شام 7بجے سے رات کے بارہ بجے تک ریموٹ کے بٹن دباتے ہوئے "حالاتِ حاضرہ" کو زیر بحث لاتے کسی بھی ٹی وی شوپر رکیں تو گماں ہوتا ہے کہ ہماری قوم ان دنوں آئین پاکستان کی ہر شق پر عملدرآمد ہوتا دیکھنے کو بے چین ہے۔ اسے یہ فکر بھی لاحق ہوچکی ہے کہ عدالتی فیصلوں کا دل وجان سے احترام ہو۔ عدالتی فیصلوں پر عمل پیرائی کو بے چین نظر آتی میری قوم مگر بھول چکی ہے کہ 4اپریل 1979ء کو ایک وزیر اعظم کا پھانسی پر لٹکائے جانا بھی ایک عدالتی فیصلے ہی کا نتیجہ تھا۔
عدالت ہی نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی ایک چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے ان کے منصب سے فارغ کردیا تھا۔ نواز شریف وطن عزیز کے جب تیسری بار وزیر اعظم تھے تو خود کو "صادق وامین" ثابت کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے ہاتھوں تشکیل پائی ریاست کے چند تفتیشی اور جاسوسی اداروں کے تنخواہ دار ملازموں پر مشتمل جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے رہے۔
بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ موصوف اپنے فرزند سے تنخواہ نہ لینے کے باوجود طے ہوئی تنخواہ سے ٹیکس حکام کو آگاہ نہ رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس خلیجی ملک میں سفر اور رہائش کے لئے "اقامہ" بھی تھا۔ ریاست کو اس کے بارے میں بھی بے خبر رکھا گیا۔ مذکورہ "جرائم" کی بنیاد پر نواز شریف کو تاحیات انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل قراردے دیا گیا تھا۔
لطیفہ یہ بھی ہوا کہ موجودہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی کو کئی برس گزرجانے کے بعد عدالتی غلطی قرار دے چکی ہے۔ میرے اور آپ جیسے بے شمار پاکستانی حقوق وفرائض کے حامل "شہری"نہیں۔ حکمران اشرافیہ کی بے بس ولاچار رعایا ہیں۔ بے بس ولاچار رعایا کا حصہ ہوتے ہوئے اکثر یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ میرے مرجانے کے بعد کوئی سپریم کورٹ یہ فیصلہ بھی تو سناسکتی ہے کہ گزرے پیر کی صبح سپریم کورٹ کے 8 اکثریتی ججوں کی جانب سے عوام کے روبرو لایا فیصلہ آئینی اور قانونی اعتبار سے درست نہیں تھا۔
اس کا مقصد ایک مخصوص سیاسی جماعت کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں دلوانا تھا۔ "مکمل انصاف" کے نام پر درحقیقت مذکورہ جماعت کی ڈٹ کر پشت پناہی ہوئی۔ اکثر یہ سوچنے کے باوجود نہایت خلوص سے یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میری دانست میں پیر کے روز سنائے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔ حکم عدولی سیاسی بحران کو سنگین تر بنائے گی۔ معاشی استحکام کو ناممکن بنانے کے علاوہ ہمیں کامل انتشار کے الائو میں پھینک دے گی۔
ایوان ہائے اقتدار میں لیکن ہم سادہ لوح عامیوں کی آواز پہنچ نہیں پاتی۔ ملکی سیاست کا کئی دہائیوں سے شاہد ہوتے ہوئے احساس ہورہاہے کہ اب کی بار عموماََ اعلیٰ عدالتوں کے روبرو "بکری" ہوئے سیاستدان "پارلیمان کی بالادستی" اجاگر کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہیں"چور اور لٹیرے" پکارتے ہوئے تیسری قوت کی صورت ابھری تحریک انصاف مگر "عدلیہ کی آزادی" یقینی بنانا چاہ رہی ہے۔ مطلوبہ آزادی اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عددی اعتبار سے مزید طاقتور بنائے گی۔
"مکمل انصاف" کے تصور پر حقیقی عملدرآمد ہوا تو موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد "فارم 45اور فارم 47" کے مابین فرق کی بنیاد پر بالآخر "فارم45" کی چھان پھٹک کرتے ہوئے فروری2024ء کے انتخابی عمل کو کالعدم قرار دینے کے امکانات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ایک بار پھر واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ میری خواہش نہیں بلکہ تحریک انصاف کے کئی زعماء کی توقع ہے۔ ان کی توقع پر عملدرآمد بھی سیاسی بحران کو سنگین تر بنادے گا۔
کالم مگر اس شکایت سے شروع ہوا تھا کہ ٹی وی سکرینوں پر توجہ دیں تو پاکستان کو فی الوقت ایک ہی سوال کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے حوالے سے 8 اکثریتی ججوں کے سنائے فیصلے پر عمل ہوگا یا نہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے فریقین اس سوال کے جواب میں اپنی ترجیح کے مطابق تاویلیں گھڑرہے ہیں۔ وہ جسے "درمیانی راہ" کہا جاتا ہے ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں ہورہی۔ بطور پاکستانی مگر میں کئی دیگر امور کے بارے میں گزشتہ چند دنوں سے نہایت فکر مند ہوں۔
"خبر" اوروہ بھی "سچی" سنا ہے ان دنوں فقط سوشل میڈیا کی بدولت ملتی ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ سوشل میڈیا کی بدولت "باخبر" ہوئے کتنے افراد اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ آئندہ ماہ کے وسط میں پاکستان شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس۔ سی۔ او)کا میزبان ہوگا۔ ہمارے دیرینہ اور مشکل وقت کے یار چین کے ایماء پر اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ روس کے علاوہ سابق سوویت یونین میں شامل بیشتر ریاستیں مثلاََ ازبکستان وقزاقستان بھی اس کی رکن ہیں۔ ایران بھی اس میں شامل ہوچکا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ بھارت بھی وسطی ایشیاء کے ممالک میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے اور روس کو خوش رکھنے کیلئے اس تنظیم کا رکن بن چکا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی گزشتہ دو دہائیوں سے بھارت کو چین کے مقابلے میں جنوبی ایشیاء کا "پردھان" بنانا چاہ رہے ہیں۔ 1962ء سے بھارت کا چین سے سرحدی تنازعہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کے باوجود چین بھارت کا اہم ترین تجارتی شراکت دار ہے۔ ان دو ممالک کے مابین تجارت چین کی کامل (معاشی) بالادستی کا ٹھوس اظہار بھی ہے۔ ایس سی او کی میزبانی کرتے ہوئے پاکستان کو غیر رسمی سفارت کاری کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ 15اور16اکتوبر کو جو کانفرنس ہورہی ہے بھارت، روس اور چین کے نمائندے اس میں ذاتی طورپر شریک ہوں۔
ایران سے بھی فیصلہ سازی کے حوالے سے ایسا مہمان آنا چاہیے۔ مذکورہ ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندوں کے مابین متحرک سفارت کاری کے ذریعے پاکستان اپنے جغرافیائی حقائق پر توجہ دلاتے ہوئے علاقائی تجارت کو تیز تر بنانے کے لئے اہم ترین راہ داری کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ کالم لکھنے سے قبل گزشتہ دو دنوں کے دوران میں نے سفارت کاری کے حوالے سے چند معتبر افراد سے ٹیلی فون پر روابط کئے۔ یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایس سی او کانفرنس کو "تاریخی" بنانے کے لئے حکومت پاکستان نے کیا حکمت عملی تیار کی ہے۔ مجھے بے نیازی یا امید کھوجانے کا تاثر ہی ملا۔ طویل عرصے کے بعد وطن عزیز میں ایک اہم ترین علاقائی بلکہ بین الاقوامی اعتبار سے بہت اہم کانفرنس کا انعقاد مجھے کار بے سود محسوس ہوا۔ "آنیاں جانیاں" تک محدود مشق۔
علاقائی تجارت کا ذکر چلا ہے تو دْکھی دل کے ساتھ اعتراف یہ بھی کرنا ہوگا کہ منگل کی شام اپنے ٹی وی شو میں ایس سی او کانفرنس کا ذکر کررہا تھا تو پروگرام میں لئے وقفوں کے دوران خیبرپختونخواہ سے متعدد تصاویر اور پیغامات ملے۔ ان کے ذریعے علم ہوا کہ شمالی وزیرستان کے ایک اہم شہر میر علی میں مذہبی انتہا پسندوں کے گروہ ریاست کو اشتعال دلاتے ہوئے جھڑپوں میں الجھائے ہوئے ہیں۔ جائے وقوعہ سے بہت دور سٹوڈیوز میں بیٹھے میں فون پر آتی اطلاعات کی تصدیق یا تردید کے قابل نہیں تھا۔ پیغامات مگر تشویش ناک تھے۔ نام نہاد مین سٹریم میڈیا میں لیکن ان کا تذکرہ نہیں ہورہا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی اطلاعات اگر غلط تھیں تو وہ فوری اور غیر مبہم تردید کی حقدار تھیں۔