دو دن گزر جانے کے باوجود میرا ذہن ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہورہا کہ حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ اسرائیلی حملے کی وجہ سے اس دنیا میں نہیں رہے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی اور وحشیانہ قوت کی رسائی مسلمہ ہے۔ چند ہی ہفتے قبل اس کا اظہار حماس کے رہنما ہنیہ کی شہادت سے ہوا تھا جو ایران کے صدر کے جنازے میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔ حماس کے رہنما ایران کے محفوظ ترین تصور ہوتے علاقے میں واقعہ ایک گھر میں شب بسری کے لیے ٹھہرے۔
ابھی تک یہ طے نہیں ہوپایا کہ ان کی شہادت ان کے کمرے میں پہلے سے موجود ھماکہ خیز مواد کی وجہ سے ہوئی یا ریموٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ خفیہ اور دفاعی امور کے ماہرین کی اکثریت مگر یہ مانتی ہے کہ وہ مستقل اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی نگاہ میں تھے۔ انھیں تہران کے محفوظ ترین تصور ہوتے مکان میں نشانہ بنانے کا اصل مقصد درحقیقت ایران کو یہ باور کروانا تھا کہ اسرائیل جب چاہے اس کے کسی بھی علاقے یا اہم شخصیت کو اپنے ہتھیاروں کی زد میں لے سکتا ہے۔ ہنیہ کی ایران میں شہادت کے باوجود میں اس گمان میں مبتلا رہا کہ اسرائیل کے لیے حسن نصراللہ کو نشانہ بنانا ناممکن ہے۔
میرے اعتماد کی وجہ لبنان میں گزرے سات ہفتے تھے جن کے دوران میں نے 2006ء میں لبنان کے جنوب میں واقعہ حزب اللہ کے حلقہ اثروالے علاقوں پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کا مشاہدہ کیا تھا۔ بیروت کے جس ہوٹل میں قیام پذیر تھا اس کے عین سامنے واقعہ ایک عمارت میں پاکستان کا سفارت خانہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ خدانخواستہ اگر اسرائیل کی فوج بیروت میں داخل ہوگئی تو اس کی آمد سے چند ہی لمحات قبل اپنا سامان سمیٹ کر پاکستانی سفارت خانے میں پناہ گزین ہوسکتا ہوں۔
اسی باعث ہمہ وقت اپنا سوٹ کیس تیا ررکھتا۔ اسرائیل نے مگر زمینی حملے سے گریز کیا۔ نہایت وحشت سے کئی دنوں تک بیروت کے جنوبی محلوں اور وہاں سے اسرائیل کی سرحد تک پھیلے تقریباً ہر شہر اور گائوں کو مستقل فضائی بمباری کی زد میں رکھا۔ فضائی حملوں کی دہشت سے جنوبی بیروت میں زندگی مفلوج ہوگئی۔ جس پانچ منزلہ ہوٹل میں مقیم تھا وہاں میرے سوا دو دنوں تک کوئی اور شخص قیام پذیر نہ تھا۔ بعدازاں جنوبی لبنان سے نقل مکانی کرتے ہوئے دو سے تین خاندان ایک دو روز وہاں قیام کے بعد کہیں اور منتقل ہوجاتے۔
اپنے قیام کے دوران میں ناشتہ کے بعد پیدل چلتے ہوئے لبنان کے جنوبی علاقوں میں پہنچ جاتا۔ وہاں گھنٹوں گھومتے ہوئے کسی انسان کی صورت نظرنہ آتی۔ دکانوں اور گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند ملتے۔ وہاں گھومتے ہوئے اکثر بچپن میں سنی وہ کہانیاں یاد آجاتیں جو کسی شہر کو ظلم کی وجہ سے ساکت ہوا بتاتی ہیں۔ ہو کے ایسے عالم میں فضائوں میں اڑتے ڈرون کی آوازیں دل میں خوف کو مزید بڑھادیتیں۔
فضائی مشاہدے سے کچھ وقت کو نجات ملتی تو اچانک کسی گلی سے تین یا چار موٹرسائیکل نمودار ہوجاتے۔ ان کے سوار نوجوانوں نے ٹی شرٹس اور جینز پہنی ہوتیں۔ وہ نہایت مہذب انداز میں ایک گھر کا دروازہ کھول کر مجھے اس کے اندر لے جاتے اور امریکی لہجے میں بولی انگریزی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ میں کون ہوں اور ان علاقوں میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں۔ ان کے رویے سے تاثر یہ ملتا کہ وہ مجھے اسرائیل کا جاسوس تصور کررہے ہیں۔
بدتمیزی کیے بغیر مگر وہ نہایت پیشہ وارانہ انداز میں پوچھے سوالوں سے بالآخر اس نتیجے پر پہنچ جاتے کہ میں پاکستان سے آیا ایک صحافی ہوں جس کی دلی ہمدردی بھی ان کے ساتھ ہے۔ یہ جاننے کے باوجود وہ مجھے اپنے علاقے میں مزید گھومنے کی اجازت نہ دیتے۔ نہ ہی ان کی جانب سے اسرائیل کے ڈھائے مظالم کے خلاف تقریر سننے کو ملتی۔ حزب اللہ کے بارے میں کوئی سوال پوچھنے کی ہمت ہی ان کا رویہ چھین لیتا۔
مذکورہ جنگ کا آغاز ہوتے ہی مجھے شبہ تھا کہ اسرائیل اپنے وسائل کی بدولت زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں حزب اللہ کو سرنگوں ہونے کو مجبور کردے گا۔ یہ جماعت اور اس کے حامی مگر مزاحمت کو ڈٹے رہے۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ بھی رہی کہ جنگ کے دوران ہر شام حسن نصراللہ حزب اللہ کے چلائے المینار ٹی وی پر اپنے حامیوں سے پرجوش خطاب کرتے۔ اس کی وجہ حزب اللہ سے وابستہ نوجوانوں کی ابلاغ کے جدید ترین ذرائع پر گرفت تھی۔ بعدازاں دریافت یہ ہوا کہ ان میں سے چند نوجوانوں کو حزب اللہ نے بچپن ہی میں اپنے خرچے پر امریکا بھجوادیا تھا۔ وہاں کی عالمی سطح پر مشہورہوئی یونیورسٹیوں سے ان نوجوانوں نے کمپیوٹر کے استعمال کی تربیت حاصل کی اور ہنر ابلاغ کے جدید ترین تقاضوں سے آگاہ ہوئے۔
بالآخر جنگ ختم ہوگئی تو ایک سیلاب کی صورت جنوبی لبنان سے نکلے حزب اللہ کے حامی اپنے قصبوں اور گھروں کو لوٹنا شروع ہوگئے۔ بیروت کے جنوب میں واقع جو علاقے مجھے طلسم زدہ ہوئے نظر آئے تھے اچانک پرہجوم نظر آنے لگے۔ بے تحاشا مکانات کے باہر دیوہیکل مشینیں نصب تھیں۔ ان دنوں لبنان میں حزب اللہ کے ناقدین نے اخباروں میں سیلاب سبز، کی اصطلاح استعمال کی۔ دعویٰ ہوا کہ جو بھی مکان اسرائیل کی فضائی بمباری کا نشانہ بنا تھا اس کے مکینوں کو 12ہزار ڈالر دیے گئے ہیں۔ یہ ڈالر مکانات کی بحالی کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔
رازداری پر کامل ایمان کے ساتھ منظم ہوئی حزب اللہ کے قائد تک رسائی مذکورہ بالا مشاہدات کی وجہ سے مجھے ہمیشہ ناممکن محسوس ہوتی رہی۔ اسرائیل مگر ان تک پہنچ گیا اور حزب اللہ نے بھی سرکاری طورپر ان کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔ مسلم امہ کی جانب سے ان کی شہادت کے بعد مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل کا صہیونی تعصب کی بنیاد پر قیام میرے دل نے آج تک قبول نہیں کیا۔ ایک دہشت گرد ریاست ہی تصور کرتا ہوں۔
اپنے دل میں موجود تعصبات کے باوجود اس امر پر اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ اسرائیل وحشیانہ ڈھٹائی سے اپنے جارحانہ رویے پر قائم ودائم ہے تو اس کی بنیادی وجہ وہ حیران کن لگن بھی ہے جس کی بدولت وہ اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لیے محض جذبات پر تکیہ نہیں کرتا۔ اس کی خفیہ ایجنسی جدید بنیادوں پر تربیت یافتہ ہے اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے کی صلاحیت سے مالا مال بھی۔
مسلم امہ نے مگر معاملات کو فقط جذباتی انداز میں دیکھنے کی روش اختیار کررکھی ہے۔ علم کا حصول جو مومن کی میراث تصور ہوتا تھا ہمارا حقیقی ہدف نہیں رہا۔ فرسودہ رویے ترک کرنے سے ہمیں خوف آتا ہے اور نت نئی ایجادات کے لیے ہمارے دل ودماغ مچل کر ہی نہیں دیتے۔ ایسے عالم میں سوائے مذمتی بیانات کے ہم اور کربھی کیا سکتے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنے کے بعدبھی مصر رہوں گا کہ حسن نصراللہ کی شہادت حزب اللہ کو ختم نہیں کر پائے گی۔
اس تنظیم کا قیام ان 18برسوں کے دوران عمل میں آیا تھا جب اسرائیل 1982ء سے 2000ء تک اپنی افواج سمیت جنوبی لبنان کے بے تحاشا علاقوں پر قابض تھا۔ اسرائیل کے براہ راست قبضے میں جوان ہوئی اس تنظیم کو ختم کرنا میری دانست میں ممکن ہی نہیں۔ اسرائیل کو بالآخر اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہی کرنا پڑے گا۔