جمعہ اور ہفتہ کی صبح اٹھ کر مجھے یہ کالم لکھنا نہیں ہوتا۔ چھٹی کے ان دنوں میں میری حتیٰ الامکان یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے لیپ ٹاپ سے دور رہوں۔ موبائل پر نصب سوشل میڈیا والی ایپس سے بھی رجوع نہ کروں۔ افغانستان میں اس مہینے کے آغاز سے جو حیران کن تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں انہوں نے مگر تجسس کی آگ کو بھڑکادیا۔ رات گئے تک تازہ ترین معلوم کرنے کو بے تاب رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ دس سے زیادہ کتابیں بھی الماریوں سے نکال کر بستر کے قریب رکھ لی ہیں۔ افغانستان کو نئے زاویوں سے دیکھنے کے لئے انہیں ہر صورت پڑھنا درکار ہے۔ ڈاکٹروں نے اگرچہ کالے موتیے سے محفوظ رہنے کے لئے ایسی مشقت کو سختی سے ممنوع ٹھہرارکھا ہے۔
عملی صحافت کے ایام میں خارجہ امور پر نگاہ رکھنا میری اولین ترجیح نہیں تھی۔ بنیادی طورپر ملکی سیاست کے بارے میں وکھری نوعیت کی خبریں دینے والا رپورٹرشمار ہوتا تھا۔ ملکی سیاست سے میری دلچسپی کا عالم مگر اب یہ ہوگیا ہے کہ اتوار کی شب کراچی میں طویل عرصے بعد بچی کچھی پی ڈی ایم کا جلسہ تھا۔ میرا جی ایک لمحے کو بھی اس کی یوٹیوب چینلوں کے ذریعے ہوئی براہ راست نشریات دیکھنے کو مائل نہیں ہوا۔ ٹویٹر کے ذریعے تاہم اچانک اطلاع یہ ملی کہ نواز شریف وڈیو لنک کے ذریعے اس جلسے سے مخاطب ہیں۔ انہیں سننے کے لئے یوٹیوب سے رجوع کرنا پڑا۔ میاں صاحب مگر "مجھے کیوں نکالا" والا سوال ہی دہرارہے تھے۔ ان کی تقریر سنتے ہوئے ہرگز احساس نہیں ہوا کہ 15اگست کے دن افغانستان میں ایک اور تاریخی تبدیلی آچکی ہے۔ اس ملک کا قریب ترین ہمسایہ ہوتے ہوئے پاکستان اس تبدیلی کے مثبت یا منفی اثرات سے غافل رہنے کا متحمل ہو نہیں سکتا۔
نواز شریف صاحب وطن عزیز کے تین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔ ان کے پہلے دور میں افغانستان سے سوویت یونین کے کامل انخلاء کے بعد مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ نئی قیادت سے ملاقات کے لئے وزیر اعظم ایک خصوصی طیارے میں کابل گئے۔ اس طیارے میں ان دنوں کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ بھی سوار تھے۔ میں بھی اس وفد کے ہمراہ جانے والے صحافیوں میں شامل تھا۔
نظر بظاہر پاکستان کے "دوست" تصور ہوتے مجاہدین اقتدار سنبھال چکے تھے۔ وطن واپسی کے لئے پاکستانی طیارہ مگر دو گھنٹے تک کابل ایئرپورٹ پر رکا رہا۔ بلند پہاڑوں سے ائیرپورٹ کے رن وے کی جانب بڑھتے میزائلوں کی بارش ہورہی تھی۔ ہم صحافیوں کو یہ سمجھانے کے لئے کوئی آمادہ نہیں تھا کہ خوفزدہ کردینے والے یہ میزائل کون برسا رہا ہے۔ جہاز میں موجود افراد کی اکثریت کا تاہم خیال تھا کہ میزائل مجاہدین کے ان گروہوں کی جانب سے احتجاجاََ پھینکے جارہے ہیں جنہیں گلہ ہے کہ انہیں مجاہدین کی بنائی حکومت میں اپنے جثے کے مطابق حصہ نہیں ملا۔
اقتدار میں مناسب حصہ نہ ملنے پر میزائل برسانے کے ذریعے ہوئے احتجاج نے مجھ جیسے صحافیوں کو حیران وپریشان کردیا۔ کابل روانہ ہونے سے قبل ہم کئی گھنٹے پشاور کے ایک ریسٹ ہائوس میں ان دنوں وزارت خارجہ کے چھوٹے وزیر صدیق کانجو مرحوم کے ہمراہ انتظار کرتے رہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ مجاہدین کے مابین وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے سمجھوتہ نہیں ہوپارہا۔ حالانکہ دو روز قبل ہی ان کے تمام گروہوں کے سربراہوں نے خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر یہ عہد کیا تھا کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد کو ہرصورت برقرار رکھیں گے۔
طالبان نمودار تومحترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ہوئے تھے۔ کابل پر ان کا قبضہ مگر 1997میں ممکن ہوا۔ نواز شریف اس برس ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر لوٹ چکے تھے۔ طالبان جب کابل میں داخل ہوئے تو پاکستان ٹیلی وژن پر خبر چلی کہ اسلام آباد نے انہیں "افغان حکومت" کی حیثیت میں تسلیم کرلیا ہے۔"ہیوی مینڈیٹ" کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹے نواز شریف یہ خبر دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے فرزند جناب گوہر ایوب خان صاحب ان دنوں ہمارے وزیرخارجہ تھے۔ ان سے ہنگامی رابطے ہوئے تو "خبر"آئی کہ انہیں "وہاں " سے طالبان کو افغانستان حکومت کے طورپرتسلیم کرنے کی تجویز آئی تھی۔ وزیر خارجہ نے اپنے باس یعنی نواز شریف سے رجوع کئے بغیر ہی مبینہ تجویز پر فوری عملدرآمد کا اعلان کردیا۔ گوہرایوب کے خلاف اس کی وجہ سے کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوئی۔ چند ہفتوں بعد اگرچہ وہ بجلی اور پانی کے وزیر بنادئیے گئے۔ بہانہ یہ تراشا گیا کہ وزیر خارجہ ہوتے ہوئے گوہر ایوب صاحب اکثر غیر ملکی دوروں پررہتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی سے سرکاری مدد اور سرپرستی کے متمنی ان کے ہری پور والے حلقے کے ووٹر ناراض ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہوا کہ وزارت خارجہ سے گوہر ایوب خان کو ان کی خواہش پر ہٹایا گیا ہے۔ ان کی جگہ سرتاج عزیز صاحب تعینات ہوئے جو اس سے قبل وزیر خزانہ تھے۔
وزارتوں میں تبدیلی کی اصل وجہ درحقیقت یہ تھی کہ پاکستان کی جانب سے امریکی خواہشات کے برعکس ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے ہمارا ملک اقتصادی پابندیوں کی زد میں آگیا تھا۔ پاکستان کے غیر ملکی کرنسی میں جمع ہوئے ذخائر کو محفوظ بنانے کی خاطر لہٰذا پاکستان کے بینکوں میں رکھے ڈالر بھی ہماری سرکار نے اپنے قبضے میں لے لئے۔ جن پاکستانیوں نے ڈالر جمع کررکھے تھے انہیں اپنی رقوم کے عوض پاکستانی روپے فراہم کرنے کی یقین دہانی ہوئی۔ کاروبار میں لیکن زبان سے نکالے لفظ ہی آپ کی ساکھ کو بناتے یا تباہ کرتے ہیں۔ نواز حکومت کے وعدوں پر اس کے بعد کاروباری حضرات نے اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی بھی اس کی بابت بہت چراغ پا ہوئے۔ سرتاج صاحب کو لہٰذا قربانی کا بکرا بناتے ہوئے وزارت خارجہ کا حتمی بابو بنادیا گیا۔
مندرجہ بالا واقعات کاذکر نواز شریف صاحب کو یاد دلانے کی خاطر کیا ہے کہ وہ افغانستان کی حالیہ تاریخ اور حقائق کی بابت ہرگز لاعلم نہیں۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کا فرض تھا کہ لندن سے طویل وقفے کے بعد پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ذہن میں افغانستان کی ابھرتی صورت حال کے بارے میں موجود خیالات کو ہمارے روبرو لاتے۔ وہ مگر اس بار ے میں خاموش رہے۔ عوام کو اگرچہ یہ بتانے کو مصر بھی رہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں "خاموشی جرم ہے"۔
نواز شریف صاحب کے برعکس مولانا فضل لرحمن صاحب نے صراحت سے طالبان کی کابل میں فاتحانہ واپسی کا خیرمقدم کیا۔ افغانستان کے سیاسی گروہوں سے درخواست کی کہ چونکہ طالبان ماضی کو فراموش کرنا چاہ رہے ہیں اس لئے وہ ان کے ساتھ نئی حکومت کی تشکیل میں تعاون کریں۔ ہم پاکستانی مگر کیا کریں؟ اس کے بارے میں میرے بہت ہی محترم مولانا بھی خاموش رہے۔
افغانستان کے حالیہ واقعات کے بارے میں نواز شریف صاحب کی اپنائی خاموشی نے مجھے مایوس کیا۔ مولانا فضل الرحمن کا رویہ بھی کوئی تسلی دینے میں ناکام رہا۔ دریں اثناء یہ خبر دنیا میں پھیل چکی ہے کہ اتوار کے روز امریکہ نے جو ڈرون حملے کابل کے ایک گھر پر کئے ہیں ان کی وجہ سے کئی بچوں سمیت بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ داعش کی خراسان کے حوالے سے بنائی تنظیم کے "دہشت گرد" کا نام بھی امریکہ بتا نہیں رہا جو بقول ان کے ایک گاڑی کو بارود سے بھرکر کابل ایئرپورٹ لے جانا چاہ رہا تھا۔ کابل پر اتوار کے روز ہوئے حملے کا جواز مبینہ مگر ابھی تک نامعلوم دہشت گرد کے منصوبے کو ناکام کرنا بتایا جارہا ہے۔