چند دن قبل کالے موتیا نے میری آنکھوں میں نقب لگانے کی کوشش کی تو پکڑا گیا۔ اس کی پیش بندی کے لئے تشخیص کے کئی مراحل سے گزرنا پڑا۔ مرض تو قابو میں آگیا۔ میرے لئے تاہم اہم ترین یہ اطلاع تھی کہ رضا کارانہ اختیار کردہ گوشہ نشینی اس مرض کا بنیادی سبب ہوا کرتی ہے۔ آنکھوں کو صحت مند رکھنا چاہتے ہو تو سارا دن بستر پر لیٹے رہنے اور وہیں جم کر اخبارات، کتابوں اور سوشل میڈیا سے رات گئے تک بلاتعطل رجوع نہ کیا جائے۔ گوشہ تنہائی سے باہر نکلنے کے بعد اگر گفتگو کے لئے انسان میسر نہ ہوں تو درختوں اور پرندوں کو سراہنے کی عادت ڈالو۔
مطلوبہ روش پر چلنے کا فیصلہ کیا تو گزرے بدھ کے روز بہت دنوں بعد ایک محفل میں بیٹھنے کا موقع بھی مل گیا۔ وہاں موجودگی نے میرے اندر مردہ ہوئے رپورٹر کو بھی تھوڑی دیر کو زندہ کردیا۔ حیرانی ہوئی کہ ٹی وی سکرینوں پر ایک دوسرے کو للکارتی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی ہمارے جیسے منافقانہ معاشرے میں برد بار کہلاتی مصلحت کے ساتھ آپس میں بانٹ لی ہیں۔ دفاع اور امور خارجہ جیسی اہم وزارتوں کی نگہبانی یقینا اپوزیشن نے حاصل کرلی۔ اس کے بدلے میں لیکن انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے کا اختیار حکمران جماعت کے سپرد کردیا۔ ولید اقبال متعلقہ کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔
ولید میرے لاہور کے ہیں۔ علامہ اقبال کے پوتے ہیں۔ میں اگرچہ ان کی والدہ کا بہت معتقد ہوں۔ انتہائی باوقار خاتون ہیں۔ لاہور کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس کے یوسف صلاح الدین سے میری دیرینہ دوستی ہے۔
ہمارے ادب اور سیاست کی کئی نامور شخصیات کی تیسری نسل مجھ جیسے پھکڑپن لہوری کو "ممی ڈیڈی" محسوس ہوتی ہے۔ ولید مگر اردو زبان وادب کے سنجیدہ طالب علم ہیں۔ اس کالم کے باقاعدہ قاری ہیں۔ سینیٹ کے چند اجلاسوں میں اس کے حوالے بھی دیتے رہے ہیں۔ میرااستعمال کردہ کوئی لفظ انہیں حیران کرے تو فون کے ذریعے اسے زیر بحث لاتے ہیں۔ ایسے قاری مجھ جیسے قلم گھسیٹوں کو شاذہی نصیب ہوتے ہیں۔ ان کی ذات کے بارے میں اندھی نفرت وعقیدت والے تعصب کی بنیاد پر سوال اٹھانے کی بابت لہٰذا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ توقع باندھنے کو مجبور ہوں کہ وہ انسانی حقوق کی کمیٹی کو مزید متحرک اور توانا بنائیں گے۔
معاملہ مگر اصولی ہے۔ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو وہ انسانی حقوق کے حوالے سے ملک کی "بدنامی" پسند نہیں کرتی۔ اس تناظر میں کوئی سنگین واقعہ ہوجائے تو اسے نظرانداز کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران اس کی سربراہی پیپلز پارٹی کے جواں سال سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے پاس رہی۔ موصوف کو میڈیا میں مشہوری کی خاطر "خبر" بنانے کا شوق لاحق نہیں۔ قانون کا طالب علم ہوتے ہوئے انہوں نے عالمی سطح پر کارفرما انسانی حقوق سے متعلق قوانین کو بطور نصابی مضمون بھی پڑھ رکھا ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی سنگین واقعہ ہوجاتا تو میڈیا میں اس کی بابت بڑھکیں لگانے کے بجائے اپنی کمیٹی کے ذریعے پرخلوص اورلگن کے ساتھ ازالے کی کوئی صورت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ بلوچستان میں ہوئے چند "حساس" واقعات کی تفصیلات جاننے کے لئے انہوں نے "مقتدر" کہلاتے اداروں کے چند سینئرافسران کو بھی اپنی کمیٹی کے روبرو طلب کیا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کے اپنائے طریقہ کار کی بدولت ہماری سول سوسائٹی کے سرکردہ افراد کو اطمینان میسر ہوا کہ ہمارے ہاں "شنوائی" کے ادارے کسی نہ کسی صورت اب بھی موجود ہیں۔ بلوچستان اور سابقہ قبائلی علاقوں کے نمائندے اس کمیٹی کے تحرک کی بدولت اپنے لوگوں کے سا منے معذرت خواہ یا شرمندہ نہ ہوتے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے جو بھی مسئلہ رونما ہوتا وہ مذکورہ کمیٹی کے روبرو تفصیل سے زیر بحث آجاتا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سرگرمی نے سینیٹ کی انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کی ساکھ کو بہت متانت سے اجاگر کیا۔ یوں ہم عالمی سطح پر ہوئی "بدنامی" سے بھی کافی حد تک محفوظ ہوجاتے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس کمیٹی کو حکومت کے سپرد کرتے ہوئے درحقیقت انسانی حقوق جیسے اہم مسئلہ کے بارے میں بے اعتنائی دکھائی ہے۔ دفاع اور امور خارجہ جیسے "بارعب" محکموں کی سربراہی لے کر مطمئن ہوگئے۔ کاش وہ اس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن کے نامزد کردہ سینیٹر کو دلانے پر مصر رہتے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ جمعہ کے روز چھپے کالم کے بعد میرے کئی ساتھیوں نے اسی موضوع پر اپنے اخبارات کے لئے مزید تفصیلا ت فراہم کی ہیں۔ چند ٹی وی پروگرام بھی ہوئے۔ تیر مگر کمان سے نکل چکا ہے۔ اب ولید اقبال اپنی ذاتی لگن ہی سے مجھ جیسے نکتہ چیں کو غلط ثابت کرسکتے ہیں۔
جمعہ کے روز چھپے کالم میں بنیادی طورپرحقیقت یہ اجاگرکرنے کی کوشش کی تھی کہ پارلیمان میں موجود "ہمارے نمائندوں " کی بے پناہ اکثریت اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل فقط دھواں دھار تقاریر سے ممکن نہیں۔ مسائل کا حل ڈھونڈنے سے قبل ان کی ٹھوس وجوہات کی نشان دہی لازمی ہے۔ مطلوبہ نشان دہی فقط مختلف وزارتوں کی نگہبانی کے لئے بنائی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے اس جانب کماحقہ توجہ نہیں دی جارہی۔
پاکستان کو مثال کے طورپر گزشتہ کئی مہینوں سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایف اے ٹی ایف نامی ادارے نے اپنی گرے لسٹ میں شامل کررکھا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کے لئے انتہائی عجلت میں ہمارے ہاں کئی نئے قوانین متعارف ہوئے۔ وہ پارلیمان میں پیش ہوئے تو ہم سادہ لوح پاکستانیوں کو علم ہی نہیں ہوا کہ ہم گرے لسٹ میں کیوں ڈالے گئے تھے۔ اس لسٹ سے باہر نکلنے کی خاطر جو قوانین تیار ہوئے وہ ہمارے ہاں صدیوں سے موجود کاروباری رواج کو یکسر بدل کررکھ دیں گے۔ بینکنگ کا نظام اس کی وجہ سے پہلے جیسا نہیں رہا۔ آپ کسی بڑی رقم کو نقدی کی صورت اپنے اکائونٹ میں جمع کروانا چاہیں تو مشکوک تصور ہوتے ہیں۔ اس رقم کے حصول کا ذریعہ دستاویزی صورت میں فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ممکنہ سوالات سے گھبرا کر عام کاروباری افراد کی کثیر تعداد نے بینکوں میں رقم جمع کرنے سے اجتناب برتناشروع کردیا۔ اس کی بدولت ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ہمارے ہاں زمینوں کی خریدوفروخت میں ان دنوں جو رونق نظر آرہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ فیصلہ ہے کہ جائیداد خریدنے والے سے فی الوقت کوئی سوال نہیں پوچھے جائیں گے۔ یہ رونق بھی تاہم وقتی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر آنے کے لئے سوالات پوچھنالازمی ہے۔ جب ان سوالات کا سلسلہ شروع ہوگا تو پراپرٹی والے دھندے کی رونق دوبارہ ماند پڑنا شروع ہوجائے گی۔
"وسیع تر قومی مفاد" میں اپوزیشن کے اراکین پارلیمان نے گرے لسٹ سے باہر نکلنے کے مقصد سے بنائے قوانین کی منظوری کے دوران اپنی تقاریر کے ذریعے واجب سوالات اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ انتہائی عجلت میں تیار ہوئے قوانین کی منظوری کو مزید عجلت میں یقینی بناتے رہے۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جب مطلوبہ قوانین منظور ہوگئے تو شاہ محمود قریشی صاحب نے قومی اسمبلی میں "اچانک" آکر ایک حقارت بھری تقریر جھاڑدی۔ رعونت سے الزام لگایا کہ "وسیع تر قومی مفاد" میں تیار ہوئے قوانین کی منظوری میں تعاون کی بدولت اپوزیشن والے اپنے "بدعنوان"رہ نمائوں کے لئے این آر او کے طلب گار تھے۔"کپتان" مگر ڈٹ گیا۔ تہیہ کرلیا کہ حکومت جاتی ہے تو جائے "چوروں اور لٹیروں " کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد مخدوم صاحب سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے۔ نہایت ہوشیاری سے ہمیں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ آصف علی زرداری کے مبینہ طورپر "جعلی اکائونٹس" اور نواز شریف کی لندن میں خریدی جائیدادوں نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا ہے۔ سینیٹ میں موجود ان دونوں کے "ذہنی غلام" مگر تعاون کو تیار نہیں ہورہے۔"ذہنی غلام" کی تہمت نے مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کو چراغ پا بناڈالا۔ ان کی مزاحمت کی بدولت حکومت مطلوبہ قوانین کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے منظور کروانے کو مجبور ہوئی۔
سوال یہ اٹھانا مگر لازمی ہے کہ "وسیع تر قومی مفاد" میں اپوزیشن جماعتوں کے جارحانہ انداز میں لتے لینے کے باوجود پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں کیوں پھنسا ہوا ہے۔ ہفتے کی صبح ہمارے اخبارات کے صفحۂ اوّل پر جی کوخوش کرنے والی ایک خبر نمایاں تھی جو عندیہ دے رہی تھی کہ ہم نے ایف اے ٹی ایف کو کافی مطمئن کردیا ہے۔ بات اب کہاں "اٹکی" ہوئی ہے۔ اس سوال کا واضح جواب لیکن میسر نہیں تھا۔ حکومت کو اس ضمن میں حقائق بیان کرنے کوپارلیمان میں موجود اپوزیشن کے اراکین ہی مجبور کرسکتے ہیں۔ مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کے بس کی بات نہیں۔