کسی بھی حکومت کا وزیر خزانہ جب نئے مالیاتی سال کا بجٹ پیش کردے تو قومی اسمبلی میں اس کے بارے میں "عام بحث" ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی مطلوبہ بحث گزشتہ ماہ کے آخری بارہ دنوں کے دوران رات گئے تک جاری رہی۔ بجٹ تجاویز پر جب تقاریر ہورہی ہوں تو وزیر خزانہ سے یہ بھی توقع ہوتی ہے کہ وہ ایوان میں اپنی نشست پر ٹکے انہیں غور سے سنتے رہیں۔ اراکین کی جانب سے اٹھائے اہم نکات کو اپنی یادداشت کے لئے نوٹ کرلیں اور بحث کو سمیٹنے کے لئے ہوئی اختتامی تقریر میں ان کے ٹھوس جواب فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ شوکت فیاض ترین صاحب مذکورہ روایت کی پاسداری کرتے نظر نہیں آئے۔ وہ اس ایوان کے رکن نہیں ہیں۔ بحیثیت ٹیکنوکریٹ انہیں ابھی تک سینٹ کے لئے بھی منتخب نہیں کروایا گیا ہے۔
ترین صاحب کو "منتخب اراکین" کی "اوقات" کا بخوبی علم ہے۔ تخت یا تختہ والے انتخابی معرکے لڑنے کے بعد قومی اسمبلی کے رکن بنے اراکین کی کوئی وقعت ہوتی تو ایک کامیاب کاروباری ادارے کے کئی برسوں تک تگڑے افسر رہنے کے بعد تحریک انصاف میں آئے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے فارغ کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ وہ اس وزارت سے واٹس ایپ پیغام کے ذریعے نکالے گئے تو ان کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تعینات ہوئے۔
موصوف کسی بھی منتخب ایوان کے رکن نہیں تھے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی IMFنے مگر ان پر اعتماد کیا۔ ان کی بدولت پاکستان کو اپنی معیشت بچانے کے لئے 6ار ب امریکی ڈالر قسطوں میں فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا۔ وہ گزشتہ مارچ میں سینٹ کے رکن منتخب نہ ہوپائے تو اسد عمر ہی کی طرح فارغ کردئیے گئے۔ ہم سادہ لوح پاکستانیوں کی اکثریت کو گمان ہوا کہ ان کی جگہ اب لاہورسے منتخب ہوئے جواں سال رکن قومی اسمبلی حماد اظہر صاحب پاکستان کے نئے وزیر خزانہ ہوں گے۔ ان کی نامزدگی تو ہوگئی مگر وزارت سنبھالنے کے چند ہی روز بعد کسی ناکام بیٹس مین کی طرح اپنی وکٹ چند ہی گیندوں کے بعد گنوانے کی وجہ سے میدان سے چلے گئے۔ ان کی چھوڑی ہوئی وزارت شوکت ترین صاحب کو سنبھالنا پڑی۔ عمران حکومت کا تیسرا بجٹ بھی انہوں نے ہی تیار کیا۔ ایک حوالے سے بینکار ہوتے ہوئے ترین صاحب بھی سیاست دان نہیں بلکہ ٹینکوکریٹ ہیں۔ ان سے پارلیمانی روایات کے احترام کی توقع رکھنا شاید زیادتی ہے۔
بہرحال جن دنوں بجٹ تجاویز پر عام بحث جاری تھی تو ایک شام شوکت فیاض ترین صاحب خراماں خراماں چلتے ہوئے قومی اسمبلی میں تشریف لائے۔ انہوں نے جس سمے اپنی نشست سنبھالی اس وقت مسلم لیگ نون کے برجیس طاہر اپوزیشن کی جانب سے تقریر فرمارہے تھے۔ ان کی تقریر محض رسمی تھی۔ ترین صاحب کے پیش کردہ بجٹ کی خامیاں مہارت سے نمایاں نہیں کرپائی۔ عمران حکومت کو محض آئی ایم ایف کی جی حضوری کا مرتکب ٹھہراتی رہی۔ ترین صاحب ایسی تقریر بھی لیکن برداشت نہیں کر پائے۔ جیسے ہی برجیس طاہر نے اسے ختم کیا تو سپیکر سے مائیک طلب کرلیا۔ اسد قیصر حکومتی بنچوں کو نظرانداز کرنے کا رسک نہیں لیتے۔ وزیر خزانہ کو یاد دلانے کی جرأت بھی نہیں دکھائی کہ پارلیمانی روایات کے مطابق انہیں اپوزیشن بنچوں کی جانب سے اٹھائے نکات کا جواب دینے کے لئے اپنی اختتامی تقریر کا انتظار کرنا چاہیے۔
شوکت فیاض ترین صاحب کو جب مائیک ملا تو انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کچھ ایسے انداز میں کیا جو تاثر دے رہا تھا کہ وہ کسی عدالت کے روبرو اپنا حلفی بیان پڑھ رہے ہیں۔"میں شوکت ترین ولد?" ان کے ابتدائی الفاظ تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ایوان کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا کہ وہ کرنل جمشید ترین کے فرزند ہیں۔ ان کے والد گرامی برطانوی سامراج کو للکارتے رہے ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن بھی تھے اور جمشید ترین کے فرزند ہوتے ہوئے شوکت ترین جھوٹ نہیں بولتے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو میں "دی نیشن" کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھتا ہوں۔ اس روز یہ کالم لکھتے ہوئے ترین صاحب کو بہت احترام سے یاد دلانے کی کوشش کی کہ ان کے والد گرامی کی ذات اور کردار ہرگز زیر بحث نہیں تھے۔ شوکت فیاض ترین ان دنوں پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں۔ ان کے پیش کردہ بجٹ پر سوالات اٹھانا اپوزیشن کا بنیادی فرض ہے۔ انہیں اس حوالے سے طیش میں آنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔
شوکت فیاض ترین بنیادی طورپر اس لئے مشتعل ہوئے کیونکہ اپوزیشن بنچوں کی جانب سے مسلسل الزام لگایا جارہا تھا کہ ان کا پیش کردہ بجٹ درحقیقت IMFنے تیار کیا ہے۔ یہ عالمی ادارہ عمران حکومت کو بجلی کے نرخ بڑھانے کو مجبور کررہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تقاضے بھی ہیں جن پر عمل ہوا تو وطن عزیز میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے ترین صاحب مگر سینہ پھلاکر اصرار کرتے رہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کی بیشتر تجاویز کو یکسرنظرانداز کردیا ہے۔ وزیر اعظم نے انہیں سختی سے حکم دیا تھا کہ غریب آدمی کی مشکلات میں اضافے کے بجائے ان میں نمایاں کمی لانے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے بجٹ تیار کرتے ہوئے مذکورہ احکامات پر شدت سے عمل کیا اور جمشید ترین صاحب کے فرزند ہوتے ہوئے وہ جھوٹ بولنے کے ہرگز عادی نہیں۔ عام بحث سمیٹتے ہوئے اپنی اختتامی تقریر میں ترین صاحب نے مذکورہ دعویٰ کا اعادہ کیا۔ کٹوتی کی تحاریک کی مخالفت کرتے ہوئے بھی وہ مصررہے کہ آئی ایم ایف کی خواہش کے مطابق بجلی کے نرخ ہرگز نہیں بڑھائے جائیں گے۔
بجٹ منظور ہوگیا تو وزیراعظم صاحب نے اس کامیابی سے مغلوب ہوکر قومی اسمبلی میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ لمبی تقریر کی۔ اگست 2018کے بعد پہلی بار انہیں اپوزیشن بنچوں نے کامل خاموشی سے سنا۔ مذکورہ تقریر بھی ترین صاحب کے اس دعویٰ کو دہراتی رہی کہ آئی ایم ایف کی ان خواہشات پر ہرگز عمل نہیں ہوگا جو واضح طورپر غریب آدمی کی زندگی مشکل بنادیں گی۔ عمران خان صاحب کا "انکار" مگر آئی ایم ایف کی خواہشات تک ہی محدود سنائی نہیں دیا۔ امریکہ کو بھی افغانستان کے حوالے سے کھری کھری سنادی گئیں۔ قوم کا ایمان اس تقریر سے تازہ ہوگیا۔ اقبالؔ کا شاہین پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کو پرواز کرتا نظر آیا۔
بجٹ پاس ہوجانے کے چند ہی گھٹے گزرنے کے بعد مگر پیٹرول اور ڈیز ل کی قیمتوں میں گرانقدار اضافے کا اعلان ہوگیا اور اب گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں بجلی کے "نئے نرخ" بھی طے کردئیے گئے ہیں۔ ناک کو سیدھا پکڑیں یا ہاتھ گھماکر۔ تلخ حقیقت مگریہ ہے کہ میرے اور آپ جیسے محدود یا کم آمدنی والے آئندہ ماہ اپنے گھروں میں آئے بجلی کے بل دیکھیں گے تو سرپکڑکر رہ جائیں گے۔ شوکت فیاض ترین کے طیش سے بچنے کے لئے میں فقط یہ کہنے پر ہی اِکتفا کروں گاکہ:"تو کمزور تھا تو لڑی کیوں تھا؟ "