پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے طویل سماعت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کی سنائی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔ اُن دنوں ایک جید مردِ مومن جنرل ضیاء الحق صاحب ہمارے ملک کے بااختیار صدر ہوا کرتے تھے۔"قاتل" کی جاں بخشی کو وہ آمادہ نہ ہوئے۔ 4اپریل 1979کی صبح لہٰذا بھٹو کو پھانسی لگادی گئی۔ یوں انصاف کا بول بالا ہوا۔
بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ بھٹو کی پھانسی کے کئی برس گزرنے کے بعد سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب میرے بھائی افتخار احمد کے ایک مقبول ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئے۔ افتخار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ بھٹو کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ "دبائو" کے ذریعے لیا گیا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد سپریم کورٹ نے ہمارے دو وزرائے اعظموں کو بھی توہین عدالت اور غلط بیانی کی بنیاد پر فارغ کیا ہے۔ یہ بات مگر ابھی تک طے نہیں ہوپائی کہ بھٹو کے خلاف سزائے موت والے فیصلے کو برقرار رکھنے کا "دبائو" کہاں سے آیا تھا۔"دبائو" اگر واقعتا اثرانداز ہوا تو اس کے ذمہ دار کون تھے۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مجھ جیسے عام شہری کے لئے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں پر "دبائو" توہین عدالت کے مترادف ہے۔ اگر دبائو واقعتا موجود تھا تو اس کے ذمہ داروں کو توہین عدالت کا مرتکب کیوں نہیں ٹھہرایا جاسکا۔
ایک اور زاویے سے سوچیں تو ذوالفقار علی بھٹو کو "شہید" کہنا بھی توہین عدالت ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے "قاتل" ٹھہرائے جانے کے بعد موصوف اس مقدس لقب کے ہرگز مستحق نہیں۔ بھٹو کو "شہید" پکارے بغیر مگر کم از کم سندھ میں ووٹ نہیں ملتے۔ کتنے افراد کو یہ لقب استعمال کرنے کی وجہ سے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیاجاسکتا ہے۔
بھٹو کی ذات سے جڑا قضیہ مگر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تحریک انصاف کے ایک بہت ہی ڈاہڈے وزیر ہیں۔ نام ہے اُن کا علی امین گنڈاپور۔ ان دنوں وزارت امور کشمیر کے نگہبان ہیں۔ ان کی شخصیت پر نگاہ ڈالیں تو کم از کم مجھ جیسے خوش گماں کو فوراََ یہ خیال آتا ہے کہ وہ اس وزارت کے حقیقی مستحق ہیں۔ ان کی بھاری بھرکم قیادت میں مقبوضہ کشمیر کو بزورشمشیر بھی آزاد کروایا جاسکتا ہے۔ وہ مگر ان دنوں پہلے ہی سے آزاد ہوئے کشمیر کو مسخر کرنے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے۔ اس میں وہ ایک انتخابی حلقے میں جمع ہوئے افراد کو نوٹوں کی گدی تھماتے ہوئے سڑک تعمیر کرنے کی اجازت مرحمت فرمارہے ہیں۔"ووٹ کو عزت" دینے کے غم میں مبتلا جماعت نے مگر اس واقعہ کا کماحقہ نوٹس نہیں لیا۔ ووٹ کی اس سے بڑی توہین ہونہیں سکتی کہ ایک وفاقی وزیر داستانوں والے شہنشاہوں کی طرح رعایا کا دل جیتنے کے لئے خزانے کے منہ کھول دے۔ ہمارے ہاں مگر سب چلتا ہے۔
سیاست میں سرسری دلچسپی لینے والے کسی بھی شخص سے آزادکشمیر میں ہونے والے "انتخابات" کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوال کریں تو وہ فوراََ جواب دے گا کہ یہ انتخاب تحریک انصاف ہی جیتے گی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آزادکشمیر کے عوام اسی جماعت کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جس کی وفاق میں بھی حکومت ہو۔ وفاقی حکومت کی خواہش کے برعکس قائم ہوئی حکومت کو "ترقیاتی" منصوبوں کے لئے رقوم بآسانی میسر نہیں ہوتیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقوم ہی درکار ہیں تو آزادکشمیر کے لوگوں کو "انتخاب" کی مشقت میں کیوں گھسیٹا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت اہل، صاف ستھرے اور ذہین افراد کو آزادکشمیر سے چن کر حکومت بنانے کے لئے نامزد کردیا کرے۔
"ترقیاتی منصوبوں " کے لئے مرکز میں بیٹھی حکومتوں کی فراہم کردہ رقوم بھارتی قبضے میں گئے کشمیر میں بارآور ثابت نہیں ہوتیں۔ وہاں آزادی کی تڑپ کئی دہائیوں سے لاکھوں گھرانوں کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ ایسی خودداری مبینہ طور پر ہمارے آزاد کروائے کشمیر میں نظر کیوں نہیں آتی۔ ایسے سوال مگر کوئی اٹھاتا ہی نہیں۔ انہیں سنجیدگی سے زیر غور لانا تو بہت دور کی بات ہے۔
آزادکشمیرکی انتخابی مہم کے دوران خزانے کے منہ کھول کر بھی علی امین گنڈا پور لیکن مطمئن نہیں ہوئے۔ اپنے مخالفین کے خلاف "موراوور" والی زبان استعمال کئے جارہے ہیں۔ مریم نواز صاحبہ اور بلاول بھٹو زرداری کی بابت جو سوقیانہ الفاظ وہ کمال ڈھٹائی سے ادا کرتے ہیں انہیں گھروں میں پڑھے اخبار کے لئے دہرایا نہیں جاسکتا۔ بات "چور ڈاکو" پکارنے تک ہی محدود رہے تو انتخابی مہم کے تقاضے بطور جواز میسر ہیں۔ کسی خاتون کے لباس کا بازاری انداز میں تذکرہ اور بلاول کی "مردانگی" پر سوال اٹھانا ہر اعتبار سے معیوب ہے۔ ہم مگر بہت ہی مہذب ہونے کے دعوے دار ہوتے ہوئے بھی ایسی زبان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چسکے کی ہوس ہماری نام نہاد "اقدار" کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ محض ہماری منافقت ہی بے نقاب کرتی ہے۔
علی امین گنڈا پور صاحب نے اب ذوالفقار علی بھٹو کو "غدار " بھی ٹھہرادیا ہے۔ بدھ کے روز سینٹ اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی والوں کو اس لقب نے مشتعل بنائے رکھا۔ میرے دوست رضا ربانی طالب علمی کے زمانے میں بہت باغی ہوا کرتے تھے۔ اپنے من میں آئی بات کو مہذب مگر بے دھڑک انداز میں کہہ دینے کے عادی۔ گزشتہ چند برسوں سے مگر واقعتا صوفی ہوچکے ہیں۔ ان کی قوت برداشت اکثر مجھے حیران کردیتی ہے۔ کسی محفل میں مل جائیں تو ان کی موجودگی میں پھکڑپن سے گھبراتا ہوں۔ بدھ کے روز مگر و ہ سینٹ میں کھڑے ہوکر طالب علمی کے زمانے کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں نعرے لگواتے رہے۔
تحریک انصاف کے ڈاکٹر وسیم شہزاد اور فیصل جاوید جیسے حق گو سینیٹر مگر مصر رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو واقعتا "غدار"تھا۔"اِدھر ہم اُدھر تم"والا فقرہ بھی دہرایا گیا۔ بھٹو صاحب نے اگرچہ یہ الفاظ ہرگز ادا نہیں کئے تھے۔ لاہور کے ایک جلسے میں 1970کے عام انتخاب کے بعد حکومت سازی کا سوال زیر بحث لاتے ہوئے انہوں نے شیخ مجیب کے 6نکات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ وطن بناسکتے ہیں۔ مجھے اردو کالم نگاری کی جانب دھکیلنے والے عباس اطہر صاحب نے مذکورہ تقریر کی سرخی "اِدھر ہم اُدھرتم" کے الفاظ کے ساتھ لگائی تھی۔ سیاست میں لیکن سب چلتا ہے۔
برطانیہ میں ایک شخص ہوتا تھا-کرامویل- اس نے پارلیمان کو تالا لگادیا تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد پارلیمان بحال ہوئی تو اس کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ علی امین گنڈا پور، وسیم شہزاد اور فیصل جاوید جیسے افراد اگر دیانت داری سے بھٹو کو "غدار" سمجھتے ہیں تو وزیر اعظم عمران خان صاحب کوقائل کیوں نہیں کرتے کہ سپریم کورٹ کے اعلیٰ ججوں پر مشتمل ایک ٹربیونل کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس کے روبرو بھٹو کی "غداری" کے ثبوت رکھے جائیں۔ یوں ہماری تاریخ ہمیشہ کے لئے "درست" ہوجائے گی۔ بھٹو اگر "غدار" ثابت ہوگئے تو لوگ انہیں "شہید" پکارنا بھی چھوڑدیں گے۔