Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Do Nukaat

Do Nukaat

انگلستان کا بادشاہ، رچرڈ اول، تقریباً نوصدیاں قبل، یورپ کا طاقتور ترین حکمران تھا۔ اس کی فوج ناقابل شکست تصور کی جاتی تھی۔ دولت کے انبار اس کی ٹھوکروں میں تھے۔ رچرڈ ہر قیمت پر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس کے ارادوں کے سامنے اسلامی دنیا کا ایک محیر العقول حکمران چٹان کی طرح کھڑا ہوا تھا۔

نسل کے اعتبار سے کرد، اور مصر کابادشاہ صلاح الدین ایوبی۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایوبی جیسے بہادر اور باتدبیر حکمران بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ رچرڈ ایک رعب دار لشکر لے کر تیسری صلیبی جنگ کے لیے روانہ ہوا۔

یہ فوج افسانوی حد تک طاقتور شمار ہو رہی تھی۔ صلاح الدین کی فوج میں عام سپاہی اور رعایا بھی یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ رچرڈ کو ہرانا ناممکن ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ قبلہ اول اب، اہل اسلام کے ہاتھ سے نکلا ہی نکلا۔ ایوبی کو جب اس کیفیت کا علم ہوا۔ تو اس نے اپنے ذہن ترین جاسوسوں کو طلب کیا۔ حکم دیا کہ رچرڈ اول کی رعایا، حکومت ا ور لشکرکے معاملے میں زمینی حقائق معلوم کریں۔

کچھ دنوں کے بعد، جاسوس صلاح الدین کے پاس آئے۔ بتانے لگے کہ انھوں نے رچرڈ کی فوج، نظامِ حکومت اور عام آدمیوں کے متعلق معلومات لی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ برطانوی خواص عیش و عشرت میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کا عوام سے بس واجبی سا تعلق ہے۔

دوسرا انگلستان کا مذہبی طبقہ، حد درجہ معمولی نکات پر بحث و مباحثوں میں مصروف کار ہیں۔ جن سے عوام کو کوئی سروکار نہیں۔ یہ روداد سننے کے بعد، ایوبی نے اپنے عمائدین کو بلایا۔ کہنے لگا کہ جنگ میں رچرڈ کو ہم سو فیصد شکست دیں گے۔

صلاح الدین کی باتیں بہت زیادہ قابل توجہ تھیں کہنے لگا، جس قوم کا یہ حال ہو کہ خواص عیش و عشرت میں غرق ہوں اور اس کا مذہبی طبقہ لایعنی بحث مباحثہ میں مشغول ہو، خدا کے یہاں اس کا یہی انجام مقدر ہے۔ تم خدا کے بھروسہ پر آگے بڑھو۔ یقیناً تم ہی کامیاب ہو گے۔ بالکل ایسا ہی ہوا۔ بدترین اور ذلت آمیز شکست کے بعد، رچرڈ اول میں کبھی اتنا دم خم ہی نہیں رہا کہ دوبارہ بیت المقدس کی جانب بڑھ سکے۔ یوں رچرڈ اپنا ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم کھو بیٹھا۔

غور سے پرکھیں، صدیوں پہلے، کرد سپہ سالار نے بہترین حکمرانی، سماجی اور معاشی ترقی کے اصول بیان کر دیے تھے۔ خواص کا طرز زندگی اگر بگڑا ہوا ہو، ان کا عوام سے مثبت اور توانا تعلق نہ ہو۔ تو یہ طبقاتی فرق، ریاستوں کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح، اگر دینی علمائ، عام آدمی کی بھلائی سے بالاتر ہو کر فرقہ واریت اور فروعی مسائل کو اوڑھنا بچھونا بنا لیں، تو معاشرے فکری طور پر ختم ہو جاتے ہیں۔ برا مت منایے گا۔

جو دو کمزوریاں صلاح الدین ایوبی نے رچرڈ کے متعلق بتائیں تھیں۔ وہ پوری مسلمان دنیا اوربالخصوص ہمارے ملک میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

دلیل اور تدبر سے تجزیہ کیجیے۔ آپ ایک منٹ میں سچ تک پہنچ جائیں گے۔ پاکستان کی معاشی ذلت، سماجی بدحالی اور مذہبی تفریق کی بنیادی وجوہات پہچان لیں گے۔ تلخ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا پورا نظام طبقاتی تفریق کا شکار ہے۔

بالائی طبقے کا عوام سے صرف اور صرف جھو ٹ پر مبنی تعلق ہے۔ تین کاروبار دیکھ لیجیے۔ پاور، سیمنٹ اور اور شوگر سیکٹر۔ سوچیے ان سیکٹرز پرکس طبقے کی اجارہ داری ہے، وہی جو عوام پر مسلسل حکومت کر رہے ہیں۔ ملک غربت کا شکار ہے۔ مگر امیر، امیر تر ہورہے ہیں۔ مڈل کلاس کا کاروباری یا سیاست دان ان سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بالائی طبقہ کی طاقت کا اندازہ لگایے کہ پورا ملک کنگال، عام لوگ بھکاری کے درجے پر پہنچ چکے ہیں لیکن حکمران طبقے نے خود "ان داتا" بنا رکھا ہے، اس سے زیادہ کسی بھی نظام کا کھوکھلا پن مزید کیا ہوگا کہ دولت کا ارتکاز ایک ایسے نظام کی بنیاد بن جائے جس میں صرف امیر طبقے کے حقوق ہوں اور عام انسان، ان کی چوکھٹ پر فقیر بنا دیا جائے۔

پاکستان کے متعلق ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ پڑھ کر دیکھیے۔ بین الاقوامی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو دیا گیا قرضہ، اس کے بالائی طبقے کو سبسڈی کی طرز پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ وہ مدد جو عالمی مالیاتی ادارے، عام پاکستانیوں کے لیے کرنا چاہتے ہیں، دراصل وہ رعایا تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ عالمی قرض کی یہ رقوم بھی بالائی طبقہ ہڑپ کرلیتا ہے، اسی لیے بالائی طبقہ امیر سے امیر تر ہوگیا ہے اور عام آدمی کو جانور کی سطح پر لایا جا چکا ہے۔

ورلڈ بینک کی سربراہ نے یہاں تک کہا کہ پاکستان جب تک اپنے نظام میں انقلابی تبدلیاں نہیں لاتا، اس کو دیے جانے والے قرضے یا مدد، مکمل طور پر بے سود ہیں۔ مگر کمال کی بات اور بھی ہے کہ کافر ملک کے کافر ادارے، ہمیں کہہ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو درست کرو۔ مگر ہماری اشرافیہ کے کان پر جون تک نہیں رینگی۔

صورتحال کو تبدیل کر نا تو دور کی بات، ملک کے وزیراعظم یا سینٹرل بینک کے سربراہ نے ورلڈ بینک کی بیان کردہ حقیقت پر ردعمل کا اظہار تک نہیں کیا۔

خرابہ جیسا تھا، ویسا ہی رہا اور آج بھی بالکل اس طرح موجود ہے۔ حکمران اشرافیہ اور اس کے حاشیہ نشین بڑے بھاری فائدہ اٹھا رہے ہیں، کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ جو تھوڑا سا بھی ٹوکتا ہے، ملک دشمن، غدار یا دین بیزار قرار دے دیا جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے یا زندان میں پابند سلاسل کر دیا جاتاہے۔

جب تک ملک کے نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا، یہ نقائص پیہم برقرار رہیں گے اور بربادی کی دلدل، مزید گہری ہوتی جائے گی۔ کسی قسم کا کوئی الیکشن ملک میں بہتری نہیں لا سکتا، سب تجربے ناکام ہونے کے باوجود ہم تبدیل ہونے کے لیے تیار نہیں، اس میں رکاوٹ صرف اور صرف ہمارا بالائی طبقہ ہے۔

صلاح الدین ایوبی کے بیان کردہ دوسرے نکتے پر آئیے۔ مسیحی پادری آج سے ہزار برس پہلے جس بے نتیجہ مذہبی بحث میں مبتلا تھے، کیا آج وہ ہمارا حال نہیں ہے، پیر پرستی، توہم پرستی اور فرقہ واریت عروج پر ہے، انگریزی راج میں ایسی مذہبی تفریق کو بڑھاوا دیا گیا جس نے ہم سمیت پورے برصغیر کو برباد کرکے رکھ دیا۔

باہمی نفرت، استدلال سے دوری اور بنیاد پرستی کے ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا۔ جس سے چھٹکارا پانا کم از کم موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ پھر ریاست نے انتہاپسندی کو پروان چڑھانے کا بھرپور موقع دیا۔ معصوم بچوں کی ذہن سازی کس خوفناک طرز پر کی گئی اور پھر انھیں سابق سوویت یونین اور سوشلسٹ حکومتوں کے خلاف جہاد کے لیے کیسے چارہ بنایا گیا۔ یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہوا ہے۔

اب، جب مذہبی شدت پسند پاکستان کے خلاف لشکر کشی کر رہے ہیں۔ ریاستی اداروں اور عام لوگوں کو جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تو ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ذرا مذہبی جماعتوں کے سربراہان سے صرف یہ فرما دیجیے کہ آپ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی مذمت ہی کر دیں تو خاموشی اور اگر مگر کے سوا کوئی دوسرا جواب نہیں ملے گا۔ اب انتہا پسندی کی آگ ہمارے گھر کو جلا رہی ہے۔

لہٰذا اب امن کا بیانہ بنایا جا رہا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اصل فساد کی جڑ تک پہنچ کر شدت پسندی اور فرقہ واریت کو ختم یا کم کرنے کے لیے میدان عمل میں آنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ نہ کوئی ریاستی ادارہ، نہ کوئی مذہبی پیشوا اور نہ ہی کوئی حکومت۔ ٹی ٹی پی کا بیانیہ ریاست پاکستان کے خلاف، پاکستانی عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہے۔

وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بیگناہ لوگوں کے قتل عام، لوٹ مار اور قبضہ گیری جیسے بھیانک اور سفاکانہ جرائم کو مذہب کا نام لے کر جائز قرار دے رہے ہیں، انھیں آج بھی پاکستان کے چند دانشوروں، کاروباری لوگوں اور علماء کی خاموش تائید حاصل ہے، یہ لوگ مصلحتاً خاموش ہیں لیکن دل دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے لیے دھڑکتے ہیں۔ تو پھر خود جواب دیجیے کہ معاملہ کیسے حل ہوگا۔

صلاح الدین ایوبی نے رچرڈ اول کی بربادی کی جو وجوہات صدیوں پہلے بیان کی تھیں۔ آج تمام نقائص ہمارے ملک میں راج کر رہے ہیں۔ بالائی طبقہ اپنی عیش و عشرت اور آسودگی پر نازاں ہے۔ عوام، پہلے بھی برباد تھے، اور آج بھی تاراج ہیں۔

مذہبی علمائ، عوام کو تقسیم در تقسیم کر چکے ہیں، سرکاری مراعات یافتہ طبقہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ سوال ہے کہ ہماری تنزلی تو ہماری اپنی حرکتوں کی بدولت ہوئی ہے۔ جب یہ نوبت آ جائے، اور آپ سنجیدہ مثبت اقدام نہ کریں تو تاریخ کا فیصلہ ہے کہ اجتماعی بربادی سے بچنا ناممکن ہو جاتا ہے!