ہفتے کے دن بالآخر شوکت فیاض ترین صاحب نے بطور وزیر خزانہ ایوانِ صدر جاکر حلف اُٹھا ہی لیا۔ انہیں یہ عہدہ سونپنے کی کاوش 2019میں بھی ہوئی تھی۔ اسد عمر کی پالیسیوں سے ان دنوں ہمارے مختلف النوع دھندوں کے اجارہ دارمطمئن نہیں تھے۔ وہ تواتر سے کسی موضوع یا شخصیت کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار شروع کردیں تو قومی سلامتی کے ذمہ دار بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔"متبادل" کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ شوکت ترین صاحب کو مختلف النوع دھندوں کے اجارہ دار اور قومی سلامتی کے ذمہ دار کیوں پسند کرتے ہیں۔ یقینا ان میں کوئی خوبی رہی ہوگی جس کی معاشیات کی مبادیات سے بھی قطعی نابلد میرے اور آپ جیسے عام شہری کو ککھ علم نہیں ہوتا۔ بہرحال ان سے رابطے ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ ان کی وزیر اعظم سے ملاقاتیں ہوں۔ دو یا تین مرتبہ انہیں اس حوالے سے بنی گالہ لے جایا گیا۔ کوشش یہ بھی ہوئی کہ ان ملاقاتوں کو "خفیہ" رکھا جائے۔
ان ملاقاتوں کے دوران وزیر اعظم اور ترین صاحب کے مابین کیا گفتگو ہوئی میں اس کے بارے میں قطعاََ لاعلم ہوں۔ ایک مہربان کی معرفت "خبر" بس یہ ملی تھی کہ "ملاقاتیں جو ہوتی ہیں …"۔ بعدازاں یہ علم بھی ہوا کہ ترین صاحب وزارت خزانہ سنبھالنے کو تیاو نہیں ہورہے۔ احتساب بیورو نے ان کے خلاف چند مقدمات دائر کررکھے ہیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ کابینہ کے رکن بن گئے تو میڈیاان مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی بھد اُڑائے گا۔ ان کی اولاد انور مجید کے ہاں بیاہی گئی ہے۔ ان صاحب کو "سب پہ بھاری…" کا "فرنٹ مین"بتایا جاتا ہے۔ بے تحاشہ "جعلی کھاتوں " کے الزام میں احتساب بیورو کے غضب کا شکار ہیں۔
آصف علی زرداری نے شوکت ترین کو 2009ء میں وزیر خزانہ بھی تعینات کروایا تھا۔ ترین صاحب نہیں چاہتے تھے کہ عمران خان انور مجید کے رشتے دار اور آصف علی زرداری کے لگائے گئے وزیر خزانہ سے مدد لیتے نظر آئیں۔ وہ رضا مند نہ ہوئے تو ہماڈاکٹر حفیظ شیخ کے سرپر بٹھادیا گیا۔"ہما" کو اگرچہ یاد نہ رہا کہ ترین صاحب کی طرح وہ بھی زرداری/ گیلانی حکومت کے وزیر خزانہ رہے ہیں۔ کابینہ میں شمولیت کے بعد حفیظ شیخ نے اپنے اختیارات کا گج وج کر استعمال کیا۔ ان کا "حقیقی" کارنامہ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ تھا۔ اس کے تحت عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے پاکستان کو مختلف اقساط میں 6ارب ڈالر کی "امدادی رقم" فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ اس رقم کے حصول کے لیے ستمبر2022ء تک چند شرائط پر عمل درآمد کا وعدہ ہوا۔ تسلیم کر لیا گیا کہ پاکستان کے معاشی نظام کو "کلیدی اصلاحات" کی ضرورت ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام شہری کے لیے مذکورہ "اصلاحات" مگر بجلی اور گیس کی قیمتوں کو ناقابلِ برداشت بنادیتی ہیں۔ حکومت محاصلات کے ضمن میں جو فیصلے لیتی ہے اکثر اوقات "جگاٹیکس" نظر آتے ہیں۔ انگریزی اخبارات میں بھاری بھر کم اصلاحات کے ساتھ مضامین لکھنے والے "ماہرین" اگرچہ ایسے اقدامات کو "کینسر زدہ معیشت"کے لیے لازمی بناکر پیش کرتے ہیں۔ بازار میں لیکن ان کی وجہ سے اداسی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔
حفیظ شیخ کی متعارف کردہ "اصلاحات" نے بھی ایسی ہی اداسی پھیلائی جو کورونا کے موسم میں مزید تکلیف دہ محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی اس کی بابت بلبلانا شروع ہوگئے۔ اس ضمن میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تفریق باقی نہ رہی۔ یوسف رضا گیلانی نے ان کے دل ودماغ پر چھائی تشویش کافائدہ اٹھایا اور حفیظ شیخ کو اسلام آباد سے سینیٹ کا رکن منتخب ہونے نہیں دیا۔ حفیظ شیخ کی شکست عمران حکومت کے لیے نہایت شرمساری کا باعث ہوئی۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے اعتماد کا تازہ ووٹ لینے پر مجبور ہوئے۔ شیخ صاحب کو تاہم وزارت سے فارغ نہیں کیا۔
گیلانی صاحب سے شکست کھانے کے باوجود ڈاکٹر حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے "امدادی رقم" کی دوسری قسط وصول کرلی۔ اس رقم کے حصول کے لیے جو ا قدامات کرنے کا وعدہ ہوا وہ آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر لگادئیے گئے ہیں۔ کاش میں انہیں پڑھ کر آپ کو سادہ زبان میں بیان کرنے کے قابل ہوتا۔ عام شہری کے طورپر فقط یہ دریافت کرتے ہوئے ہی گھبرا گیا تھا کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں جولائی 2021ء کے اختتام تک کم از کم پانچ روپے کا اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر یہ ہوگیا تو ہمارے ہاں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 20سے 22روپے کے درمیان ادا کرنا ہوگی۔ اس قیمت کی بدولت پیداواری لاگت میں جو اضافہ ہوگا وہ ہماری مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی ہی میں نہیں اندرونِ ملک بھی مہنگا ترین بنا دے گا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مگر تحریری وعدہ ہوچکا ہے۔ شوکت ترین کی پہلی ترجیح غالباً اب یہ ہوگی کہ مذکورہ وعدے پر عملدرآمد میں تاخیر کی راہ تلاش کریں۔ مجھے ہرگز علم نہیں کہ ہمارے مختلف النوع کاروبار کے اجارہ دار سیٹھوں کی طرح آئی ایم ایف کے فیصلہ ساز بھی ترین صاحب کی "فراست" سے متاثر ہیں یا نہیں۔ عملی صحافت کے کئی برسوں نے اگرچہ یہ سکھایا ہے کہ کسی ایک فرد کی "فراست" آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا نہیں کرتی۔ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں پر حاوی طاقتور ممالک کی دفاعی اور خارجہ امور کے حوالے سے چند ترجیحات ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک اس تناظر میں "تعاون" فراہم کریں تو مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔
جنرل مشرف کے دور میں کئی برسوں تک بازار میں رونق رہی تھی۔ کریڈٹ اس کا شوکت عزیز صاحب کو دیا جاتاتھا۔ ترین صاحب کی طرح وہ بھی بنیادی طورپر ایک بینکار تھے اور ایک مشہور زمانہ ادارے-"سٹی بینک" کے لیے کام کرتے ہوئے نام کمایا تھا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جنرل مشرف پر مہربان بنیادی طورپر مگر اس لیے رہے کیونکہ امریکہ نائن الیون کے بعد افغانستان کو "دہشت گردوں " سے پاک کرنے پر تل گیا تھا۔ وہاں مقیم نیٹو افواج کو اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی۔
امریکی صدر نے اب ستمبر 2021ء کے اختتام تک افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی "بحفاظت واپسی" کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہوگا۔ ترین صاحب اس تناظر میں نمودار ہوئے امکانات کی بنیاد پر شاید آئی ایم ایف کو نرم دلی دکھانے پر رضا مندکرلیں۔ ممکنہ رضا مندی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مگر سوچنا یہ بھی ہوگاکہ حفیظ شیخ ہماری معیشت سنوار نے کے لیے تنہا نہیں آئے تھے۔ ان کی متعارف کردہ "اصلاحات" پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے عمران حکومت کو ڈاکٹر رضا باقر بھی ایک درخشاں "ماہر" کی صورت فراہم کیے گئے تھے۔ وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ ہیں۔ ہمارے ہاں بینکاری کا جو نظام ہے اس کا حتمی کنٹرول اس ادارے کے پاس ہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے مصر ہیں کہ ہماری حکومتیں مذکورہ ادارے کو "آزادانہ" حیثیت میں کام کرنے نہیں دیتیں۔"عوام کو خوش رکھنے" کے لیے سٹیٹ بینک کو ضرورت سے زیادہ نوٹ چھاپنے کو مجبور کرتی ہیں۔ ڈالر کی قیمت طلب اور رسد کے اصولوں کے تحت "بازار" میں طے نہیں ہوتی۔ سٹیٹ بینک کو اسے "مصنوعی" طورپر "کمزور" رکھنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ حکومت آسان شرح سود پر بینکوں سے اپنی پسند کے "تاج محل" جیسے منصوبوں کے لیے قرض بھی لیتی رہتی ہے۔
ماضی کی ایسی "بُری" عادتوں " کے خاتمے کے لیے ڈاکٹر رضا باقر کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا سربراہ تعینات کیا گیا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ساتھ "کلیم اللہ- سمیع اللہ"والے Combinationکی طرح پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کے بعد ستمبر2022ء تک "گول" کے قریب پہنچاناتھا۔ حفیظ شیخ اب میدان میں نہیں رہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ رضا باقر نئے وزیر خزانہ کے ساتھ مل کر کھیلنا چاہیں گے یا نہیں۔ یہی سوال ایک اور صورت میں یوں بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر شوکت ترین صاحب نے حفیظ شیخ کے تیار کردہ نسخے کو بروئے کار نہیں لانا تو رضا باقر کو "کامل خودمختاری" دینے کو بھی کیوں تیار ہوں گے۔ ان دونوں میں جدائی لہٰذا دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے اور آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرنے کے لیے ترین صاحب کے پاس فقط چند ہفتوں کی مہلت باقی رہ گئی ہے۔