خان شیر ہماری کمپنی میں چوکیدار کا کام کرتا ہے۔ سیدھا سادہ سا نوجوان جو دلجمعی سے اپنا کام کرتا ہے۔ معمولی سی نوکری، پر بڑی ہمت سے خان شیر اسے نبھاتا ہے۔ تنخواہ وہی جو عام سے بندے کو ملتی ہے۔ تیس سے پنتیس ہزار ماہانہ۔
دو ہفتے پہلے بتانے لگا کہ بڑا سخت بخار ہوگیا ہے۔ جسم ٹوٹتا ہے اور بے ہوشی طاری ہو جاتی تھی۔ خیر ڈاکٹر کو دکھایا۔ معلوم ہوا کہ ڈینگی ہو چکا ہے۔ نسخہ کے مطابق دوائیوں کے پیسے دیے اور تاکید کی کہ دوائی ضرور کھانی ہے۔
دو چار دن پہلے، اسے دیکھا تو حد درجہ لاغر نظر آ رہا تھا۔ جھک کر چل رہا تھا۔ حیران رہ گیا کہ خان شیر کو کیا ہوا۔ ڈاکٹر نے اطمینان سے دیکھ لیا تھا۔ دوائیاں بھی لکھ دیں۔ پیسے بھی مل گئے۔ پھر صحت یاب کیوں نہیں ہو پایا۔ بتانے لگا کہ طبیعت مزید بگڑ گئی ہے۔
حد درجہ تعجب ہوا۔ ڈاکٹر سے فون پر بات کی۔ تو اس نے کہا کہ ڈینگی ہی ہے اور تمام دوائیاں نسخے میں لکھ دی ہیں۔ ہو نہیں سکتا کہ طبیعت مزید بگڑ جائے۔ خیر چوکیدار کو تردد کرکے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس بھجوایا۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر نے فون کیا۔ کہنے لگے کہ صرف ایک مسئلہ ہے کہ خان شیر نے دوائی ہی نہیں کھائی تو ٹھیک کیسے ہو سکتا ہے۔ حد درجہ غصہ اور افسوس ہوا کہ یہ کتنی خطرناک غفلت کی گئی ہے۔
بلا کر پوچھا کہ آپ کے پاس پیسے بھی تھے۔ پھر دوائی کیوں نہیں کھائی۔ خان شیر نے رونا شروع کردیا۔ دلخراش طریقے سے بتانے لگا کہ اس کے آبائی گھر میں بوڑھے والدین رہتے ہیں۔ چھوٹا سا گھر ہے۔ دو چار بلب اور ایک پنکھا ہے۔ بجلی کا بل ساڑھے آٹھ ہزار آیا تھا۔ والدین کے پاس تو خیر پیسے تھے ہی نہیں۔ لہٰذا بروقت بل ادا نہ کر پائے۔ گھر کی بجلی کٹ گئی۔ میرے پاس دس بارہ ہزار روپے جمع ہو گئے تھے۔
فوراً گھر بھجوائے تاکہ میٹر دوبارہ لگ سکے اور والدین کو تھوڑی سی سہولت ہو جائے۔ بجلی کا ایک ماہ کا بل تو ادا ہوگیا۔ اور میٹر بھی دوبارہ لگ گیا۔ مگر میں دوائی نہ لے سکا۔ جواب کے بعد میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ ویسے ہمارے بدقسمت معاشرے میں کسی بات پر بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ انسانوں کا نہیں بلکہ Subhumansکا معاشرہ ہے۔ یعنی دکھنے میں تو انسان نظر آتے ہیں مگر ریاستی اور حکومتی جبر نے انھیں انسان سے نچلی سطح پر منتقل کر دیا ہے۔
بات چوکیدار کی ہو رہی تھی۔ اس نے چھٹی لی اور واپس اپنے آبائی گھر جو کہ سرگودھا کے نزدیک ہے۔ وہاں چلا گیا۔ جاتے وقت تھوڑے سے پیسے بھی دیے تھے۔ گاؤں جا کر کسی سے دم درود کرواتا رہا۔ حکیم سے بھی دیسی علاج کروایا۔ مگر کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا کہ اگلے ماہ کا بجلی کا بل بھی اتارنا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر اور دوائیوں کا خرچہ بچایا جائے۔ تین دن پہلے، وہ بائیس سال کا نوجوان دم توڑ گیا۔
عین جوانی کی موت جو ہر ایک کو غم ناک کر ڈالتی ہے۔ یہاں ایک حد درجہ سنجیدہ سوال ہے۔ کیا انسانی جان کی قیمت ہمارے ملک میں اس قدر ادنیٰ ہے کہ اسے ایک بجلی کے بل کے عوض برباد کر دیا جائے۔ کیا واقعی ہم لوگ کسی آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔ کیا وزیراعظم اور وزرا اعلیٰ بلکہ مقتدر طبقہ ہمارے ملک کے عام آدمی کے مسائل کو واقعی جانتا ہے۔ اور اگر جانتا ہے تو اسے حل کرنے کی استطاعت رکھتا ہے؟ صرف بجلی کی پیداوار کو دیکھیے تو ہم 44 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس میں پانی، تیل، ہوا، سولر اور دیگر تمام ذرایع شامل ہیں۔ مگر ذرا تھم جائیے۔
اس تمام بجلی پیداوار میں انیس ہزار میگاواٹ نجی بجلی گھر پیدا کر رہے ہیں۔ جنھیں I.P.P کہا جاتا ہے۔ یعنی Independent Power Producersکا خوفناک نام دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کی ترسیل کتنی ہو سکتی ہے۔ جناب صرف بائیس ہزار میگاواٹ۔ یعنی ہم جو بجلی پیدا کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ اس کا صرف نصف عام لوگوں تک پہنچانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ کیا ہمیں پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ جناب آپ 44 ہزار میگاواٹ بجلی کیوں پیدا کرنے کی قوت حاصل کر رہے ہیں۔ جب کہ یہ بجلی آپ صارفین تک پہنچا بھی نہیں سکتے۔ نجی شعبے کے بجلی گھر اگر بجلی پیدا نہ بھی کریں۔ تو حکومت انھیں خطیر رقم دینے کی پابند ہے۔
جیسے معصومانہ سا نام دیا گیا ہے۔ Capacity Charges یعنی بجلی گھر صفر یونٹ بھی پیدا نہ کرے تو اسے اربوں روپیہ حکومت دیتی رہے گی اور قانون کے مطابق یہ بالکل درست ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہوا کہ ڈاکا کیسے مارا جا رہا ہے۔ I.P.Pکو کھربوں روپیہ دیا جاتا ہے۔ جب کہ وہ بجلی پیدا کر ہی نہیں رہے۔ یہ باقاعدہ ہر حکومت تواتر سے دے رہی ہے۔ اور اس میں بے تحاشا کمیشن ہے۔ پیسے بھی باہر کے ملکوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ نجی شعبے کے مالکان بڑی تسلی سے یہ کام کروا لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ کا نجی بجلی گھر ہے اور حکومت نے آپ کو پچاس ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ تو اس میں سے آٹھ دس ارب روپے رشوت کے طور پر دینے کے بعد، بجلی گھر کے مالک کو چالیس ارب، بالکل مفت مل جاتے ہیں۔ ہے نا کمال کا کام۔ اور ہاں۔ وزیراعظم یا بجلی کا وزیر بڑے آرام سے کہہ سکتا ہے کہ جناب ہم نے تو دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ اور یہ دلیل بھی درست ہے۔ اصل نقصان تو عام آدمی کو پہنچ رہا ہے۔ جس کی شریانوں سے خون نکال کر مقتدر طبقے کے چہرے کی سرخ لالی کو مزید بڑھائی جا رہی ہے۔
عرض کرتا چلوں کہ I.P.P's کی حددرجہ متنازعہ پالیسی، پیپلزپارٹی کی 1988ء کی حکومت میں ترتیب دی گئی تھی۔ اس کے بعد کسی سیاسی اور غیر سیاسی حکومت نے اس خونی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا۔ کیونکہ اس میں اتنا پیسہ ہے جو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ I.P.P's سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے جس سے سب استفادہ کرتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
آپ کے لیے شاید بالکل خبر نہ ہو۔ کیونکہ یہ سب کچھ اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حد درجہ شفاف حکومت نے اپنے ایک دور میں، اقتدار سنبھالنے کے بعدسے، سب سے پہلے I.P.P کے بقایاجات کی ادائیگی کی۔ جب آڈیٹر جنرل نے اس ڈاکا زنی پر معمولی سا اعتراض کیا تو قانون ہی بدل دیا گیا۔ اور آئی پی پی کو ملک کا خطیر سرمایہ ڈالروں میں ادا کر دیا گیا۔ بعد میں اس آڈیٹر جنرل کو اس کی ہمت کی خوب سزا دی گئی۔ اور وہ پابند سلاسل کیاگیا۔ یہ سب کچھ قانون کے عین مطابق ہے۔ یعنی چوری کا قانونی ذریعہ موجود ہے۔
نجلی بجلی گھروں کے حکومت کے ساتھ تمام معاہدہ جات کبھی بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیے گئے۔ ان میں سے اکثر تو "سرکاری طور پر خفیہ" ہیں۔ یہ سب معاہدات خفیہ کیوں رکھے گئے ہیں۔ اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا۔ کہ قوم کی کھال کھینچ لی گئی ہے۔
چند لوگوں نے اپنے ذاتی خزانہ لبالب بھر لیے ہیں۔ مگر آپ کو پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ جناب یہ سب کچھ کس قانون کے تحت ہو رہا ہے۔ مقتدر طبقہ کے لوٹنے کا یہ صرف ایک تیز ہدف طریقہ ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اس طرح کی ڈاکا زنی کا کوئی مداوا ہی نہیں ہے۔ داد فریاد کس سے کریں۔ کون آپ کی درخواست سنے گا۔
بھائی! اس لوٹ مار میں تمام بڑے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ ان پر جو بھی اعتراض کرے۔ یہ اس کا قبر تک پیچھا کرتے ہیں۔ اسے معتوب قرار دیتے ہیں۔ اس کو جیل بھجوا دیتے ہیں۔ ذرا اندازہ فرمائیے۔ کہ ایک دن آزاد ہونے والے دو ممالک میں سے ایک ترقی کی شاندار شاہراہ پر دوڑ رہا ہے۔ اس نے خلا کومسخر کر لیا ہے۔ چاند پر پہنچ چکا ہے۔ پوری دنیا میں اس کی ترقی اور طاقت کا لوہا مانا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے بدنصیب ملک میں، ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی اس رذیل نظام کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی جرأت نہ کرے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی ایسی جرأت کر لے، تو وہ اور اس کا خاندان پوراکولہو میں پلوا دیا جاتا ہے۔ اب اس نوجوان چوکیدار کا کیا ذکر کروں، جو بجلی کا بل ادا کرتے کرتے جان کی بازی ہار گیا۔ معلوم نہیں، اس نے خدا سے کیا فریاد کی ہوگی۔