مجھ کم علم کو گماں تھا کہ خلیل الرحمن قمر صاحب محض لکھاری شکھاری ہیں۔ ٹی وی ڈرامے لکھتے ہیں۔ عوام میں بے پناہ مقبول ان ڈراموں میں خواتین اکثر لوگوں کے اخلاق بگاڑتی اور گھروں کو تباہ کرتی نظر آتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کے لکھے ایک ڈرامے نے اسی تناظر میں ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر بہت دنوں تک رونق لگائے رکھی۔ قمر صاحب جو اپنے سرپر لگائے خضاب ڈیل ڈول اور لب ولہجے سے مجھے لکھاری کے بجائے پراپرٹی ڈیلر نظر آتے ہیں مذکورہ ڈرامے کے دفاع میں ڈٹ کرکھڑے ہوگئے۔ ٹی وی شوز میں پے در پے شرکت کی وجہ سے ہماری اقدار کے محافظ شمار ہوئے۔ مغرب سے مبینہ طورپر مرغوب ہوئے لبرل ان کا سامنا نہ کر پائے۔
اتوار کی صبح لیکن میں نے قمر صاحب کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی دریافت کرلیا ہے۔ یہ کالم لکھنے سے قبل سوشل میڈیا پر سرسری نگاہ ڈالنا ضروری تصور کرتا ہوں مبادا کوئی اہم ترین خبر مس نہ ہوجائے اور میرا کالم چھپنے کے بعد باسی لگے۔ مذکورہ عادت کی وجہ سے لیپ ٹاپ کھول کر اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر گیا تو وہاں Five Eyesکے نام سے ایک ٹرینڈ چل رہا تھا۔ اپنی آسانی کے لئے اس کا ترجمہ "پانچ آنکھیں " کرلیتے ہیں۔
"پانچ آنکھیں " درحقیقت باہمی تعاون کی اس تنظیم کا نام ہے جس کی بدولت امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ ایک دوسرے سے اہم اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے امکانات پر کڑی نگاہ رکھنا بھی اس بندوبست کے کلیدی فرائض میں شامل ہے۔ مذکورہ بندوبست ہمارے محبان وطن کے غضب کا نشانہ اس لئے بنا ہوا تھا کیونکہ نیوزی لینڈ نے گزرے جمعہ کے دن میدان میں اپنی کرکٹ ٹیم میچ شروع ہونے سے چند ہی لمحے قبل بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ اس ٹیم کے منتظمین کا دعویٰ تھا کہ انہیں قابل اعتماد ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ دہشت گرد میچ کے دوران تباہی پھیلانے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔
میچ شروع ہونے سے چند ہی لمحے قبل لیا فیصلہ ہر حوالے سے حیران ہی نہیں پریشان کن بھی تھا۔ جس انداز میں اس کا اعلان ہوا وہ یقینا ہماری بدنامی کا باعث بھی تھا۔ مجھ جیسا کرکٹ کے کھیل سے تقریباََ لاتعلق پاکستانی بھی اس کی وجہ سے چراغ پا ہوگیا۔ تھوڑے غور کے بعد مگر یہ سوچنے کو بھی مجبور ہوا کہ نیوزی لینڈ کو ہمیں خواہ مخواہ بدنام کرنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ بحرالکاہل کے اس پار یہ جزیروں پر مشتمل ملک ہے۔ عالمی سیاست کا مؤثر کردار نہیں۔ اس کے دفاعی اور اقتصادی مفادات وسیع تر تناظر میں کافی محدود ہیں۔ پاکستان میں اس کی سفارتی اور تجارتی موجودگی تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔
بنیادی حقائق کے علاوہ اہم بات یہ بھی ہے کہ ان دنوں اس ملک کی جو وزیر اعظم ہے وہ بہت انسان دوست ہے۔ خود کو امریکہ اور آسٹریلیا جیسے بڑے ممالک کی عالمی بساط پر لگائی چالوں سے دور رکھتی ہے۔ حال ہی میں جب پھنے خانی طمطراق سے امریکہ کے صدر نے برطانیہ اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم کے ساتھ مل کر اعلان کیا کہ چین پر نگاہ رکھنے کے لئے آسٹریلیا کو ایٹمی ہتھیارں سے لیس آبدوزیں فراہم کی جائیں گی تو اس کی حکومت نے واضح اعلان کردیا کہ آسٹریلیا کا چھوٹا ہمسایہ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے حصے کے سمندر میں ان آبدوزوں کو گشت کرنے نہیں دے گی کیونکہ نیوزی لینڈ ایٹمی ہتھیاروں کے فروغ کا عامی نہیں ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے نہایت جرأت وبہادری سے اپنے ملک میں بسے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت قابل ستائش خلوص سے یک جہتی کا اظہار کیا تھا جب ایک نسل پرست جنونی نے انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ اس کا ر ویہ اس لئے بھی قابل تعریف تھا کیونکہ ان دنوں آسٹریلیا کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر جو شخص بیٹھا ہے وہ اپنے ملک میں بسے تارکین وطن خاص طورپر مسلمانوں کو نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کی پھیلائی سوچ نیوزی لینڈ کے سفید فام افراد کی بڑی تعداد کو بھی متاثر کئے ہوئے ہے۔ آرڈرن اس سوچ کے خلاف مگر ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی جانب سے ثابت قدمی کے ساتھ اپنائی انسان دوستی کو تاہم ٹویٹر پر چھائے ہمارے محبان وطن کی اکثریت طیش سے مغلوب ہوکر نظرانداز کرنا شروع ہوگئی۔ محض اس کی مذمت سے بھی لیکن تسکین نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا کے ٹویٹر اکائونٹ پر ان دنوں ایسے افراد بھی غالب ہوچکے ہیں جو بین الاقوامی امور کے ماہر ہونے کے علاوہ سی آئی اے جیسے جاسوسی اداروں سے بھی زیادہ باخبر ہونے کے دعوے دار ہیں۔ یہ بات تو ہماری اکثریت پہلے ہی طے کرچکی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کو بدنام کرنے کے جواز تراشتے رہتے ہیں۔ ٹویٹر پر چھائے کھوجیوں نے سراغ اب یہ بھی لگالیا ہے کہ "پانچ آنکھیں " نامی تنظیم میں شامل کسی ملک نے نیوزی لینڈ کو سنسنی خیز مگر جھوٹی اطلاع دیتے ہوئے گمراہ کیا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جارہا کہ ہمارے ازلی دشمن یعنی بھارت نے روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی افواہ اڑائی ہوگی۔
اس ضمن میں ہمیں مزید باخبر کرنے کے لئے خلیل الرحمن قمر صاحب میرے چھوٹے بھائی شوکت پراچہ کے "آج " ٹی وی کے لئے ہوئے ایک شو میں نمودار ہوئے۔ نہایت اعتماد سے انہوں نے اعلان کردیا کہ درحقیقت اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے قبل ہی نیوزی لینڈ یہ طے کرچکا تھا کہ اسے دہشت گردی کے بہانے میچ سے تھوڑی دیر قبل ہی واپس بلوالینا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ نہایت رازداری سے تیار ہوئے مبینہ منصوبے کی ہمارے جاسوسی اداروں کو خبر کیوں نہ مل پائی۔ فقط قمر صاحب کی نگاہِ دوربین ہی اسے مابعدواقعہ دریافت کرنے میں کیوں کامیاب ہوئی۔ یہ سوال مگر اٹھایا نہیں گیا۔ ٹی وی شوز میں وطن کی محبت کے نام پر سیاپا فروشی قابل رشک ریٹنگ کو یقینی بناتی ہے۔ قمر صاحب نے شوبز کا کھلاڑی ہوتے ہوئے مذکورہ علت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نہایت رعونت سے یہ مشورہ بھی دیا کہ کوئی غیر ملکی ٹیم دہشت گردی کے بہانے کوئی کھیل کھیلنے پاکستان آنے کو تیار نہ ہوتو ہمیں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے کھیل اپنے مابین ہی کھیلتے رہنا چاہیے اور دنیا جائے بھاڑ میں۔
قمر صاحب جیسے محبان وطن سے ہاتھ باندھ کر التجا فقط یہ کرنا ہے کہ کرکٹ جیسا کھیل اب بہت بڑا دھندا بن چکا ہے۔ اس کے میچ دکھانے کے لئے کئی سپورٹس چینل بھی ہیں۔ ہمارے ہاں غیر ملکی ٹیمیں نہیں آئیں گی تو ہم ان چینلوں سے غائب رہیں گے۔ ایسے چینلوں پر ہماری عدم موجودگی مگر کرکٹ تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ دنیا کو بالآخر یہ پیغام بھی ملے گا کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے۔ عدم تحفظ کی شہرت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہم سے دور رکھے گی اور معاشی مشکلات کے موجودہ دنوں میں ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف بھڑاس نکالنے کے بعد ہماری کوشش اب یہ ہونا چاہیے کہ برطانیہ ہر صورت اپنی کرکٹ ٹیم ہمارے ملک بھیجنے کا فیصلہ کرے۔ اس کے بعد آسٹریلیا بھی آئے۔ یہ دونوں ممالک اپنے کھلاڑی پاکستان بھیجنے کو آمادہ ہوگئے تو نیوزی لینڈ کی جانب سے ہوا فیصلہ خودبخود بچگانہ لگے گا۔ سیاپا فروشی کے عمل میں اپنے منہ پر طمانچے مارتے ہوئے سرخ کرنے کے بجائے ہمیں خود کو پرامن ملک دکھانے کے لئے ٹھوس اقدامات لینے ہوں گے۔ خدارا ان پر توجہ دیجئے۔