خلافت عباسیہ کے دورِ زوال والے بغداد کے لوگوں کی طرح ہم بھی فروعات میں الجھ جاتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کے روز پاک فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں نے 80کے قریب اراکین پارلیمان کے ساتھ افغانستان کے موضوع پر آٹھ گھنٹوں تک پھیلی گفتگو کی۔ اس گفتگو کو "آف دی ریکارڈ" ٹھہرایا گیا تھا۔ ہمارے رپورٹروں کی کماحقہ تعداد کو مگر اس کی تفصیلات کاپتہ چل گیا۔ یوٹیوب پر چھائے چند"ذہن سازوں " کے پروگرام سنے تو گماں یہ بھی ہوا کہ گویا پارلیمان کی پریس گیلری میں بیٹھے مذکورہ گفتگو پر رواں تبصرہ کررہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ "باخبر" لوگوں کو یہ خوش کن اطلاع بھی مل گئی کہ امریکی صدر بائیڈن مذکورہ گفتگو سے گھبرا گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں "ڈومور" سے صاف انکار کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم نے اسے حواس باختہ کردیا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ عمران خان صاحب پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے سراٹھاکر قومی حمیت وخودمختاری کا دلیری سے دفاع کیا ہے۔
ان کایہ دعویٰ سنتے ہوئے مجھے ہمارے اولیں دیدہ ور فیلڈ مارشل ایوب خان کی الطاف گوہر کے ہاتھوں لکھوائی "آپ بیتی" یاد آگئی۔"جس رزق سے آتی ہو?" اس کا عنوان تھا۔ یہ کتاب چھپنے کے چند ہی ماہ بعد وہ ایک عوامی تحریک کی وجہ سے استعفیٰ دینے کو مجبور ہوگئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نام کا ایک شخص بھی 1977میں پاکستان کا وزیر اعظم تھا۔ موصوف ایک دن قومی حمیت سے مغلوب ہوکر اچانک راولپنڈی صدر پہنچ گئے تھے۔ وہاں مجمع اکٹھاہوا تو اس کے روبرو ایک چٹھی لہرانا شروع ہوگئے جو ایک سینئر ترین امریکی رہ نما نے لکھی تھی۔ اس میں شکوہ تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم امریکہ کو ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے "بدنام" کررہے ہیں۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ہاتھیوں کی یاداشت کا صحرائوں کے باسیوں کی یاداشت سے تقابل بھی کرتے رہے۔ اسی برس کے جولائی کا آغاز ہوتے ہی مگر ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بالآخر تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھادئے گئے۔ ہماری عدالتوں نے انہیں حب الوطنی کا محافظ تسلیم کرنے کے بجائے "قاتل" قرار دیا تھا۔ ان کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیاء اسلامی اصولوں کے عین مطابق "مجرم" کو معاف کرنے کو ہرگز آمادہ نہ ہوئے۔
امریکہ سے دشمنی کے بجائے جنرل ضیاء نے دوستی نبھائی۔ کیمونسٹ روس افغانستان میں داخل ہوا تو اسے جہادیوں کے ہاتھوں پٹواکرپاش پاش کردیا۔ دشمن کو ذلیل ورسوا کرنے کے بعد مگر "کوئلوں کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرنے" کا گلہ کرتے رہے۔ وہ 17اگست 1988میں ایک فضائی حادثے کا شکار ہوئے۔ آج تک اس حادثے کی حقیقی وجوہات کا تعین نہیں ہوپایا ہے۔ عمران خان صاحب لہٰذا ہماری تاریخ کے اولیں دلاور نہیں ہیں۔ ایوب خان، بھٹو اور جنرل ضیاء کے اپنائے رویے کو نئے انداز میں دہرارہے ہیں۔ ربّ کریم انہیں حفظ وامان میں رکھے۔
عمران خان صاحب کی دلاوری سراہنے کے بجائے "آٹا گوندھتے ہوئے ہل کیوں رہی ہو؟ " جیسے اعتراضات اٹھانے والے "لفافے" مگر سوال اٹھارہے ہیں کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہوئی ایک اہم ترین بریفنگ میں وزیر اعظم شریک کیوں نہ ہوئے۔ اس سوال کا واضح جواب اگرچہ ہمارے ایک سینئر ترین صحافی جناب ارشاد بھٹی صاحب نے ایک ٹی وی پروگرا م میں بیان کردیاتھا۔ کوئی پسند کرے یا نہیں ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ بھٹی صاحب کو ہمارے اعلیٰ ترین پالیسی سازوں اور حتمی حکمرانوں تک قابل رشک رسائی حاصل ہے۔ ان کی بتائی خبر کی صداقت پر سوال اٹھانا کم از کم میرے لئے تو ممکن نہیں۔ یہ ظالم دنیامگر حاسدوں سے بھری پڑی ہے۔ بھٹی صاحب کو سراہنے کے بجائے اکثر طنز کے زہر سے بھرے فقروں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ سادہ اور منہ پھٹ آدمی ہیں۔ خود کو "دانشور" ثابت کرنے والے ڈرامے نہیں رچاتے۔ ان کی زبان اور لہجہ قصباتی سیانوں جیسا ہے۔ کسی انگریزی اخبار کے مدیر ہوتے تو ان کی گفتگو کو ادب سے سناجاتا۔ مغرب کی نقالی والی غلامانہ ذہنیت انہیں پاکستان کا رابرٹ ووڈورڈ(Robert Woodward)پکارتی۔
یاد رہے کہ مذکورہ امریکی صحافی نے واٹر گیٹ سکینڈل آشکار کیا تھا۔ اس کی وجہ سے امریکہ کے ایک طاقت ور ترین صدر -نکسن- کو جس نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ روابط استوار کرتے ہوئے تاریخ بنائی تھی، اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ باب ووڈ ورڈ اب گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی صدور کی قربت میں کئی ماہ گزارنے کے بعد بالآخر ایک کتاب لکھتا ہے۔ اس کی لکھی کتابوں کو پڑھے بغیر آپ جان ہی نہیں سکتے کہ جارج بش، اوبامہ یا ٹرمپ کے ادوار میں قومی اور عالمی حوالوں سے اہم ترین فیصلے کیسے ہوئے تھے۔
بھٹی صاحب سے میری رسمی سلام دُعا ہے۔ میری خواہش مگر یہ ہے کہ کسی دن ان سے رابطہ کروں۔ وہ فیصلہ سازوں سے ہوئی گفتگو میرے گوش گزار کرتے رہیں۔ میں انہیں انگریزی میں مرتب کرنا شروع کردوں۔ کافی مواد جمع ہوگیا تو ہم امریکہ یا برطانیہ کے کسی نامور پبلشر سے رابطے کے بعد پاکستان میں ہوئی اہم فیصلہ سازی کی بابت ایک دھانسو کتاب شائع کرواسکتے ہیں۔
اس کالم کے آغاز میں جو بات لکھی تھی سچی ثابت ہورہی ہے۔ میں بھی اصل موضوع پر توجہ دینے کے بجائے فروعات میں بہک گیا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ عمران خان صاحب قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے ہوئی ایک اہم ترین بریفنگ میں شریک کیوں نہیں ہوئے۔ ارشاد بھٹی صاحب نے خبردی ہے کہ بریفنگ دینے والوں نے جو کچھ بتانا تھا اس کی بابت وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ پہلے ہی سے باخبر ہیں۔ انہیں بریفنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ بریفنگ دینے والوں کو مگر عمران خان صاحب نے اجازت دی کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس ضمن میں اعتماد میں لے لیں۔ مجھے یہ خبر معقول محسوس ہوئی۔ فواد چودھری صاحب کا مگر اصرار ہے کہ وزیر اعظم کو خدشہ لاحق تھا کہ ان کی موجودگی میں اپوزیشن والے "خوشامدی" رویہ اختیار کرنے سے گھبرائیں گے۔"منظور تھا پر دہ تیرا" سوچتے ہوئے بریفنگ میں نہیں گئے۔ فواد چودھری صاحب کے دعویٰ کو درست شمار کریں تو جی یہ کہنے کو بھی مچل جاتا ہے کہ گزشتہ جمعرات کے روز گویا کوئی "بریفنگ" نہیں ہوئی تھی۔
"دربار" سجا تھا جہاں اپوزیشن والے "ساہڈی واری آن دیو" کی تگ ودو میں مبتلا رہے۔ وزیر اطلاعات کے مذکورہ دعویٰ کو جھٹلانے کا مجھ میں تو حوصلہ نہیں۔ وہ جانیں اور مریم اورنگزیب۔ ٹی وی سکرینوں پر ان دنوں کی مہارتوں کی بدولت بھاگ لگے رہیں۔
گزشتہ جمعرات کے دن قومی سلامتی کے حوالے سے اہم ترین بریفنگ میں جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات جاننے کے لئے عرصہ ہوا عملی صحافت سے ریٹائر ہوئے اس رپورٹرنے ذرا سی بھی کوشش نہیں کی۔ اخبارات میں اس حوالے سے چھپی خبروں پر ہی اکتفا کیا۔ مزید تفصیلات یوٹیوب چینل والوں نے فراہم کردیں۔ ان میں سے اکثر کو سنتے ہوئے عمر کے ہاتھوں کمزور ہوا ایمان بھی تازہ ہوگیا۔ جمعرات کی شب سے اپنے گھر تک محدود رہا ہوں۔ نجم سیٹھی جیسی "چڑیا" مجھے میسر نہیں "زبانی طیور" کے مگر اطلاع یہ آئی ہے کہ مذکورہ بریفنگ میں زلمے خلیل زاد کا ذکر بھی ہوا تھا۔ یاد رہے کہ یہ افغانستان نژاد امریکی شہری بش انتظامیہ کے بہت قریب رہا ہے جس نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر "دہشت گردی کے خلاف" جنگ مسلط کی تھی۔ امریکی جب اس جنگ سے تھک گئے تو ایک اور ری پبلکن صدر ٹرمپ نے اسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنا نمائندہ بنایا۔ دوحہ مذاکرات کا لہٰذا کلیدی کردار ہے۔
زلمے خلیل زاد کی جانب سے ہوئے معاہدے پر کامل عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے صدر بائیڈن نے اسے تبدیل نہیں کیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جمعرات کے روز ہوئی بریفنگ کے دوران عمران حکومت کے ایک وزیر نے زلمے خلیل زاد کو برابھلا کہا۔ میں اس وزیر کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا۔ تذکیروتانیث کی سہولت بھی اس ضمن میں احتیاطاََ استعمال نہیں کررہا۔ اس وزیر کو تاہم بتایا گیا کہ زلمے خلیل زاد اتنا بھی برا نہیں ہے ایک موقع پر بلکہ اس نے پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات سیدھا کرنے کے قابل قدر معاونت بھی فراہم کی تھی۔ زلمے خلیل زاد پاکستان کا خیرخواہ ہے یا نہیں؟ یہ طے کرنا میری اوقات سے بالاتر ہے۔"زبانی طیور" کی آئی ایک کہانی سے "مکدی گل" مگر یہ سمجھ میں آئی ہے کہ افغانستان کو زیر بحث لاتے ہوئے ہمارے ایمان کو تازیانے لگاکر جگاتے ہوئے ذہن سازوں کو پاکستان کے آئی ایم ایف پر انحصار کی حقیقت بھی ہرگز نظرانداز نہیں کر نا چاہیے۔