افسوس اس بات کا بھی ہے کہ پاکستان کے حالات کیا سے کیا بنا دئیے گئے ہیں۔ پر روح اس نکتہ پر لرزتی ہے کہ ملک میں اصل صورتحال کو بتایا نہیں بلکہ چھپایا جا رہا ہے۔ لوٹ مار اور غیر قانونیت پر اب کیا گلہ کیا جائے۔ بلکہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ مگر ملک کے ہر لحاظ سے تشویشناک خرابے کو وطن پرست نعروں اور جذباتیت سے گلستان ظاہر کرنا ناقابل قبول بات ہے۔
دس برس سے سی پیک سنتے سنتے کان پک گئے۔ پاکستان میں چینی سرمایہ سے چلنے والے افراد، این جی اوز، اور حکومتی ارکان نے سر آسمان پر اٹھا لیا تھا کہ جناب، چین، سی پیک کے ذریعے ملک کی تقدیر دوبارہ لکھ دے گا۔ ایسی ترقی برپا ہوگی کہ دنیا کے دیگر ممالک، اپنی انگلیاں حیرت سے چبا کھائیں گے کہ واہ یہ کارنامہ کس طرح برپا ہوگیا۔
پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں کیونکر بہنا شروع ہوگئیں؟ ہماری ترقی کی مثالیں دی جائینگی۔ دنیا کے اکثر ممالک ہمیں رشک کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ مگر غیر جانبدار انہ طرز پر پرکھا جائے تو سی پیک ابھی تک عام آدمی تک کسی قسم کی آسانی نہیں پہنچا سکا۔ بلکہ جوہری تبدیلی یہ ہوئی کہ سولہ سترہ ماہ کی ابتر حکومتی کارکردگی نے عوام کو مہنگائی اور بے روز گاری کی قبر میں دفن کر دیا۔
سی پیک اس قبرستان سے ہمیں نکال سکتا ہے یا نہیں، اس کا جواب صرف کوئی ماہر نجوم ہی دے سکتا ہے۔ آٹھ برس پہلے، متعدد ٹی وی پروگراموں میں طالب علم نے عرض کی تھی کہ جب تک سی پیک کے خدوخال اور جزئیات سامنے نہیں آتے اس پر کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔
اگر یہ سب کچھ قرضہ لے کر کیا جا رہا ہے۔ تودرپردہ اس وقت کی حکومت کے عمائدین، اس خوفناک سطح کی کمیشن بنائیں گے جس سے ان کی آنے والی درجنوں نسلیں سنور جائینگی مگر ملکی مفادات پر کاری ضرب پڑے گی۔ میری باتیں پوری ہوئیں۔ جن جن چینی کمپنیوں کے ساتھ، ہمارے حکومتی بزرجمہروں نے کام کیا۔
ان سے دوبئی اور دیگر ممالک میں اربوں ڈالر وصول کیے گئے۔ اور پھر ملک میں چند نمائشی پراجیکٹ لگائے گئے۔ اس کے بعد حکومتی خوشامدی شادیانے بجانے لگے کہ جناب دیکھا حکومت نے کمال در کمال کر دیا۔
ابتدا ہی سے معاملات اس قدر بگڑ گئے کہ چینی کمپنیوں نے اخباری بیان دیا کہ منصوبے کی منظوری سے پہلے ہی ان سے دبئی میں رشوت وصول کر لی جاتی ہے۔ یہ رشوت کا پیسہ کس کے بے نامی اکاؤنٹ میں جاتا تھا، ہر خاص و عام کے علم میں ہے۔
ان بیانات کی باز گشت آج بھی موجود ہے۔ سی پیک میں حد درجہ فن کاری کرکے دو چار ایسے منصوبے بھی شامل کروائے گئے جو نظروں کی حد تک کمال نظر آتے تھے۔ مگرکمال ظلم یہ کیا گیا ملکی صنعت کو جو مراعات اور قبولیت دینی تھی اس سے مکمل اجتناب کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کو مکمل طور پر سیاسی بنا دیا گیا۔
کبھی یہ کہاگیاکہ ہمارے بعدآنیوالی حکومت نے سی پیک کوبند کر ڈالا، کبھی سی پیک کو رول بیک کرنے کے الزامات لگائے جانے لگے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ابتداء ہی میں سی پیک کے منصوبوں سے کاری گروں نے ملائی اتار لی۔ اورتلچھٹ لوگوں کے گلے میں ڈال دی۔
گوادر، گودار کا ورد اتنا کیا گیا کہ دنیا پریشان ہوگئی کہ یہ تو نیا دوبئی بننے جا رہا ہے۔ مگر صاحبان زیست!سب کچھ فریب کی نذر ہوگیا۔ نہ عوام کا مقدر بدلا اور نہ ہی ملکی دولت میں اضافہ ہوا۔
مگر ہمارے سیاسی رہنماؤں نے ایک ایسا قدم اٹھایا کہ جس کی بدولت آج ملک اکھڑی سانسیں لیتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دنیا کے 66ممالک میں چین نے one belt and one road کے تحت انفراسٹرکچر کا بے مثال کام شروع کیا۔ اس میں CPEC بھی شامل تھا۔
مگر ہمارے ناعاقبت اندیش سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے سی پیک کی ڈفلی اتنی بجائی کہ پوری دنیا متوجہ ہوگئی۔ منگولیا سے لے کر تاجکستان، عمان سے لے کر عراق، کسی ملک نے، اس پراجیکٹ پر اس طرح سیاست نہیں کی، جس طرح ہمارے ملک میں کی گئی۔
نتیجہ یہ کہ چین کے دشمن ممالک، ہمارے بھی بدترین دشمن بن گئے۔ ہمارے ادارے چین اور امریکہ کے کیمپوں میں تقسیم ہو گئے اور بالواسطہ یا بلا واسطہ، چین اور امریکہ کے مخالف سانچوں میں ڈھل گئے۔
امریکہ تو خیر ہم سے اس طرح اکھڑا کہ اس نے ہمیں نشان عبرت بنانے کی ٹھان لی اور کامیاب بھی ہوگیا۔ آج ہم معاشی طور پے جو ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اس میں امریکی نافرمانی کی سزا صاف نظر آ رہی ہے۔ قطعاً سی پیک کا مخالف نہیں۔ لیکن اس پر غلط سیاست کرنے والوں کے خلاف ہوں۔ ایک مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
برطانیہ جب بین الاقوامی طاقت تھی تو اس نے دو سمندروں کو ملانے کے لیے ایک سو بیس میل کی سوئز کینال بنانے کامنصوبہ بنایا۔ یہ 1869ء میں بن بھی گئی۔
اس نہر میں تجارتی جہاز آنے جانے بھی لگ گئے۔ دل تھام کر سنیے، سوئز کینال کے متعلق یہ مثبت پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ اس عظیم الشان منصوبے سے مصر کے عوام کی قسمت بدل جائے گی۔ خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔ مگر ڈیڑھ صدی کے بعد بھی مصر کے عام لوگوں کی حالت بدتر سے بدترین ہوگئی۔
انہیں اس راہداری کا کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا پایا۔ غور فرمائیے۔ مصر کے مقتدر طبقے نے سوئز کینال سے جائز اور ناجائز بھرپور مالی فائدہ اٹھایا۔ کھل کر لوٹ مار کی گئی اور ان کے ذاتی خزانوں میں محیر العقول اضافہ ہوا۔ نئے ارب پتی خاندان پیدا ہو گئے۔ مگر غریب آدمی غریب ہی رہا۔ سوئز کینال کے حق میں پروپیگنڈے کا جو زاویہ استعمال ہوا۔
سی پیک کے لیے بھی بعینہ وہی تعریفی نعرے استعمال ہوئے۔ مگر گزشتہ دس برس میں نہ سی پیک سے پاکستان ترقی کر سکا اور نہ ہی ڈیڑھ سو سال میں مصر کے عام لوگوں کی بگڑی ہوئی تقدیر سنور سکی۔ ان دونوں منصوبوں میں ایک فرق ضرور ہے۔ جس طرح پاکستان نے چین کے دشمن ممالک کو اپنے گلے میں ڈال لیا۔
مصر میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مصر کے کرپٹ حکمران، ہمارے حکمرانوں سے بہر حال بہتر نکلے۔ انہوں نے برطانیہ کے دشمنوں کو اپنا دشمن نہیں بنایا۔ یہ نشان امتیاز صرف پاکستانی نا عاقبت اندیشوں کے پاس آیاکہ انہوں نے نہ ملک کی ترقی ہونے دی نہ اپنا روٹی پانی کا بندوبست ختم کیا اور نہ ہی ملکوں سے اپنے تعلقات کی بہتری کی طرف کوئی قدم اٹھایا۔
سی پیک سے صرف نظر کرکے تھوڑے دن پہلے ہندوستان میں G-20 کے اجلاس پر نظر ڈالیے۔ کون سا ایسااہم ملک تھا، جودہلی میں موجود نہیں تھا۔ امریکہ سے لے کربرطانیہ تک، اور سعودی عرب سے لے کر ورلڈ بینک کے صدر تک معاشی طور پر ترقی کرنیوالے ممالک وہاں بھرپور طریقے سے موجود تھے۔ ورلڈ بینک کی خاتون سربراہ جن سے ہماراکوئی بھی وزیراعظم حد درجہ مشکل سے ہی مل سکتا ہے۔ وہ خاتون وہاں محو رقص نظر آئیں۔
برطانیہ کے وزیراعظم، اجلاس کے بعد ایک شاندار مندر میں سجدہ ریز دکھائی دیے۔ امریکہ، سعودی عرب اور ہندوستان نے دنیا کے سب سے بڑے انفراسٹرکچر کا آغاز کیا۔ یہ سب کچھ کسی بھی ملک کی اقتصادی بحالی اور ترقی کا سرخیل ثابت ہو سکتا ہے اور ہوگا۔ کیا یہ ہمارے لیے شرم کامقام نہیں کہ ہم اس بہترین منصوبے سے مکمل طور پر باہر ہیں۔
G-20 کے منصوبہ جات کے بعد توایسے لگتا ہے کہ دنیا کی اقتصادی طاقتوں کے ذہن میں پاکستان کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ درحقیقت، پاکستان پوری دنیا کے لیے غیر متعلقہ ہو چکا ہے۔
جس ملک کا وزیراعظم، بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے صرف تین بلین ڈالر کے قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرے اس ملک کامقدر جانچنے کے لیے کسی اور آئینے کی ضرورت نہیں۔ یہ کیسی خوشی ہے کہ دیوالیہ ہونے کے خدشات کے باوجود پی ڈی ایم کے قومی اسمبلی کے ممبران اور امیداواروں کو ایک ایک ارب روپیہ، ترقیاتی منصوبہ جات کی مد میں دان کر دیا گیا۔ کیا واقعی ورلڈ بینک کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے دیے ہوئے پیسے، پی ڈی ایم کی حکومت نے کس سفاکی سے خرچ کر ڈالے ہیں۔
مگر صاحبان! ہم اپنی بدقسمتی اور تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔ ملک کو معاشی طور پر برباد کرنے کے بعد، منصوبہ کا دوسرا حصہ شروع ہونے والا ہے۔ جس میں ملک کی سالمیت پر ضرب لگائی جائے گی۔ مزید تقسیم کے سانحہ جات وقوع پذیر ہونے کے قرائن بہرحال موجود ہیں۔
شدید دکھ یہ ہے کہ پاکستان جیسے عظیم ملک کو ہمارے قائدین نے دنیا میں اچھوت بنا کر رکھ ڈالا، اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا!