نگران وزیر اعظم انوارا لحق کاکڑ بالآخر بدھ کے روز پھٹ پڑے ہیں۔ صحافیوں کے ایک گروہ سے گفتگو کرتے ہوئے کابل کے حکمران ہوئے طالبان کوکھری کھری سنادیں۔ لگی لپٹی رکھے بغیر اصرار کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافے کا سبب افغان طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانی ہیں۔ ان کی کماحقہ تعداد افغانستان میں پناہ گزین ہے۔ اپنی کمین گاہوں سے وہ اکثر پاکستان درآتے ہیں اور یہاں تخریبی کارروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے بے تحاشہ ایسے واقعات بھی ہوئے جن کے "ماسٹر مائنڈ" اور سہولت کار تو غالباََ افغان طالبان کے ہم عقیدہ پاکستانی تھے مگر ہماری زمین پر واردات ڈالنے والے "افغان" تھے۔ اس ضمن میں خود کش بمباروں کا خصوصی ذکر ہوا۔
کاکڑ صاحب کے لگائے الزامات بدھ کے دن پاکستانی اور عالمی نشریاتی اداروں کی بدولت تواتر سے رپورٹ ہوئے۔ ان کے جواب میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے شام کے قریب محض ایک مختصر بیان جاری کیا۔ معذرت خواہی کے بجائے اس میں یاددلایا گیا کہ پاکستان میں امن وامان قائم رکھنا افغان حکومت نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ گویا سفارتی زبان میں پیغام دیا کہ حکومت پاکستان اپنی کوتاہیوں کا ملبہ طالبان حکومت کے کاندھوں پر نہ ڈالے۔ طعنہ نما یاددہانی کے بعد طالبان حکومت کے ترجمان نے روایتی سفارت کاری کی زبان اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ خوش گوار اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کی اہمیت پرزور دیا۔
وزیراعظم پاکستان اور طالبان حکومت کے ترجمان کے بدھ کے روز دئے بیانات کی بدولت معاملہ ہرگز ختم نہیں ہوگا۔ مجھے بلکہ خدشہ یہ لاحق ہورہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات تناؤ اورکشیدگی کے عمل سے گزرتے ہوئے بالآخرکھلی مخاصمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بھرپورتوجہ کےساتھ انہیں فی الفور دیانتدارانہ مذاکرات کے ذریعے معمول کی سطح پر لانے کے بعد "دوستانہ" بنانے کی لہٰذا ہر ممکن کوشش لازم ہوچکی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو پاکستان اور افغانستان باہمی تناؤ کے لامتناہی سلسلے کے اسیر بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوگا۔
مغلیہ سلطنت اپنے انجام کو بڑھ رہی تھی تواحمد شاہ ابدالی نے افغانستان کو 1747ءمیں ایران اور مغل خاندان کے زیرنگین ہندوستان کے مقابلے میں جداگانہ اور خودمختار مملکت بنادیا تھا۔ اس مملکت کوتوسیع دینے کی خاطر افغانستان کئی دہائیوں تک سندھ اور پنجاب پرحملہ آور ہوتا رہا۔ کشمیر پر بھی قابض رہا اور ایک ایسا دور بھی دیکھا جب افغانستان کی حکومت کے لئے مالیہ یعنی ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ کشمیر ہی تھا۔
میرے شہر لاہورکے باسیوں کی اکثریت کوغالباََ یاد نہیں ہوگا کہ یہاں رنجیت سنگھ کی حکومت سے قبل کئی ایسے صوبے دار یا گورنر بھی رہے ہیں جوکابل میں بیٹھے حکمرانوں نے تعینات کئے تھے۔ موچی دروازہ لاہور سے داخل ہوکر آپ چوک نواب صاحب پہنچیں تووہاں ایک گلی میں داخل ہوکر آپ ایک حویلی تک پہنچ سکتے ہیں جسے میرے بچپن میں"صمدودی حویلی" کہا جاتا تھا۔ یہ حویلی افغان حکومت کے لگائے ایک صوبے دار نے تعمیرکروائی تھی۔ نام اس کا عبدالصمد خان تھا۔ لہوری زبان میں اسے "صمدو" پکارا گیا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس حویلی کو "صمدو کی بغیچی" بھی پکارا جاتا تھا۔ بغیچی درحقیقت باغیچہ کا پنجابی متبادل ہے۔ باغ سے باغیچہ جو پنجابی میں بغیچی ہوگیا۔ حویلی کو بغیچی اس لئے پکاراگیا کیونکہ صمدو نے اس میں ایک باغ لگوایا تھا۔ اس سے قبل لاہوریے اپنے گھروں کوعمودی انداز میں تعمیر کروایا کرتے تھے۔ آج کے جدید بنگلوں کی طرح لان یا "پائیں باغ" وغیرہ کا تصور موجود نہیں تھا۔
"صمدودی بغیچی" کے علاوہ لاہورمیں ایک حویلی شاہ زمان سے بھی منسوب ہے۔ شیرانوالہ گیٹ سے داخل ہوں تویہ حویلی مولانا احمد علی لاہوری سے منسوب مسجد کے بعد چوک پرانی کوتوالی کی جانب چلتے ہوئے آپ کے دائیں ہاتھ آتی ہے۔ ہمارے بچپن میں بہت مشہور رہے ایک فلمی اداکارسدھیر کااصل نا م بھی شاہ زمان تھا اور وہ اس حویلی میں پیدا ہوئے بتائے جاتے تھے۔ شاہ زمان یاد رہے افغان شہزادے کی حیثیت میں لاہور آیا تھا۔
ان دوحویلیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی توجہ "اجتماعی یادداشت" کہلاتی حقیقت پردلانا ہے۔ افغانستان کی "اجتماعی یادداشت" میں ملتان ان کا زیر نگین علاقہ رہا ہے۔ سندھ کے شہر شکار پور کی بھی وہی حیثیت ہے۔ شکارپور کے نواح میں ایک قصبہ "کوٹ سلطان" بھی ہے۔ آج بھی وہاں کئی گھرانے گھروں میں دری بولتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے آغاسراج درانی کا نام ہی ان کو افغان نڑاد ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
تاریخ کی دیگ سے نکال کر مندرجہ بالا چند دانے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد آپ کو یاد دلانا ہے کہ افغانستان کی "اجتماعی یادداشت" ڈیورنڈ لائن کی بدولت ہوئی تقسیم کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ ہماری ہر حکومت ڈیورنڈ لائن کی بدولت ابھری جداگانہ شناخت کی اہمیت پر زور دیتی رہی ہے۔ اس ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے سخت گیر پالیسی اختیار کی۔
سردار داود کی حکومت "پختونستان" بھولنے سے گریز کرتی رہی تو بالآخر 1975ءمیں میجرجنرل نصیر اللہ بابر کی وساطت سے گل بدین حکمت یار اور برہان الدین جیسے "مجاہدین" پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ ان کی اہمیت 1980ء کی دہائی میں اجاگر ہوئی جب جنرل ضیاءنے "جہاد" کے ذریعے افغانستان کو کمیونسٹ نظام سے آزاد کروانے والی جنگ کی سرپرستی کی۔ تاریخ کا جبر یہ بھی ہے کہ "افغان جہاد" ہی نے "ڈیورنڈ لائن" کی تقسیم وتصدیق کا خاتمہ کیا اور آج اس تقسیم کو "ہماری مدد" سے کابل کے حکمران ہوئے طالبان بھی تسلیم کرنے کو رضا مند نہیں ہورہے۔