1990کی دہائی سے مجھ جیسے کئی سادہ مزاج صحافی اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ اپنے بھائی کے مقابلے میں شہباز شریف صاحب بہت ہوشیار اور چالاک ہیں۔ اپنے مخالفین کی لگائی گیم کو فوراََ بھانپ لیتے ہیں اور انتہائی عجلت میں "اصل لوگوں " سے رابطے استوار کرنے کے بعد اسے ناکام بنادیتے ہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف سے میری دیگر سیاسی رہ نمائوں کے مقابلے میں بہت کم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ بڑے بھائی سے جو ملاقاتیں ہوئیں مجھے یہ طے کرنے میں مددگار ہوئیں کہ موصوف سادہ نظر آتے ہیں مگر ہیں نہیں۔ اپنے خاموش مہذب اور دھیمے انداز کی بدولت درحقیقت دوسروں کو اپنے دل میں جھانکنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ شہباز صاحب کی ان کے مقابلے میں فقط "آنیاں جانیاں " ہیں۔"میاں مدن" والی بات نہیں۔ پیر کی سہ پہر شہباز صاحب نے ان کے بارے میں میری سوچ کو درست ثابت کردیا۔
کئی دہائیوں سے طے ہوئی پارلیمانی روایات کے مطابق کسی حکومت کا وزیر خزانہ جب کسی نئے مالی سال کے آغاز پر بجٹ تجاویز پیش کردے تو اس پر عام بحث کا آغاز ہمیشہ قائد حزب اختلاف کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس کی تقریر پر وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ جس بھی موضوع پر جتنی دیر چاہے بول سکتا ہے۔ قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران حکومتی مداخلت "غیر پارلیمانی" شمار ہوتی ہے۔
جولائی 2018کے انتخاب کے طفیل ہمارے ہاں مگر جو قومی اسمبلی وجود میں آئی وہ اپنی سرشت میں کئی اعتبار سے "نرالی" ہے۔ پارلیمانی روایات کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ بسااوقات اس کی کارروائی دیکھتے ہوئے مجھے اپنے اندرون لاہور کا وہ محلہ یاد آجاتا ہے جہاں کی خواتین بہت لڑاکوں مشہور تھیں۔ ان کے مرد صبح کے ناشتے کے بعد گھروں سے نکل جاتے تو چوباروں کی کھڑکھیوں میں نمودار ہوکر اپنی مخالف خواتین کو لفظی جنگ کے لئے للکارنا شروع ہوجاتیں۔ فریقین کے مابین اس "جنگ" کے دوران جن استعاروں اور تلمیحات کا استعمال ہوتا وہ ہجو لکھنے کے استاد مانے شعرا بھی اپنے تصور میں نہیں لاسکتے۔
یہ بات قطعاََ درست کہ موجودہ قومی اسمبلی کی گلیوں میں نظر آئے شوروغوغا والا ماحول بنیادی طور پر وہاں بھاری بھر کم تعداد میں موجود اپوزیشن اراکین نے فراہم کیا ہے۔ حزب مخالف کا اصرار ہے کہ 2018کے انتخاب اس سے "چرائے" گئے تھے۔ عمران خان صاحب "منتخب" نہیں بلکہ "سلیکٹڈ" وزیر اعظم ہیں۔ وہ ان کی قومی اسمبلی میں ہوئی تقاریر کو احترام سے سننے کو کبھی تیار نہیں ہوئے۔ محاذآرائی تاہم "کپتان" اور ان کے ساتھیوں کی سیاست کا کلیدی وصف رہی ہے۔ اپوزیشن نے حکمران جماعت کو پارلیمان میں ہنگامہ آرائی سے مفلوج بنانا چاہا تو یکسوہوکر جوابی وار کرنا شروع ہوگئے۔ بتدریج اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انہوں نے انتہائی تجربہ کار پارلیمنٹرین سے مالا مال اپوزیشن کو دیوار سے لگادیا ہے۔
"دل ناتواں " اگرچہ "مقابلہ" کرنے سے باز نہیں رہتا۔ گزرے جمعہ کے روز شوکت فیاض ترین کی بجٹ تقریر کے دوران لہٰذا مستقل ہنگامہ برپارہا۔ پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے ان کی تقریر کا ایک لفظ بھی سنا نہیں جاسکتاتھا۔ پارلیمانی رپورٹروں کی اکثریت کا اگرچہ اصرار رہا کہ جمعہ کے روز ہوا ہنگامہ اسد عمر اور حماد اظہر کی جانب سے پڑھی بجٹ تقریروں کے دوران ہوئے شوروغوغا کے مقابلے میں کافی "نرم" تھا۔
پارلیمانی رپورٹروں کو "نرم" دکھائی دینے والا ہنگامہ بھی لیکن عمران حکومت کے سینئر ترین اور سنجیدہ تصور ہوئے وزراء بھی برداشت نہیں کرپائے ہیں۔ انہوں نے "ادلے کا بدلہ "کا ارادہ باندھ لیا۔ پیر کی سہ پہر شہباز شریف صاحب نے اپنی تقریر شروع کی تو اس کے ابتدائی تین فقرے ختم ہونے سے قبل ہی ملتان کے ذاتی طورپر "خوش گفتار" مشہور ہوئے مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نے سپیکر اسد قیصر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت طلب کرلی۔ اسد قیصر صاحب پر "غیر جانب داری، کی تہمت لگانا ممکن نہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو لیکن پیر کی سہ پہر انہوں نے "پارلیمانی روایات" یاد دلانے کا ڈرامہ رچایا۔ وزیر خارجہ ان کی استدعا کو سنی ان سنی کرتے رہے۔ دریں اثناء ڈیرہ اسماعیل خان کے امین گنڈا پور بھی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔ انہیں "شیر"بنانے کے لئے حکمران جماعت کی پچھلی نشستوں سے شہباز شریف کو زچ کرنے کے لئے "چور چور"کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے۔
اپنے پارلیمانی تجربے کی بنیاد پر مجھے کامل یقین تھا کہ حکمران جماعت کے ارادوں کو فوراََ بھانپتے ہوئے شہباز شریف صاحب اپنے کانوں پر ہیڈ فون چڑھانے کے بعد ایوان میں برپا ہوئے شور شرابے سے بے نیاز اپنی تقریر پڑھتے رہیں گے۔ شوکت ترین نے جمعہ کے روز اسی رویے کو اختیار کرتے ہوئے اپنی تقریر مکمل کی تھی۔ وہ بنیادی طورپر ایک بینکار "ٹینکوکریٹ" ہیں۔ شہباز صاحب ان کے برعکس 1990کی دہائی سے منتخب ایوانوں کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ "یہاں پگڑی اچھلتی ہے"۔
دورِ حاضر میں ایسے جدید ترین مائیک سستے داموں بازار میں میسر ہیں جو فقط اپنے سامنے بولنے والے شخص کی آواز کو صاف اور بلند ترین انداز میں سامعین تک پہنچاتے ہیں۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر اگر آپ ٹی وی سکرین یا یوٹیوب کی بدولت پارلیمانی کارروائی دیکھ رہے ہوں تو آپ کو ایوان میں ہوئے ہنگامے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ فقط اس رکن اسمبلی کی بات سنائی دیتی ہے جسے سپیکر نے مائیک فراہم کیا ہوتا ہے۔
میری اطلاع کے مطابق شہباز صاحب نے اپنی تقریرتیار کرنے میں کامل دو دن لگائے تھے۔ محترمہ عائشہ غوث پاشا جیسی ماہر معیشت نے بجٹ تجاویز کی بھاری بھر کم دستاویزات کو ان کی سہولت کے لئے کھنگالا۔ مفتاع اسماعیل نے کاروباری شخص کی نگاہ سے ان کا جائزہ لیا۔ شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر اور احسن اقبال نے شہباز صاحب کی ممکنہ تقریر کے لئے سیاسی تڑکے فراہم کئے۔
یہ بات یقینی تھی کہ ہمارے 24/7چینلوں کی اکثریت قائد حزب اختلاف کی طولانی تقریر کو کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر لائیو دکھاتی۔ سہ پہر چار بجے سے شام سات بجے کے درمیان ٹی وی چینلوں کے پاس ویسے بھی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کوئی "سودا "نہیں ہوتا۔ شہباز صاحب کی بجٹ کی بابت ہوئی تقریرپر ہی لہٰذا ٹکے رہتے۔ پریس گیلری یا ایوان میں موجود کوئی شخص قائد حزب اختلاف کی تقریر کا ایک لفظ بھی سن پاتا یا نہیں مگر یہ تقریر ٹی وی چینلوں کی بدولت پاکستان کے لاکھوں نہ سہی ہزاروں گھروں تک براہ راست پہنچ جاتی۔ شہباز صاحب اس حقیقت کا اندازہ لگانے میں قطعاََناکام رہے۔
سپیکر اسد قیصر شہباز صاحب کے مقابلے میں پہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ پیر کے روز مگر وہ قائد حزب اختلاف کے مقابلے میں کہیں زیادہ چالاک ثابت ہوئے۔ کمال ہوشیاری سے اعلان کردیا کہ ایوان میں پرسکون ماحول کو یقینی بنانے کے لئے وہ قومی اسمبلی کی کارروائی کو 20منٹ کے لئے معطل کررہے ہیں۔ وقفے کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے ان کے دفتر میں آئیں۔ وہاں باہمی گفت وشنیدکے ذریعے طے کیا جائے کہ بجٹ پر ہوئی عام بحث کے دوران قومی اسمبلی کا ماحول کیسے"خوش گوار وباوقار"رکھا جائے۔ شہباز شریف اور ان کے ساتھی نجانے کیوں سپیکر کی جانب سے برتی "باریک واردات"کے جھانسے میں آگئے۔
جو "وقفہ" محض 20منٹ کے لئے تھا تین سے زیادہ گھنٹوں تک جاری رہا۔ سپیکر کے دفتر میں جو اجلاس ہوا وہاں حکومتی نمائندے مصر رہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بجٹ کے حوالے سے ہوئی تقاریر صرف اسی صورت پرسکون ماحول میں مکمل کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی اگر حزب اختلاف کی جماعتیں یہ "تحریری وعدہ" کریں کہ وہ وزیر اعظم اور دیگر وزراء کی تقاریر کو بھی احترام سے سنا کریں گی۔
"عزت واحترام" کا تقاضہ صرف وزیراعظم صاحب کی ذ ات کی بابت ہی نہیں ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے یہ یقین دہانی بھی طلب کی جاتی رہی ہے کہ اس جماعت کے قادرپٹیل تحریک انصاف کے بلند آہنگ اور جواں سال وزیر جناب مراد سعید کی ذات پر"غیر مہذب فقرے" نہیں اچھالا کریں گے۔ میرا خیا ل ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تحریری طورپر مطلوبہ "نیک چال چلن" کا وعدہ فراہم نہیں کرسکتیں۔ نیک چال چلن کے جو وعدے عمران حکومت کے نمائندے قومی اسمبلی کے اپوزیشن اراکین سے جس انداز میں طلب کررہے ہیں وہ عموماََ لاہور کے تھانوں کے ایس ایچ او اپنے علاقے کے "دس نمبری"بدمعاشوں سے طلب کیا کرتے ہیں۔
بطور پارلیمانی رپورٹرمیری جانب سے یک سطری پیغام یہ ہے کہ تمام تر تیاری کے باوجود شہباز صاحب بطور قائد حزب اختلاف پیر کے روز شوکت ترین کے پیش کردہ بجٹ کے بارے میں وہ تقریر نہ کر پائے جس کا ہم سب کو شدت سے انتظار تھا۔ سیدھے سادے "دیہاتی" نظر آتے اسد قیصر لاہور کے "شہباز" سے کہیں زیادہ ہوشیار اور چالاک ثابت ہوئے۔