ریاست کے نئے مالیاتی سال کا آغاز ہمارے ہاں ہر برس کی یکم جولائی سے ہوتا ہے۔ اس کے شروع ہونے سے قبل وزیر خزانہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے قائم ہوئی قومی اسمبلی کے روبرو گزرے سال کا حساب رکھتے ہیں۔ اس کی روشنی میں نئے مالیاتی سال کے لئے ریاستی اخراجات کے نئے اہداف طے ہوتے ہیں۔ ان تک پہنچنے کے لئے کچھ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ ریاستی آمدنی اور اخراجات کے مابین "خسارے" کی جو صورت ابھری ہے اسے ملکی اور غیر ملکی بینکوں اور اداروں سے کتنا قرضے لے کر پورا کیا جائے گا۔
جون کے آخری دو ہفتے لہٰذابجٹ تجاویز کا باریک بینی سے جائزہ لینے کو وقف ہوجاتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف ان تجاویز پر "عام بحث" کا مفصل تقریر سے آغاز کرتے ہیں۔ بنیادی مقصد اس تقریر کا مجھ اور آپ جیسے عام شہری کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ حکومتی اعدادوشمار قابل اعتبار نہیں۔ نئے مالی سال کے دوران ہماری "ترقی اور خوش حالی" کے نام پر جو خواب دکھائے گئے ہیں انہیں حقیقت میں ڈھالنا حکومت وقت کے لئے ممکن ہی نہیں۔
بجٹ تجاویز پر عام بحث کے اختتام کے بعد اپوزیشن جماعتیں کٹوتی کی تحاریک کے ذریعے اہم ترین وزارتوں کی کارکردگی بھی عیاں کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آپ جس دن یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے اس روز وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین کی قومی اسمبلی میں پڑھی تقریر کو ایک ہفتہ گزرچکا ہوگا۔ مبینہ طورپر اس ہفتے کے پہلے دن بجٹ تجاویز پر قومی اسمبلی میں عام بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ وہاں موجود قائد حزب اختلاف مگر اپنی افتتاحی تقریر ہی اب تک مکمل نہیں کر پائے ہیں۔
پیر سے بدھ تک جو دن گزرے ان کے دوران حکمران جماعت شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، مراد سعید اور امین اللہ گنڈا پور جیسے اہم اور تگڑے وزراء کی قیادت میں شہباز شریف کے خطاب کو "چور چور" کے بلند آہنگ نعروں سے روکنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ حکومتی بنچوں سے کئی جوشیلے اراکین نے اپوزیشن بنچوں کو "دشمن کی صفیں "تصور کرتے ہوئے ان میں "گھسنے" کی بارہا کوشش بھی کی۔ قومی اسمبلی کے فلور پر ابلتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سپیکر اسد قیصر نے کئی بار طویل وقفوں کا اعلان کیا۔ بات مگر بنی نہیں۔ منگل کی شام بلکہ حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان "گھسن مکی"شروع ہوگئی۔
بدھ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس دوپہر دو بجے بلایا گیاتھا۔ اس کے آغاز سے قبل سپیکر کے دفتر سے اعلان ہوا کہ سات اراکین قومی اسمبلی کے ایوان میں داخلے پر تاحکم ثانی پابندی لگادی گئی ہے۔ جن اراکین اسمبلی کے خلاف تادیبی کارروائی کا اعلان ہوا ان میں سے تین حکومتی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلم لیگ (نون) سے بھی تین ہی اراکین کو ہنگامہ آرائی کا "مرکزی ملزم" گردانا گیا۔ غالبََا "حساب" پورا کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے آغارفیع اللہ کو بھی "تخریب کاروں "کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔
ایوان میں موجود تمام جماعتوں میں سے محض سات افراد کو ہنگامہ آرائی کے حتمی کردار قرار دیتے ہوئے سپیکر اسد قیصر نے اپنے تئیں "انصاف پسند" اور "غیر جانب دار" نظر آنے کی کوشش کی۔ فقط سات افراد کی نشاند ہی کرتے ہوئے اسد قیصر ان وڈیوز سے قطعاََ غافل نظر آئے جو سو شل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں۔ مراد سعید ان میں اپنی کرسی پر کھڑے ہوکر بجٹ کی بھاری بھر کم دستاویزات کو اپوزیشن کی صفوں کی جانب میزائلوں کی صورت اچھالتے نظر آرہے ہیں۔
امین علی گنڈا پور بھی مخالفین کے ساتھ پنجہ آزمائی کو بے تاب نظر آئے۔ اسد قیصر نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی سے گریز کیا اور یوں اپنی "غیر جانب داری" اور "خودمختاری" بے نقاب کردی۔
سپیکر کی "غیر جانب داری" عیاں ہونے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں تلملا اٹھیں۔ انہوں نے ایوان میں جانے سے انکار کردیا۔ اسد قیصر اپنے دفتر میں بیٹھے شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلی فون پر گفتگو کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے دفتر سے ٹی وی چینلوں کے لئے مسلسل "ٹِکر" جا ری ہوئے۔ گھروں میں بیٹھے پاکستانیوں کو ان کے ذریعے پیغام یہ دینے کی بھی کوشش ہوئی کہ اسد قیصر کے ٹیلی فونی رابطے بارآور ثابت ہورہے ہیں۔
ڈھائی گھنٹے گزرجانے کے بعد اسد قیصر ساڑھے چار بجے کے قریب اچانک اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ تلاوت کلام پاک، حمد ونعت اور پاکستان کے قومی ترانہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس "باقاعدہ" شروع ہوا نظر آیا۔ قومی ترانہ ختم ہوتے ہی سپیکر نے تاہم اجلاس کو یہ اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر معطل کردیا کہ ایوان میں بحث کو بامقصد وباوقار رکھنے کی خاطر وہ ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو اس میں مساوی نمائندگی فراہم کی جائے گی۔ اپنے دفتر میں بیٹھ کر وہ مجوزہ کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی کا انتظار کریں گے۔
اپوزیشن جماعتوں نے مجوزہ کمیٹی کے لئے نمائندے نامزد کرنے کے بجائے اس امر پر سنجیدگی سے غور شروع کردیا کہ سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے۔ اسد قیصر غالباََ اس دھمکی کی افواہ سن کر طیش میں آگئے۔ ساڑھے پانچ بجے کے قریب دوبارہ ایوان میں تشریف لاکر صدارتی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ شہباز شریف کو اپنی تقریر مکمل کرنے کے لئے مائیک ملا تو وہ سپیکر کے رویے کی بابت شکوہ کنائی میں مصروف ہوگئے۔ حکومتی اراکین نے دوبارہ ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ دریں اثناء اپوزیشن بنچوں سے حکومتی بنچوں کی طرف کرونا کے دنوں میں مقبول ہوئے سینٹائزر کی ایک بوتل اچھالی گئی۔ مبینہ طور پر وہ ایک حکومتی رکن اکرم چیمہ صاحب کی آنکھ پر لگی۔ اسد قیصر نے ایک بار پھر گھبرا کر اجلاس کو جمعرات بارہ بجے تک ملتوی کردیا۔
پارلیمان کی بلڈنگ تک پہنچنے سے قبل جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ آج بھی قومی اسمبلی میں سنجیدہ بحث کا امکان نہیں ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین ایک دوسرے کو شور شرابے اور مکے لہراتے ہوئے ڈراتے دھمکاتے رہیں گے۔ 1985سے پارلیمان میں ہوئے واقعات کا شاہد رپورٹر ہوں۔ اس برس سے آج تک قائم ہوئی تقریباََ ہر قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی ہے۔ بسااوقات یہ انتہائی ناخوشگوار اور ناقابل برداشت بھی نظر آئی۔ ایسا مگر کبھی نہیں ہوا کہ تین دن گزرجانے کے باوجو د قائد حزب اختلاف اپنی افتتاحی تقریر مکمل نہ کر پائے۔
بجٹ تجاویز پر ہوئی "عام بحث" عموماََ صبح دس بجے شروع ہوکر رات نو سے دس بجے تک جاری رہتی تھی۔ انہیں غور سے سننے کے بعد ہی مجھ جیسے رپورٹر اس قابل ہوتے تھے کہ پاکستان کے عام شہریوں کو بتاسکیں کہ ان کے ساتھ اعدادوشمار کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کامل تین دن گزرچکے ہیں۔"ہمارے نمائندوں "کی بدولت لیکن ابھی تک علم معاشیات کی "الف۔ ب" سے بھی ناواقف مجھ جیسا رپورٹر آپ کو بتانے کے ہرگز قابل نہیں کہ شوکت فیاض ترین صاحب نے گزرے جمعہ کے روز جو اعدادوشمار بتائے وہ کتنے حقیقی ہیں۔ ہماری معیشت واقعتا کسادبازاری کے بوجھ سے آزاد ہوکر ترقی کے سفر پر تیزی سے چلنا شروع ہوگئی ہے یا نہیں۔
مجھ سمیت ہر صحافی اب یہ طے کرنے میں مصروف ہے کہ "زیادتی" اور "بدتمیزی" کے اصل ذمہ دار حکومتی اراکین ہیں یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے معزز اراکین اسمبلی۔ مجھے اور آپ کو ملکی معیشت کے حقائق سے آگاہ کرنے والی "عام بحث" عنقا ہوئی نظر آرہی ہے۔