جن دنوں قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس ہورہے ہوں تو میں یہ کالم لکھنے کے علاوہ دی نیشن کے لئے پریس گیلری والا کالم بھی لکھتا ہوں۔ ہماری پارلیمان اور خاص طورپر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی مگر بہت تیزی سے ہمارے بنیادی اور اہم معاملات کے تناظر میں قطعاََ بے اثر اور لاتعلق ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس تقریباََ ہر روز کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے دن کے لئے مؤخر ہوجا تا ہے۔ پارلیمان سے گھر لوٹتے ہوئے سوچتا رہتا ہوں کہ لکھوں تو کیا لکھوں۔ بسااوقات اکتاکر کالم ہی نہیں لکھتا۔ ٹھوس وجوہات کے باوجود گیلری نہ لکھنے کا فیصلہ اگرچہ مجھے احساس جرم میں مبتلا کردیتا ہے۔ منگل کی سہ پہر ارادہ باندھ رکھا تھا جو بھی ہوانگریزی والا کالم ہر صورت لکھنا ہے۔
روایتی دیر سے شروع ہوا اجلاس مگر بے جان نظر آیا۔ یہ دن اراکین کی جانب سے انفرادی حیثیت میں متعارف کروائے قوانین کو زیر بحث لانے کے لئے مختص ہوتا ہے۔ منگل کے روز جو قوانین تجویز ہوئے وہ حالات حاضرہ سے کامل بے اعتنائی کے ساتھ دور کی کوڑی لاتے محسوس ہوئے۔ جمائیاں لیتا گھر لوٹ آیا۔
میری عدم موجودگی میں قائد حزب اختلاف نے مگر خواجہ آصف کا دفاع کرتے ہوئے مہنگائی کو زیر بحث لانا چاہا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ شہباز شریف صاحب کی جماعت کو اس کا ماضی یاد دلانا شروع ہوگئیں۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی والے ناراض ہوچکے تھے کہ ان کی ایک متحرک رکن اسمبلی شازیہ مری صاحبہ کو بولنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا جارہا۔ کورم کی نشان دہی کردی اور اجلاس بدھ کی شام تک ملتوی کردیا گیا۔
شہباز شریف صاحب 1990میں قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ تین مرتبہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں۔ نجانے کیوں یہ حقیقت بھلاچکے ہیں کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر براجمان شخصیت جب ایوان میں کھڑی ہوتی ہے تو پنجابی محاورے والی ٹلیاں کھڑک جاتی ہیں۔ جس موضوع کی وہ نشان دہی کرنا چاہے اس کی بابت میڈیا کو پہلے سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ "خبر" بنے۔ شہباز صاحب کی سطح کے سیاست دان اچانک کھڑے ہوکر مسائل کا سرسری انداز میں تذکرہ نہیں کرتے۔
یہ حقیقت عرصہ ہوا عیاں ہوچکی کہ عمران حکومت پارلیمان کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ وزیر اعظم صاحب وہاں پر حاوی مبینہ بدتمیزی سے خفا ہوکر پارلیمان کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے۔ ان کی عدم موجودگی میں مراد سعید اور شیریں مزاری صاحبہ جیسے وزراء حزب اختلاف کو ماضی کی داستانیں سناتے ہوئے دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاملہ بالآخر توتکار تک پہنچ جاتا ہے۔ پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے ایوان کی کارروائی کا مشاہدہ کریں تو عموماََ یہ گماں ہوتا ہے کہ ہم ٹی وی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہے ہیں جہاں سیاست دان اپنے مخالفین کو نہلے پہ دہلے والے فقروں سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پارلیمان کو مؤثر اور جاندار بنانا مگر بنیادی طورپر حزب اختلاف میں بیٹھی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نیب کے ہاتھوں مفلوج ہوئے اپوزیشن ارکان البتہ جارحانہ پیش قدمی سے گھبراتے ہیں۔ سوجوتوں کے بعد سو پیاز کھانے کو بھی ہمہ وقت تیار۔
قومی اسمبلی کا موجودہ اجلاس گزشتہ جمعہ کی صبح سے شروع ہوا تھا۔ مجھ سادہ لوح نے امید باندھ رکھی تھی کہ بھاری بھر کم تعداد کی حامل اپوزیشن جماعتیں اس کے دوران حکومت کو افغانستان کی تازہ ترین صورت حال زیر بحث لانے کو مجبور کریں گی۔ سوال اٹھائے جائیں گے کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ ہمارے ہاں کرکٹ کھیلنے کو تیار کیوں نہیں ہورہے۔ حال ہی میں پیٹرول کی قیمت میں ہوشربااضافہ کیوں ہوا اور ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں بلندی کی جانب پرواز کرنا کیوں شروع ہوگیاہے۔
پیر کی شام پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے تحریک التوا کے ذریعے پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کا معاملہ زیر بحث لانا چاہا۔ وزیر اعظم کے پارلیمانی مشیر ڈاکٹر بابر اعوان صاحب نے انہیں مطلع کیا کہ مذکورہ اضافے کی بابت محض وزیر خزانہ جناب شوکت ترین صاحب ہی تفصیلی جواب فراہم کرسکتے ہیں۔ سید نوید قمر قومی اسمبلی کے 1988سے مسلسل رکن چلے آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں اہم وزارتوں پر بھی فائز رہے۔ قومی اسمبلی کے قواعدوضوابط کو بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت کوئی فیصلہ لیتی ہے تو وہ کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری تصور ہوتا ہے۔ مذکورہ اصول کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سید نوید قمر صاحب کو اصرار کرنا چاہیے تھا کہ ان کے اٹھائے سوال کا جواب ایوان میں موجود کوئی اور وزیر فراہم کرے۔ وہ مگر شوکت ترین صاحب کا انتظار کرنے کو آمادہ ہوگئے۔ اس کے بعد مسلم لیگ(ن) کے ایک رکن نے کورم کی نشاندہی کردی اور اجلاس منگل کی شام تک مؤخر کردیا گیا۔
محدود آمدنی کے مقابلے میں پریشان کن حد تک بڑھتے ہوئے اخراجات سے گھبرائے پاکستانیوں کو حکومت یہ بتانے کو تیار نہیں کہ پیٹرول اور بجلی کے نرخ کیوں بڑھائے جارہے ہیں۔ اپوزیشن میں بیٹھی جماعتوں کے اراکین ایسے سوالات کے جوابات پرخلوص شدت سے مانگتے ہیں۔ خلق خدا اس کی وجہ سے یہ تصور کرنے کو مجبور ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں ایک ہی جیسے ہیں۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ کے نمائندے جنہیں ذلتوں کے مارے افراد کے دکھوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 1985سے مسلسل پارلیمان کی کارروائی دیکھ رہا ہوں۔ حکمران اشرافیہ کے مابین ایسا مک مکا میں نے عمران حکومت سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ روزمرہّ زندگی سے اکتائے افراد اس کے بعد جمہوری نظام کو فروعی تماشہ نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں۔
موسم سرما کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اب کے برس ہمیں گیس کے شدید ترین بحران کا سامنا ہوگا۔ حکومت میں شامل چند بقراط ممکنہ بحران کا دیانت داری سے اعتراف نہیں کررہے۔ اس کی وجوہات بیان کرنا تو دور کی بات ہے۔ بحران مگر اس وجہ سے بھی ابھرتا لازمی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ چند حکومتی نورتنوں نے تجویز پیش کی ہے کہ لوگوں کو نہایت ہوشیاری سے اس جانب راغب کیا جائے کہ وہ آنے والی سردیوں میں اپنے کمرے اور استعمال کا پانی گرم رکھنے کے لئے گیس کے بجائے بجلی سے چلنے والے ہیٹروں اور گیزروں کا استعمال کریں۔ وہ اگر اس جانب راغب نہیں ہوں گے تو گویا انہیں سزا دینے کے لئے گیس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ کردیا جائے گا۔ جن تجاویز کا میں ذکر کررہا ہوں وہ کسی وزیر یا افسر نے مجھے سرگوشی میں نہیں بتائی ہیں۔ وزارتوں کے درمیان ان کے حوالے سے ہوئی خط وکتابت انگریزی اخبارات کے لئے معاشی خبریں ڈھونڈنے والے کئی دنوں سے عیاں کررہے ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ منگل کے روز وزیر اعظم کے مشیر برائے توانائی-تابش گوہر- سے نومبر اور فروری میں یقینی نظر آنے والے بحران کی وجہ سے استعفیٰ طلب کیا گیا ہے۔
سرکاردربار تک مؤثر رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مجھ جیسا عملی صحافت سے تقریباََ ریٹائر ہوا رپورٹر محض ٹیوے ہی لگاسکتا ہے۔ اصل حقیقت کیا ہے وہ اپوزیشن اراکین ہی قومی اسمبلی میں مہارت سے اٹھائے سوالات کے ذریعے ہی معلوم کرسکتے ہیں۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ وہ ہمیں باخبر رکھنے کے لئے کوئی جرأت دکھانے کو تیار ہیں بھی یانہیں۔