پارلیمانی نظام حکومت میں کوئی بھی جماعت عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوجانے کے بعد اپنی آئینی مدت ہر صورت مکمل کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ مدت پانچ برس تک پھیلی ہوتی ہے۔ بسااوقات مگر قبل از وقت انتخاب کا رسک بھی لیا جاتا ہے۔ قبل از وقت انتخاب کے لئے "رسک" کا لفظ میں نے جان بوجھ کر لکھا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے لینے کے دینے بھی پڑسکتے ہیں۔
ہمارے ہاں مثال کے طورپر یہ رسک ذوالفقار علی بھٹو نے 1977میں لیا تھا۔ اقتدار تو انہوں نے دسمبر1971میں سنبھال لیا تھا۔ یہ مگر ہنگامی حالات میں ہوا عارضی بندوبست تھا۔ اس کی بدولت ہمارے سویلین صدر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔ بعدازاں ایک "عبوری آئین" نافذ ہوا جو اپنی سرشت میں پارلیمانی نہیں صدارتی تھا۔ 1973کا آئین تیار ہوجانے کے بعد بھٹو صاحب اس برس وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ آئینی اعتبار سے لہٰذا انہیں 1978سے قبل نئے انتخابات کی ضرورت نہیں تھی۔ بھٹو صاحب نے تاہم مارچ 1977میں نئے انتخاب کروانے کا اعلان کردیا۔
یہ اعلان کرتے ہوئے وہ ضرورت سے زیادہ اعتماد کے ساتھ اس گماں میں مبتلا رہے کہ ان کی مخالف جماعتیں کئی ٹکڑوں میں بٹ کر کمزور ہوچکی ہیں۔ ان کی جماعت نے لاکھو ں پاکستانیوں کو خلیجی ممالک میں روزگار کمانے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ پاکستان میں ایک عالمی اسلامی کانفرنس کا انعقاد بھی ہوچکا تھا۔ تیسری دنیا کے مشترکہ مفادات کو دبنگ انداز میں بیان کرنے کی وجہ سے وہ "فخرایشیائ" بھی پکارے جاتے تھے۔ انہیں امید تھی کہ قبل از وقت انتخاب ان کی جماعت کو بآسانی دوتہائی اکثریت مہیا کردیں گے۔
نئے انتخاب کا اعلان ہوتے ہی مگر سو طرح کے "نظریاتی اختلافات" بالائے طاق رکھتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام جیسی "دینی جماعتیں "سیکولر کہلاتی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور اصغر خان کی "لبرل" تحریک استقلال کے ساتھ نوستاروں والے "پاکستان قومی اتحاد" میں یکجا ہوگئیں۔ عام انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو میسرہوئی بھاری اکثریت کو "دھاندلی" کی پیداوار ٹھہرایا گیا۔ اس کے بعد ایک تحریک چلی جو بالآخر ضیاء الحق کے لگائے مارشل لاء کا سبب ہوئی۔ بھٹو صاحب اس کی وجہ سے پھانسی پر بھی لٹکائے گئے۔
یہ کالم اگر آپ نے اب تک پڑھ لیا ہے تو غالباََ یہ سوال ذہن میں آرہا ہوگا کہ میں طوطامینا کی کہانی جیسی لمبی تمہید کیوں باندھ رہا ہوں۔ آپ کی بیزاری کا احساس کرتے ہوئے فوراََ یہ اطلاع دینا ہوگی کہ اسلام آباد کے "باخبر" تصور ہوتے کئی حلقے گزشتہ ایک ہفتے سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ عمران خان صاحب نے اپنے چند انتہائی بااعتماد ساتھیوں سے مشاورت کے بعد مارچ 2022میں قبل از وقت انتخاب کی تیاری شروع کردی ہے۔ عمران خان صاحب اور ان کے بااعتماد ساتھی میرے ساتھ رابطے میں نہیں۔ وہ میری یاوہ گوئی سے ناراض رہتے ہیں۔ میرا جی بھی "مافی تلافی"کی راہ ڈھونڈنے کی جانب مائل نہیں ہورہا۔ مارچ 2022میں قبل از وقت انتخاب کی جو گفتگو ہورہی ہے اس کی بااعتماد انداز میں لہٰذا تصدیق یا تردید کے قابل نہیں۔
سیاسی حرکیات کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ لکھنے کو مگر مجبور ہوں کہ گزشتہ چند دنوں سے وزیر اعظم اور ان کے متحرک وزراء میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے ایک نیا "بیانیہ" تشکیل دیتے نظر آرہے ہیں۔ اپوزیشن رہ نمائوں کو انتہائی حقارت سے اب بھی "چور اور لٹیرے" پکارا جارہا ہے۔ بتدریج مگر "بیانیہ" کو یہ پیغام پھیلانے کے لئے تشکیل دیا جارہا ہے کہ عمران خان صاحب پاکستان کی خودمختاری ثابت کرنے کو ڈٹ گئے۔ امریکہ نے افغانستان پر نگاہ رکھنے کے لئے پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وزیر اعظم نے مگر انکار کردیا۔ اپنے انکار کی وجوہات اب وہ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز جیسے اخبارات کے لئے دبنگ انداز میں بیان کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ "خفیہ سفارت کاری" کی بدولت پاک-بھارت تعلقات میں کشیدگی کو کم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو "معمول" کے مطابق بنانے کے لئے چند اقدامات کی تیاری ہوچکی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں لیکن عمران خان صاحب نے لگی لپٹی کے بغیر یہ کہہ دیا ہے کہ نریندر مودی کے بھارتی وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ پاک-بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی امید کھوچکے ہیں۔ مودی ہندوبالادستی کے خواب پر ڈٹا ہوا ہے۔ پاکستان اس کے روبرو سرنگوں نہیں ہوسکتا۔
اخبارات کو "تجزیاتی" نگاہ سے پڑھنے کی بدولت میں یہ سوچنا شروع ہوگیا ہوں کہ عمران خان صاحب کو دورِ حاضر کا "فخرایشیائ" بنایا جارہا ہے۔ مسلم امہ کی واحد ایٹمی قوت کا ایسا رہ نما جو امریکہ کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔"مغرب" کی نقالی کو "غلامانہ ذہنیت" ٹھہراتا ہے اور دنیا کے روبرو "پاکستانی تشخص" کو اجاگر کرنا چاہ رہا ہے۔
فقط جوشیلے خطابات کے ذریعے مگر انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بناناممکن نہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اگر حکومت میں بیٹھی ہو تو انتہائی باریک بینی سے یہ جائزہ لینے میں مصروف رہتی ہے کہ اس کی پالیسیوں کی بدولت معاشی میدان میں رونق لگی محسوس ہورہی ہے یا نہیں۔ اس تناظر میں ذاتی طورپر جائزہ لوں تو اپنے اقتدار کے روز اوّل سے عمران حکومت بازار میں کسادبازاری لائی۔ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا۔ روزمرہّ استعمال کی اشیائے صرف کی گرانی نے بھی کم آمدنی والوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ان حقائق کو نگاہ میں رکھوں تو عمران خان صاحب کو قبل از وقت انتخاب کی بابت فی الحال سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
شوکت فیاض ترین نے تاہم جو بجٹ تیار کیا ہے اس کے اہم نکات پر غور کریں تو وہ بازار میں رونق برپا کرنے کو بضد نظر آرہا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ پر عمومی بحث کے اختتام پر وزیر خزانہ نے جو تقریر کی وہ بارہا اصرار کرتی رہی کہ آئی ایم ایف کے تیار کردہ اس نسخے پر ہوبہو عمل سے انکار کردیا گیا ہے جو ڈاکٹر حفیظ شیخ کی معاونت سے تیار ہوا تھا۔ شوکت ترین بارہا بہت فخر سے اعلان کرتے رہے کہ عمران خان صاحب "غریب آدمی" کے لئے ہمیشہ متفکر رہتے ہیں۔ وہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کو ہرگز تیار نہیں۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے بینکوں کو سختی سے نئے کاروبار شروع کرنے کے لئے بلاسود قرضے فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بینکوں ہی کی مدد سے کم آمدنی والوں کے لئے لاکھوں نئے گھر تعمیر ہوں گے۔ کسانوں کے لئے بھی بھاری بھر کم مراعات کا اعلان ہوا ہے۔
اسلام آباد کے جو "باخبر" حلقے مارچ 2022میں قبل از وقت انتخاب دیکھ رہے ہیں انتہائی سنجیدگی سے اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر وزیر خزانہ کے اعلان کردہ "غریب دوست" منصوبوں پر آئندہ چھ ماہ کے دوران تیزی سے پیش رفت ہوتی نظر آئی تو عوام کی اکثریت "بلے بلے" پکارنا شروع ہوجائے گی۔ وقتی ابال کی طرح اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم نامی اتحاد میں یکجا ہوئی تھیں۔ اس اتحاد کا مگر انتقال پرملال ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت یعنی مسلم لیگ (نون) یہ طے کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے کہ نواز شریف صاحب کو پنجابی محاورے والی "ماسی" کہیں یا شہباز شریف کو۔ آئندہ چھ مہینوں کے دوران بازار میں اگر رونق لگ گئی تو تحریک انصاف قبل از وقت انتخاب میں حیران کن کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔