اپریل 2016میں جب بینڈ باجہ بارات کے ساتھ پانامہ دستاویزات کو منظر عام پر لایا گیا تو میں ان کی بابت ہرگز حیران نہیں ہوا تھا۔ وطن عزیز میں مگر دہائی مچ گئی۔"پھڑے گئے" کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ ہماری اکثریت نے یہ طے کردیا کہ ان دستاویز میں چار سو سے زیادہ جن پاکستانوں کے نام ہیں وہ رشوت خور اور ٹیکس چور ہیں۔ قوم کی دولت لوٹ کر انہو ں نے "آف شور کمپنیاں " بنارکھی ہیں۔ ان کا احتساب لازمی ہے۔
میں ہر اعتبار سے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ جوانی میں انقلابی استقلابی بھی رہا تھا۔"دورہٹو سرمایہ داروں " کے نعرے بھی بلند کرتا رہا۔ اس کے باوجود نہایت عاجزی اور ثابت قدمی سے یہ عرض کرتا رہا کہ منافع کمانے کی ہوس سرمایہ دارانہ نظام کی کلید ہوتی ہے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے منافع خور مگر حکومتوں کو ٹیکس دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ان کے گریز کو قانونی راستے البتہ حکومتوں ہی نے فراہم کررکھے ہیں۔ یہ راستے موجود نہ ہوتے تو امیر اور غریب کے درمیان فاصلے غالباََ محسوس ہی نہ ہوتے۔ ہمیں پورے عالم میں معاشی برابری کا ماحول نظر آرہا ہوتا۔ سرمایہ داروں کی محتاج سیاسی جماعتیں جو قانون بناتی ہیں وہ موم کی ناک ہوتے ہیں۔
آمدنی اور ٹیکس کے تناظر میں قانونی زبان میں دو اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔ ایک ہے Tax Evasionیا ٹیکس چوری اور دوسری ہے Tax Avoidanceیعنی ٹیکس کی ادائیگی سے گریز۔ چوری جرم ہے مگر گریز گناہ تصور نہیں ہوتا۔ گریز کی سہولت کو بلکہ بروئے کار لانے کے لئے آف شور کمپنیوں کا نظام قائم ہوا۔ یہ نظام برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک ہی نے اپنی اجارہ دار کمپنیوں کی آسانی کے لئے متعارف کروایا تھا۔ آپ نے ایپل نامی کمپنی کا نام یقینا سن رکھا ہوگا۔ کاغذوں میں اس کی مالک بھی ایک آف شور کمپنی ہے۔ میں اس کمپنی کا جو فون اور لیپ ٹاپ استعمال کرتا ہوں وہ ایپل کی دریافت اور فراہم کردہ ٹیکنالوجی کے ذریعے چین میں بنایا گیا تھا۔ اسے پاکستان کی دوکانوں میں آف شور کمپنی ہی نے بیچا۔ مجھے حکومتِ پاکستان کو اپنی خریداری کا ٹیکس دینا پڑا مگر ایپل کو ملا منافع امریکی حکومت کے ٹیکس نیٹ میں نہیں آیا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد آنے والی کئی دہائیوں میں سرمایہ دارانہ ممالک میں کمیونزم کے خوف سے سوشل سکیورٹی اور بے روزگاری الائونس وغیرہ متعارف کروائے گئے تھے۔ انہیں توانا تر بنانے کے لئے سیٹھوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لینا لازمی تھا۔ منافع خوروں کو یہ نظام پسند نہیں آیا۔ ٹیکس سے گریز کے راستے ڈھونڈے اور یوں آف شور کمپنیاں وجود میں آنا شروع ہوگئیں۔ ان کمپنیوں سے مگر سرمایہ دارانہ حکومتیں اس وقت خائف ہونا شروع ہوگئیں جب تیسری دنیا سے اٹھے منشیات کے سودا گروں نے اپنی کمائی بھی ان کمپنیوں کے ذریعے وائٹ یا باقاعدہ بنانا شروع کردیں۔ اس کے علاوہ کئی دہشت گرد تنظیمیں بھی ان کے ذریعے ہتھیار وغیرہ خریدنا شروع ہوگئیں۔
1980کے وسط سے لہٰذا مطالبہ شروع ہوا کہ بینکوں میں جمع شدہ رقوم حکومتوں سے خفیہ نہ رکھی جائیں۔ آف شور کمپنیاں چاہے ٹیکس نہ بھی دیں مگر اپنے کھاتے حکومتی پڑتال کے لئے کھلے رکھیں۔ اس صدی کا آغاز ہوتے ہی برطانیہ جیسے ممالک میں یہ خیال بھی فروغ پایا کہ دنیا کے غریب ممالک کو امداد کے نام پر سرمایہ دارانہ ممالک کے ٹیکس گزاروں کی ادا کردہ رقوم سے جو سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے اسے عوام کی خوش حالی کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے پسماندہ ممالک کے طاقت ور لوگ اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ مقصد اس تحریک کا پاکستان جیسے ممالک کے غریبوں کی مدد یقینی بنانا ہرگز نہیں تھا۔ بہت مکاری سے سوچ یہ پروان چڑھائی گئی کہ غریب ملکوں کی مدد کے نام پر سرمایہ نہ خرچ کیا جائے۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی غریبوں کی تعداد اب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دیگر ممالک کے غریبوں کی دیکھ بھال کے بجائے لہٰذا اوّل خویش کا رویہ اختیار کیا جائے۔
برطانیہ کا بورس جانسن اور امریکہ کا ڈونلڈٹرمپ مذکورہ سوچ کے بھرپور نمائندے ثابت ہوئے۔ آف شور کمپنیوں کے خلاف نہایت دھانسو دکھتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیمیں اپنی جاں گسل نظر آتی تحقیق سے درحقیقت پاکستان جیسے ممالک کے امیر طبقات کو بلااستثناء چور اور لٹیرے ہی ثابت کرنا چاہ رہی ہوتی ہیں۔ ان کی لگائی رونق سے میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ لوگوں کے دلوں میں نسلوں سے پلتی جلن کو وقتی تسکین مل جاتی ہے۔ ٹھوس مالی اعتبار سے بالآخر حاصل مگر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے سرمایہ داروں، طاقت ور سیاستدانوں اور اعلیٰ ترین حکومتی اور ریاستی عہدوں پر فائز رہے افراد کی جانب سے مبینہ طورپر قوم کی لوٹی ہوئی دولت اور اس سے خریدی جائیدادیں برطانیہ جیسے ممالک کے بینکوں اور شہروں میں بدستور محفوظ رہتی ہیں۔ اس ضمن میں اگر آپ کے دل ودماغ میں اب بھی کوئی امید باقی ہے تو برائے مہربانی فقط اتنا یاد کرلیں کہ حال ہی میں برطانیہ کی مالی جرائم کے خلاف بنائی ایجنسی نے طویل تحقیق کے بعد شہباز شریف اور ان کے ہونہار فرزند کے اثاثوں کی بابت اپنے ملک کی عدالت کو کیا بتایا ہے۔
1980کے وسط سے منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں لکھی کئی کتابیں غور سے پڑھنے کے بعد مجھے پانامہ پیپرز نامی طوفان نے ہرگز کوئی امید نہیں دلوائی تھی۔ نواز شریف کا ان دستاویزات میں نام نہیں لکھا گیا تھا۔ وہ مگر پانامہ دستاویز کی وجہ سے اٹھے طوفان کی زد میں آئے۔ میں ان کی سیاست کا کبھی مداح نہیں رہا۔ بارہا مگر ٹیکس چوری اور ٹیکس سے گریز کے مابین فرق سمجھانے میں وقت ضائع کرتا رہا۔ محض صحافیانہ کاوش کی وجہ سے "لفافہ" بھی پکارا گیا۔ نواز شریف کے حوالے سے آصف سعید کھوسہ جیسے دیدہ ور جج بھی اگرچہ پانامہ دستاویز سے فائدہ نہ اٹھاپائے۔ بالآخر اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔ میں آج بھی مصر ہوں کہ نواز شریف کی برطرفی اور نااہلی پانامہ دستاویز کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ ہماری ریاست کے چند طاقت ور افراد ان سے ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔
عمران خان کی صورت انہیں عوام میں مقبول ایک طاقت ور معاون بھی مل گیا۔ نواز شریف کے علاوہ جن دیگر پا کستانیوں کے نام پانامہ دستاویز میں آئے تھے آج بھی زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ پانامہ دستاویز کی حقیقت کو بخوبی جانتے ہوئے میں پنڈورالیکس نامی ایک نئے ڈرامے کا بے چینی سے ہرگز منتظر نہیں تھا۔ اتوار کی رات بالآخر ساڑھے نو بجے وہ لیکس منظر عام پر آگئیں۔ اس سے ایک روز قبل ہی مگر پیغام مل گیا تھا کہ پینڈورا عمران خان صاحب کا پانامہ نہیں بن پائے گا۔ لاہور کے زمان پارک کے رہائشی فرید نامی شخص کی وضاحتیں پینڈورا لیکس کے منظر عام پر آنے سے 24گھنٹے قبل ہی متاثر کن انداز میں برسرعام آچکی تھیں۔ بینڈباجے اور بارات کے ساتھ اتوار کی رات ٹی وی سکرینوں پر جو نام نہاد سنسنی خیز ڈرامہ رچایا گیا ہے وہ اردو محاورے کا وہ پہاڑ ہے جسے بہت کاوش سے کھودنے کے بعد جو برآمد ہوتا ہے وہ فقط ہنسنے کو مجبور کردیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جب تک قائم ہے آف شور کمپنیاں بھی پوری گج وج کے ساتھ اپنا وجود برقراررکھیں گی۔