔ اس جماعت کو ملے اجتماعی ووٹوں کا اس حوالے سے کوئی لینا دینا نہیں۔
یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھیں کہ تاریخی اعتبار سے ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے آزادکشمیر میں بھی خود کو متعارف ومنظم کیا۔ 1970سے قبل اسے خطے میں فقط "ریاستی جماعتیں " ہی سیاسی عمل کی اجارہ دار رہی ہیں۔ ان میں سے سب سے نمایاں جماعت جموں وکشمیر مسلم کانفرنس تھی جو 1930کی دہائی میں نمودار ہوئی تھی۔ کشمیر کے ایک انتہائی قدآور سیاستدان شیخ عبداللہ بھی اس کا حصہ رہے۔ چودھری غلام عباس اس جماعت کے بانیوں میں شامل تھے۔ شیخ عبداللہ مگر ان کی "مسلم شناخت" والی سوچ سے متفق نہیں تھے۔ اس کے علاوہ جموں اور وادیٔ کشمیر کے مابین ثقافتی دوریا ں بھی ان دونوں قدآور سیاستدانوں کے مابین اختلافات کو شدید تر بناتی رہیں۔ مسلم کانفرنس سے الگ ہوکر ہی شیخ عبداللہ نے نام نہاد "سیکولر ازم" کے دفاع کے لئے "نیشنل کانفرنس" بنائی تھی جو مقبوضہ کشمیر میں آج بھی اس نام سے موجود ہے۔ 1970کی دہائی سے ہمارے ہاں مسلم کانفرنس سردار عبدالقیوم خان سے منسوب رہی ہے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے صاحبزاد سردار عتیق نے موروثی سیاست کی بنیاد پر اس کی قیادت سنبھال لی۔
تاریخی اعتبار سے نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ آزادکشمیر میں اپنی الگ شناخت اجاگر کرنے سے کتراتی رہی ہے۔ وہ تصور کرتی تھی کہ "نظریاتی اعتبار"سے مسلم کانفرنس اس جماعت ہی کی گویا ایک شاخ ہے۔ آزادکشمیر میں 2016کے انتخاب سے قبل مگریہ سوچ ابھری کہ مسلم لیگ (نون) کو الگ شناخت کے ساتھ مذکورہ انتخاب میں حصہ لینا چاہیے۔ نواز شریف کے کئی ساتھیوں نے اس سوچ کی مزاحمت کی۔ تاہم جب الگ شناخت کی حمایت میں فیصلہ ہوگیا تو مسلم کانفرنس ہی سے آئے راجہ فاروق حیدر آزادکشمیر کی مسلم لیگ (نون) کے رہ نما بن گئے۔ مسلم کانفرنس ہی کے ایک اور سرکردہ اور دیرینہ رہ نما سردار سکندر حیات نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اس تناظر کو ذہن میں رکھیں تو مسلم لیگ (نون) ایک حوالے سے آزادکشمیر کی نسبتاََ نئی جماعت ہے جس کا قیام آج سے پانچ سال قبل عمل میں آیا تھا۔ اس جماعت کے برعکس پیپلز پارٹی 1970کی دہائی سے اس خطے میں موجود ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کم از کم تین بار آزادکشمیر میں برسراقتدار بھی رہی ہے۔ اس کے پاس دھڑے اور ڈیرہ والے چودھری یٰسین جیسے امیدوار بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مظفر آباد سے پڑھی لکھی مڈل کلاس کے ایسے نمائندے بھی ہیں جو آج بھی خود کو ذوالفقار علی بھٹو کے روشن خیال اور ترقی پسند جیالے تصور کرتے ہیں۔ ان کے بزرگ جن دنوں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے تو آزادکشمیر کے قدامت پسند معاشرے میں انہیں "دہریہ" پکارا جاتا تھا۔ وہ مگر اپنی سوچ پر ڈٹے رہے اور ان کی استقامت نئی نسل کو بھی منتقل ہوئی ہے۔
اپنی تاریخی جڑوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے کئی حلقوں میں تگڑے امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بی بی نے چند جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے رونق بھی لگادی۔ اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے بے پناہ منظم انتخابی مہم بھی چلائی۔ پولنگ کے روز دھاندلی یا زور زبردستی کی مزاحمت ان ہی کے کارکنوں کی جانب سے نظر آئی ہے۔ اس تناظر میں وہ اگر دس سے زیادہ نشستیں جیت کر آزادکشمیر اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن گئی تو اس کی بابت طنز بھرے سوالات اٹھانا محض تعصب کا اظہار ہے۔
آزادکشمیر "فتح" کرلینے کے بعد فواد چودھری صاحب اب پیپلز پارٹی کو سندھ سے بھی فارغ کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اگر واقعتا "لاڈلے" بن گئے ہوتے تو وزیر اطلاعات اپنی جارحانہ تنقید کا نشانہ صرف نواز شریف اور ان کی دختر ہی کو بنائے رکھتے۔ تحریک انصاف کو کامل اعتماد ہے کہ 2023میں متوقع پاکستان کا عام انتخاب بھی وہی جیتے گی۔ یوں عمران خان صاحب پاکستان کے سارے صوبوں کی "زنجیر" بن جائیں گے۔
خود کو "زنجیر" ثابت کرنے کے لئے تحریک انصاف کے لئے مگر لازمی ہے کہ سندھ سے پیپلز پارٹی کو فارغ کیا جائے۔ عمران حکومت کے ایک بلند آہنگ وزیر ویسے بھی بلاول بھٹو زرداری کو نہایت حقارت سے "پرچی والا چیئرمین" پکارتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور نے حال ہی میں ذوالفقار علی بھٹو کو آزادکشمیر کے جلسوں میں "غدار" بھی ٹھہرادیا۔ اپنی جماعت کے بانی کے بارے میں نفرت سے ادا ہوئے ان فقروں کو آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کے روایتی ووٹرں نے پسند نہیں کیا۔ علی امین گنڈا پور کا رویہ ایک حوالے سے بلکہ اس جماعت کو آزادکشمیر اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوا۔
مراد سعید اورعلی امین گنڈا پور کی رعونت وحقارت بھری تقاریر تحریک انصاف کو سندھ میں 2023کے متوقع انتخابات جتوانے میں ہرگز مددگار ثابت نہیں ہوں گی۔ اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے تحریک انصاف کو اس ضمن میں کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس عبدالقادر پٹیل بھی ہیں۔
آزادکشمیر فتح کرنے کا جشن مناتے ہوئے عمران حکومت کے وزراء کو یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے کہ ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ وہ 12نشستیں ہیں جو پاکستان میں آباد" کشمیری مہاجرین" کے لئے وقف ہیں۔ ان حلقوں میں ووٹروں کی تعداد آزادکشمیر میں موجود حلقوں کے مقابلے میں مضحکہ خیز حد تک قلیل ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے انہیں Manageکرنا بہت آسان ہے۔ انتخابی نتائج پر سنجیدگی سے غور کریں تو آزادکشمیر کہلاتے علاقوں میں تحریک انصاف نے ہرگز کلین سویپ نہیں کیا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کی مخالف جماعتوں کے مابین مقابلہ درحقیقت "ففٹی ففٹی" رہا۔ عمران خان صاحب کو آزادکشمیر کا وزیر اعظم نامزد کرتے ہوئے اس پہلو پر بھی سنجیدہ غور کی ضرورت ہے۔"برادری" آزادکشمیر کی سیاست میں اکثر کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ سردار تنویر کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں اس امر پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پر اگرچہ نگاہ ڈالیں تو فی الوقت یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہی سہاگن کہلائے جو پیامن بھائے۔