1980ءکی دہائی کے ابتدائی سالوں میں اپنے انتقال سے چند ماہ قبل فیض احمد فیض کچھ روز کے لئے اسلام آباد آئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی کے مقبول اور شفیق پروفیسر خواجہ مسعود صاحب ان کے دیرینہ دوست تھے۔ وہ انگریزی روزنامہ "مسلم" کے لئے ہفتہ وار کالم لکھا کرتے تھے۔ اسے دفتر پہنچانے آئے تو فیض صاحب کو بھی ہم سے ملاقات کے لئے اپنے ہمراہ لے آئے۔
ان دنوں شام کی قیادت میں چار عرب ملکوں نے ایک اتحاد بنایا ہوا تھا جو فلسطین کی تحریک آزادی کے رہ نما یاسر عرفات کو اسرائیل سے ایک سمجھوتہ کرنے کی وجہ سے "غدار" پکاررہا تھا۔ ٹھوس حقائق سے بے خبر محض جذباتی وجوہات کی بدولت میں بھی مذکورہ سوچ کا حامی تھا۔ فیض صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان سے درخواست کی کہ وہ اس موضوع پر اپنے خیالات میرے ساتھ ایک انٹرویو کے ذریعے لوگوں کے روبرو لائیں۔
فیض صاحب نے نہایت مختصر اور محتاط الفاظ میں یاسر عرفات کی اپنائی پالیسیوں کا دفاع کیا۔ ان کے ساتھ گفتگو سے میں کوئی سنسنی خیز جملہ یا خبر اگلوانے میں قطعاََ ناکام رہا۔ میری مایوسی کو فیض صاحب نے فوراََ بھانپ لیا اور دعوت دی کہ دوپہر کے کھانے کے لئے میں بیگم سرفراز اقبال کے گھر آجاؤں۔ کھانے کی میز پر بیٹھنے سے قبل وہ مجھے ان وجوہات سے آگاہ کریں گے جو ان کی دانست میں یاسر عرفات کے لچک دار رویے کو جائز ٹھہراتی ہیں۔ فیض صاحب کی بیان کردہ وجوہات اگر معقول محسوس ہوں تو میں انہیں دوسرے دن چھپنے کے لئے تیار کئے انٹرویو میں شامل کرسکتا ہوں۔
فیض صاحب کا میں مرید نما پرستار تھا۔ ان کے دفتر سے نکلتے ہی موٹرسائیکل لے کر بیگم سرفراز اقبال کے ہاں چلا گیا۔ خواجہ صاحب کسی اور مصروفیت کی وجہ سے وہاں موجود نہیں تھے۔ بیگم صاحبہ نے مجھے اور فیض صاحب کو طویل گفتگو کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ فیض صاحب کو میں نے شاذہی غصے میں دیکھا تھا۔ بہت ہی ناقابل برداشت بات سن کر ان کا چہرہ سرخ ہوجاتا۔ وہ بجائے بڑبڑانے یا چیخنے چلانے کے سگریٹ سلگاکرخلا میں دیکھتے ہوئے خاموشی سے اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتے۔
یاسر عرفات کا دفاع کرتے ہوئے فیض صاحب مگر اس دن مسلسل بڑبڑاتے رہے۔ شام کے صدر حافظ الاسد کو سخت لفاظ میں برا کہا۔ مصررہے کہ "بلادشام" کے خواب دکھاتے ہوئے یہ فوجی آمر فلسطینیوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ وہ انتہائی خود غرض آمر ہے جسے اپنے اقتدار کو مستحکم وبرقرار رکھنے کے علاوہ عرب عوام ہی نہیں بلکہ شام کے باسیوں سے بھی رتی بھر محبت نہیں۔
حیران کن حد تک مضطرب ہوئے فیض صاحب نے کئی بار یہ بات بھی دہرائی کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا تھا۔ عرب ملکوں نے مگر ان کی آزادی کی خاطر بنائی تنظیم یعنی پی ایل او کو پہلے اردن اور بعدازاں لبنان سے باہر نکال کر عرب دنیا کے قلب سے کہیں دور تیونس میں دھکیل دیاہے۔ عرب دنیا کی بے وفائی نے یاسر عرفات کو لچک دکھانے کو مجبور کیا۔ اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی بدولت وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ویسٹ بینک لوٹنے کی راہ بنارہا ہے۔ وہاں پی ایل او کو "مقامی حکومت" کے اختیارات میسر ہوں گے۔
پاکستان جیسے ممالک مگر اب اس تنظیم کو ایک "ریاست" کے طورپر تسلیم کرتے ہوئے اس کی مدد کرسکتے ہیں۔ فیض صاحب کو البتہ یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ "ہمارا دوست یاسر" اب بیمار اور لاچار ہورہا ہے۔ اس کے بعد آنے والی قیادت فراست سے قطعاََ محروم ہے۔ وہ اسرائیل کے انتہا پسندوں سے نبردآزما نہیں ہوپائے گی۔ بدقسمتی سے شام اور لیبیا کے حافظ الاسد اور کرنل قذافی جیسے "انقلابی" اپنے انتہاپسند خیالات سے فلسطینیوں کو متحد رہنے نہیں دیں گے اور یوں یروشلم کو دارلخلافہ مگر "ہر مذہب کے فرد کے لئے کھلا شہر" قرار دے کر فلسطینی ریاست کی تشکیل ناممکن ہوجائے گی۔
آج سے تقریباََ 40برس قبل ہوئی گفتگو کا ایک ایک لفظ مجھے آج بھی یاد ہے۔ فلسطین جب بھی زیر بحث آتا ہے تو فیض صاحب سے ہوئی ملاقات میرے لئے مشعل راہ کی صورت کارفرماہوتی ہے۔ فیض صاحب کے انتقال کے بعد چند ہی برسوں میں یہ واضح ہونا شروع ہوگیا کہ عرب حکومتوں کی اکثریت فلسطینیوں کو خود پر بوجھ تصور کرتی ہے۔ وہ ان کے خودمختار اور جمہوریت پسند رویے سے بھی بیزار ہیں۔ ایسے عالم میں یاسر عرفات وہ معاہدہ کرنے میں حق بجانب تھا جو فلسطینیوں کی ویسٹ بینک لوٹنے کی راہ بناتے ہوئے بالآخر اسرائیل کے ساتھ ہی ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام بھی ممکن بناسکتا ہے۔ دیرینہ امن کو یقینی بنانے کی اس سوچ کو یقینا صہیونی انتہاپسندوں نے پروان چڑھنے نہیں دیا۔
فلسطینیوں سے معاہدہ امن کرنے والے وزیر اعظم کے قتل کے بعد نیتن یاہو ان کا نمائندہ بن کر ابھرا۔ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے وہ اب انتہاپسند صہیونی جماعتوں کا یرغمال بن چکا ہے۔ یہ جماعتیں بہت تیزی سے یروشلم کے گرد آباد علاقوں میں قبضہ گیری کے ذریعے نئی بستیاں آباد کرنا چاہ رہی ہیں تانکہ یروشلم اور اس کے نواحی علاقے بالآخر ایک روز یہودی اکثریت کی نمائندگی کرتے محسوس ہوں۔ اسرائیل کی انتہاپسندی کا سامنا فقط فلسطین کی آزادی کی خواہاں تمام تنظیموں کے کامل اتحاد کی بدولت ہی ممکن ہے۔ پی ایل او مگر مطلوبہ اتحاد کو ممکن بنانے میں ناکام ر ہی ہے۔ اپنے زیر نگین علاقوں میں وہ "گڈگورننس" فراہم نہ کرپائی۔ اس کے اکثر رہ نما عوام کی نگاہ میں زرپرست شمار ہوتے ہیں۔
پی ایل او کے مقابلے میں حماس کی بنیاد مذہبی انتہاپسندی ہے۔ وہ مگر غزہ کی پٹی میں محصور ہوئے فلسطینیوں کی حقیقی نمائندہ شمار ہوتی ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ کوئی بھی عرب حکومت دل سے یہ نہیں چاہتی کہ ان کی دانست میں فقط غزہ تک محدود ہوئی یہ تنظیم اسرائیل کو ایسی ناکامی اور پریشانی میں مبتلا کردے جسے مصر اور شام جیسے ممالک 1967ءاور 1973ءکی جنگوں میں اپنی جدید تر افواج کے باوجود مسلط کرنے میں ناکام رہے تھے۔
اسرائیل کی غزہ کے اوپر مسلسل جاری اور کاملاََ وحشیانہ بمباری اور زمینی حملوں کی لہٰذا فقط لفظی مذمت ہورہی ہے۔ عرب اور مسلمان ملک یکسوہوکر ایسی حکمت عملی تشکیل نہیں دئے پائے ہیں جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو انسانی بنیادوں پر تھوڑی لچک دکھانے کو مجبور کرے۔