اُمید بھرے خوابوں سے جی کوبہلائے رکھنا زندگی آسان بنادیتا ہے۔ ٹھوس حقائق کو مگر اس تناظر میں اپنی خواہشات کے مطابق دیکھنا بالآخر ہمیں مزید پریشان بھی کرسکتا ہے۔ مثال کے طورپر ہمارے "ازلی دشمن"بھارت کی موجودہ سرکار کے ارادوں کو بھانپنا ہو تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ نریندر مودی بنیادی طورپر ایک ہندو انتہاپسند تنظیم"راشٹریہ سیوک سنگھ-کا "پرچارک" رہا ہے۔ اسے گجرات کے وزیر اعلیٰ سے بھارت کے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچانے کے لئے مذکورہ تنظیم نے مشنری جنون کے ساتھ کام کیا۔ مودی اس تنظیم کے کلیدی ایجنڈے سے روگردانی کی جرأت وہمت سے قطعاََ محروم ہے۔ جس جماعت یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹوں کی بدولت وہ اپنے منصب پر بیٹھا ہے وہ درحقیقت آرایس ایس ہی کا سیاسی روپ ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے قیام کے روز اوّل سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے مقبوضہ کشمیر کی "خودمختاری" والی شناخت کو ختم کرنے کا عہد باندھ رکھا ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کا خاتمہ اس ہدف کے حصول کے لئے مذکورہ جماعت کے انتخابی منشور میں ہمیشہ نمایاں ترین رہا۔ اٹل بہاری واجپائی بھی اس منشور سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ وہ بنیادی طورپر تاہم ایک کائیاں سیاست دان بھی تھا۔ 1950کی دہائی سے بھارتی پارلیمان کا رکن منتخب ہوتارہا۔ وہاں کی قومی اسمبلی میں خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کا کئی برسوں تک سربراہ بھی تھا۔ اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر لہٰذا مودی آر ایس ایس کے کلیدی ایجنڈے کو نہایت مہارت سے نظرانداز کرتے ہوئے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے "درمیانی راہ" ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اسی باعث و ہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بس میں بیٹھ کر لاہور آیا تھا۔ اس کے باوجود کارگل ہوا تب بھی اس نے معاملات کو بردباری سے سنبھال لیا اور جنرل مشرف کو آگرہ سمٹ کی دعوت دیتے ہوئے پاکستان سے "دائمی امن" کا خواہاں نظر آنے کے لئے سفارت کاری کی چالیں چلتا رہا۔
نریندر مودی اپنے سیاسی رویے کے اعتبار سے اٹل بہاری واجپائی کے مقابلے میں قطعاََ مختلف شخص ہے۔ 2014اور 2019کے انتخابات کے ذریعے اس نے اپنی ملک کی ہندو اکثریت کو دکھایا دیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلمانوں اور نچلی ذات کے لوگوں کے "ناز نخرے" اٹھانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ بھارتی پارلیمان کے تقریباََ ہر انتخابی حلقے میں ہندوووٹروں کی تعداد اوسطاََ 60فی صد سے زیادہ ہے۔ وہ یکجا ہوکر بی جے پی جیسی انتہا پسند تنظیم کی حمایت میں ووٹ ڈالیں تو مرکز اور صوبوں میں طاقت ورترین حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ بھاری بھر کم اکثریت کے ساتھ قائم ہوئی حکومتیں ہی بھارت میں ہندو بالادستی کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتی ہیں۔
اقتدار تک پہنچنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے نریندر مودی اور اس کے امیت شاہ جیسے مصاحبین نے جو حکمت عملی اختیار کی اس کی بدولت 2019کے انتخابات نے بھارتیہ جنتاپارٹی کو راجیو گاندھی کے بعد پہلی بار کسی اور سیاست جماعت کی مدد کے بغیر طاقت ور ترین مرکزی حکومت بنانے کی سہولت فراہم کی۔
وزیر اعظم کے منصب پر ایک بار پھر لوٹنے کے چند ہی دن بعد نریندر مودی نے مسلمانوں کو کمزور تر کرنے کے لئے "شہریت" کے عنوان سے قطعاََ متعصب قوانین کو پارلیمان سے منظور کروایا۔ بھارتی مسلمانوں کو اپنے تئیں "آنے والی تھاں " پر لانے میں کامیاب ہوگیا تو اس نے مقبوضہ کشمیر کے دیرینہ "قضیہ" کوبھی "حل" کرنے کی ٹھان لی۔
اس کالم کے مستقل قاری گواہی دیں گے کہ جولائی 2019کے آخری ہفتے میں دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا کہ نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں "کچھ بڑا" کرنے جارہا ہے۔ میری دہائی پر غور کو ہمارے پالیسی ساز تیار ہی دکھائی نہیں دئیے۔ ہم اس گماں میں مبتلا رہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے امریکی صدر ازخود متحرک ہوچکا ہے۔ عمران خان صاحب سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران ڈونلڈٹرمپ نے "ثالثی" کی پیش کش کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ انہیں ویسی ہی طمانیت محسوس ہوئی جو 1992میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد محسوس ہوئی تھی۔ وہ امریکہ سے واپس لوٹے تو ان کے وزراء اور حامیوں نے ان کا راولپنڈی ائیرپورٹ پر گرم جوش خیرمقدم کیا۔ بدقسمتی سے لیکن میرے وسوسے درست ثابت ہوئے۔ 5اگست 2019کے روز نریندر مودی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ واضح رہے کہ بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے دوتہائی اکثریت کے ذریعے آرٹیکل 370ختم کرنے کے لئے اپنے آئین میں "ترمیم" کی ہے۔ مذکورہ فیصلہ اب فقط بھارتی پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کی حمایت ہی سے واپس لیاجاسکتا ہے۔ نریندر مودی بطور وزیر اعظم ہرگز ایسے اختیار کا حامل نہیں کہ کسی نوٹیفکیشن یا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو آرٹیکل 370کے ذریعے مہیا ہوئی "خودمختاری" کو "بحال" کردے۔ یہ حقیقت سمجھے بغیر ہم مقبوضہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں درست اندازے نہیں لگاسکتے۔
5اگست2019کے فیصلے نے فقط مقبوضہ کشمیر کی "خودمختار" شناخت ہی کو ختم نہیں کیا۔ ماضی کی ریاست جموں وکشمیر اب دو حصوں میں بانٹ دی گئی ہے۔ اس کے ذریعے چین کے ہمسائے میں واقع لداخ کو ماضی کی ریاست جموں وکشمیر سے الگ کردیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر اور لداخ اب اکائی نہیں رہے دو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔
Union Territoryہیں یعنی دہلی سے براہ راست چلائے علاقے۔ ان دونوں کے الگ الگ گورنر ہیں۔ ان دونوں کی اب آئینی اعتبار سے ویسی ہی حیثیت ہے جو ہمارے ہاں کسی زمانے میں "وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں " کی ہوا کرتی تھی۔ بھارت میں صوبوں کو Stateکہا جاتا ہے۔ اس لفظ کی قانونی اور آئینی حیثیت سمجھے بغیر ہمارے ہاں یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ بھارت اگست 2019کے بعد جب بھی مقبوضہ کشمیر کی بطور Stateبحالی کا عندیہ دیتا ہے تو وہ درحقیقت ریاست جموں وکشمیر کی اس حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے جو 5اگست 2019سے قبل بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت نظر آتی تھی۔ آپ سے دست بستہ التجا کرنے کو مجبور ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حال ہی میں مودی سرکار نے "جموں وکشمیر"کی بطور State"بحالی" کے لئے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی سیاسی جماعتوں کو ایک "کل جماعتی کانفرنس" کے لئے مدعو کرنے کا عندیہ دیا۔ میرے کئی خوش فہم دوست مذکورہ اعلان کو "مودی کا بکری" ہونا شمار کرتے ہوئے کامرانی کے شادیانے بجانا شروع ہوگئے۔
5اگست 2019کے بعد کئی بار اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کرتا رہا ہوں کہ چند ہفتے گزرجانے کے بعد نریندر مودی لداخ سے کاٹے ہوئے "جموں وکشمیر" کا "ریاستی تشخص" بحال کرنے کا عندیہ دے گا۔ اس تشخص کی "بحالی" کا اصل مقصد مگر یہ ہوگا کہ لداخ سے کاٹے مقبوضہ جموں وکشمیر کی "صوبائی" حیثیت بحال کی جائے۔ ایسی بحالی کے لئے "ریاستی" یعنی صوبائی اسمبلی کے انتخاب ہوں۔ مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے بے بس ولاچار بنائے شہری ان میں حصہ لیں۔"اپنے نمائندے" چنیں تانکہ لداخ سے طاقت کے زور پر الگ کئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے "مقامی اور صوبائی" معاملات کو براہ راست دہلی سے چلانے کی ضرورت نہ رہے۔ نام نہاد "منتخب صوبائی حکومت" ہی یہ فریضہ سرانجام دے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مودی سرکار میرے خدشات کے عین مطابق ایک نئی "گیم" لگانے کی تیاری کررہی ہے۔ یہ بہت پرکار اور مکارانہ "گیم" ہے۔ خدارا اس کے مضمرات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیں۔ کامیابی کے شادیانے بجانے سے گریز کریں۔