پانامہ لیکس نے نوازشریف کی برطرفی اورتاحیات نااہلی کے راستے بنادئیے تھے۔ ان میں آئے دیگر نام زندگی کی راحتوں سے آج بھی لطف اندوز ہورہے ہیں۔ پینڈورا لیکس اس تناظر میں وقتی شوروغوغا کے علاوہ کسی کام کی نہیں۔ حکومت کو اس کی وجہ سے فائدہ بلکہ یہ ہوا کہ عمران خان صاحب ایک بار پھر صادق وامین ثابت ہوئے۔ اپنے لیڈر کی ایمان داری کی تصدیق کے بعد جذبات سے مغلوب ہوکر فواد چودھری اور شہباز گل نے محترمہ مریم نواز کے صاحبزادے پر گند اچھالنے کی کوشش کی۔ وار مگر کارگر ثابت نہیں ہوا۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر تاہم رونق لگ گئی۔ ہمارے ذہن سازوں کی اکثریت اب اپنی تفتیشی صلاحیتیں یہ کھوج لگانے کو استعمال کر رہی ہے کہ جنید صفدر کو بے بنیاد سکینڈل میں رگیدنے کا عمل کیسے شروع ہوا۔ اس حوالے سے فیک نیوز تراشنے اور اسے پھیلانے کا عمل بھی سکرینوں پر چھائے ماہرین علم ابلاغ پروفیسر انہ رعونت سے سمجھائے چلے جارہے ہیں۔
میرے اور آپ جیسے بے بس ولاچار پاکستانیوں کے لئے تکلیف دہ خبر مگر یہ ہے کہ پیر کے روز بجلی کے نرخوں میں دو روپے کے قریب اضافہ ہوگیاہے۔ اگلے ماہ بجلی کا بل آئے گا تو ہمارے دل دھک جائیں گے۔ مذکورہ اضافے کی بابت مگر ٹی وی سکرینوں پر رونق لگانے والے خواتین وحضرات نے کماحقہ دہائی نہیں مچائی۔ آف شور کمپنیوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی بدولت اپنی دولت چھپانے والوں کا اگرچہ کوئی بال بھی بیکا نہیں کر پائے گا۔
دورِ حاضر کی صحافت اپنے اصل فریضے کو بھول کر سوشل میڈیا پر حاوی رویوں کی غلام بن چکی ہے۔ یہ رویے میرے اور آپ کے بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے طاقت ور اور مشہور شخصیات کی بھد اڑانے کے جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے لئے ایسی صحافت کسی پریشانی کا ہرگز سبب نہیں ہوتی۔ وہ خود کو جوابدہ تصور نہیں کرتی۔ نہایت ڈھٹائی سے ہماری زندگی اجیرن کئے جارہی ہے۔
بارہا اس کالم میں آپ کو یاد دلاتا رہتا ہوں کہ ریاست پاکستان نے اپنی معیشت سنبھالنے کے لئے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ایک معاہدہ کررکھا ہے۔ اس کی بدولت ہماری سرکار کو ستمبر 2022تک 6ارب ڈالر قسطوں میں ملیں گے۔ ان کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ ہمارے گھروں کو فراہم ہوئی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے بہت چائو سے وزیر خزانہ بنائے شوکت ترین نے بڑھک لگائی تھی کہ آئی ایم ایف کو اپنی شرائط میں نرمی لانے کو مجبور کیا جائے گا۔ بجلی کے نرخ اس وقت تک نہیں بڑھائے جائیں گے جب تک متوسط طبقے کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر نہ آئے۔ وہ اپنے وعدے پر صرف 3ماہ گزرجانے کے بعد قائم نہ رہ پائے۔ چند ہی دنوں بعد انہیں واشنگٹن جانا ہے۔ آئی ایم ایف کے عہدے داروں سے مزید اقساط کی بھیک مانگنا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اعلان کے بعد وہ خود کو پراعتماد محسوس کریں گے۔ یہ امکان مگر یقینی نہیں کہ آئی ایم ایف بھی درگزر سے کام لے گا۔ وہاں حتمی فیصلہ سازی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مزاج کی محتاج ہے اور وہ افغانستان میں ہوئی ذلت ورسوائی سے تپے ہوئے ہیں۔ اپنا غصہ نکالنے کو بے چین۔
پاکستان آئی ایم ایف کا محتاج نہ بھی ہوتا تو کرونا کی پھیلائی بدحالی کے بعد تیزی سے بحال ہوتی معیشت کی وجہ سے ہمارے ہاں مہنگائی کی نئی لہر نمودار ہونا لازمی تھا۔ بحال ہوتی معیشت نے پیٹرول کی قیمت بڑھائی ہے۔ اب بحران گیس کے ضمن میں بھی نمودار ہورہا ہے۔ برطانیہ اور یورپ کے اخبارات ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے لوگوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ اب کے برس آنے والا موسم سرما لوگوں کو بدحال بنادے گا۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں موجود گیس کے ذخائر مقامی ضروریات کے لئے ناکافی ہوچکے ہیں۔ امریکہ سے بحری جہازوں سے آئی گیس کی قیمت ناقابل برداشت ہے۔ ایران کے تیل اور گیس کو بازار میں بکنے نہیں دیا جاتا۔ قطر اور روس پر اس ضمن میں کامل انحصار ہے۔
دنیا کے بازاروں میں جو گیس میسر ہے اس کا کم از کم 30فی صد ہمارا یار چین خریدلیتا ہے۔ بقیہ ستر فی صد کے لئے دنیا کے بے پناہ ممالک بولیاں لگاتے ہیں۔ پاکستان اس تناظر میں نسبتاََ چھوٹا کھلاڑی ہے۔ سودے بازی کی سکت سے یکسر محروم۔ ایک چھوٹا کھلاڑی ہوتے ہوئے بھی مگر ہم اپنی ضرورت کی گیس کو بروقت ہوئے معاہدوں کی بدولت حاصل کرسکتے تھے۔ اس شعبے کی نگرانی کے لئے تاہم جو ٹیکنوکریٹ تعینات ہوئے تھے کماحقہ پیش قدمی سے گھبراتے رہے۔ بابر ندیم کے بعد تابش گوہر بھی استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ اب ایک اور ٹیکنوکریٹ کی تلاش ہے۔ عطار کے اسی لونڈے سے شفاکی امید والا معاملہ۔ کوئی بقراط مگر دریافت بھی ہوگیا تو کم از کم آنے والے موسم سرما میں میرے اور آپ کے گھروں کو گیس مہنگے نرخوں پر بھی باقاعدگی سے فراہم نہیں کر پائے گا۔ ہم پر جو مصیبت نازل ہونے والی ہے اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی جرأت سے کیمروں کے روبرو اپنی چمک دکھانے والے اینکر خواتین وحضرات مگر محروم ہوچکے ہیں۔ فقط آف شور کمپنیوں کے ذکر سے اپنا دھندا چلارہے ہیں۔
گیس کے حوالے سے نمودار ہوتا بحران محض آپ اور میرے گھروں کو آنے والے موسم سرما میں برف خانہ نہیں بنائے گا۔ طویل المدت تناظر میں اس کی وجہ سے خوراک کا شدید بحران قحط کا ماحول بھی بناسکتا ہے۔ آج کے زمانے میں کم سے کم رقبے سے زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنے کے لئے اچھے بیجوں کے علاوہ کھاد بھی بنیادی ضرورت ہے۔ طاقت ور ترین کھاد تیار کرنے کے لئے امونیا کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت زیادہ گیس خرچ کرنے کے بعد حاصل کیا جاتا ہے۔ عالمی منڈی میں کھاد پیدا کرنے والے دھندے کی اجارہ دار کمپنی نے اپنے کئی پلانٹ اس وجہ سے بند کردئیے ہیں کیونکہ وہ اس وقت بازار میں میسر گیس کو خریدنا گھاٹے کا سودا تصور کرتے ہیں۔
ربّ کریم کے فضل سے اس برس کے ساون بھادوں نے ہماری زمینوں کو مناسب وتر فراہم کردیا ہے۔ نومبر سے گندم کی کاشت کا آغاز ہونا ہے۔ بیج ڈالنے سے قبل مگر چھوٹے کاشت کار کے لئے کھاد خریدنا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا۔ اس کی وجہ سے ہماری ضرورت کی گندم پیدا نہیں ہوسکے گی۔ حکومت کو عالمی اداروں نے معیشت سنبھالنے کے لئے جو رقوم فراہم کی تھیں وہ اجارہ دار سیٹھوں کے مخصوص گروہ کے کاروبار چمکانے کے لئے خرچ کردی گئی ہیں۔ ہمیں بہلانے کو ڈرامہ یہ لگایا جاتا ہے کہ جن سیٹھوں کو ٹھوس مالی معاونت فراہم کی گئی ہے وہ ایسی اشیاء تیار کرتے ہیں جو عالمی منڈی میں بکتی ہیں۔ پاکستان اپنی خوش حالی کو برآمدات کو مسلسل بڑھاکر ہی یقینی بناسکتا ہے۔
معیشت کے گور کھ دھندے سے قطعی نابلد ہوتے ہوئے میں اس کہانی کی قلعی ٹھوس دلائل سے کھول نہیں سکتا۔ یہ مگر کہنے کو مجبور ہوں کہ ہمارے لئے برآمدات سے کہیں زیادہ اہم مسئلہ اپنی ضرورت کی خوراک پیدا کرنا ہے جو بازار میں وافر اور نسبتاََ مناسب داموں میسر ہو۔ برآمدات سے جو اضافی منافع ہم کمائیں گے وگرنہ خوراک کی درآمدمیں صرف ہوجائے گا اور ہم بہت ہی تکلیف دہ آنے والی تھاں پرواپس آجائیں گے۔