Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Einstein Sahi Sawal Poochta Tha

Einstein Sahi Sawal Poochta Tha

آئن اسٹائن کم سن ہی تھا، جب اس نے نمونے یا اشکال بنانے میں مہارت حاصل کر لی۔ اس کی بنائی ہوئی چیزیں کی وضع قطع دوسروں سے الگ ہوتی۔

ابھی وہ بیس سال کا نہیں ہوا تھا کہ پن چکیاں، آبی گھڑیاں، دھوپ گھڑیاں اور ایسی پتنگ بنانے لگا، جن کے ساتھ لالٹینیں ہوتی اور یہ پتنگیں رات کے وقت اڑائی جاتی تھیں۔ کیمرج میں اسے نصابی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اپنے ہی خیالات میں مگن رہتا اور یونیورسٹی کی مجلسی سرگرمیوں میں کوئی حصہ نہ لیتا۔ پھر ڈاکٹر آئزک برڈ سے ملاقات نے آئن اسٹائن کو مکمل طور پر بدل دیا۔ اب اس نے کمال دلچسپی سے کیمرج کی لائبریری اور کتابوں کو چھاننا شروع کر دیا۔

آئن اسٹائن نے سائنس کی دنیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ہی بدل دی۔ اس کے فکر انگیز مقالے اور نت نئی ایجادات اپنی جگہ پر مگر اس کے تمام کام کی بنیاد "اس کے صرف اور صرف صحیح سوال پوچھنے پر ہے۔ لکھتا ہے، صحیح سوالات کرنے سے نصف مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ جب سوال ترتیب دے دیا جائے تو اس کا صرف ثبوت تلاش کرنا باقی رہ جاتا ہے، اسی کو ہم جواب کہتے ہیں اور سوال کی صحیح ترتیب سے ثبوت کا راستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔

آپ کسی بھی معاشرے کا حصہ ہوں۔ کسی بھی مضمون پر دسترس رکھتے ہوں۔ کوئی بھی کاروبار کر رہے ہوں۔ ان تمام کا انحصار صرف اور صرف درست سوال پوچھنے پر ہے۔ جامع اور درست سوال کسی بھی ملک کے حالات کی صحیح صورت حال بتا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ اور غریب ممالک میں درست سوال پوچھنے پر سخت پابندی ہے۔

اگر سوال کی سمت درست رکھیں گے تو آپ کے خلاف زمین و آسمان ایک کر دیا جائے گا۔ ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہے۔ اپنے ملک کے نظام اور عام لوگوں کی صورت حال کو مبالغہ آرائی کے دائرے میں مقید کر دیا گیا ہے، کوئی بھی غیر متعصب تجزیہ یا آواز اٹھانا ممکن نہیں۔ سیاست میرا موضوع کبھی نہیں رہا۔ نہ ہی میں کسی بھی موجودہ سیاست دان سے متاثر ہوں۔ اس لیے بھی کہ ہمارے سیاست دان پل وہاں بناتے ہیں جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔ ان کا اوڑھنا بچھونا جھوٹ در جھوٹ ہے۔ جو جتنا دروغ گو ہوتا ہے، وہ اتنا ہی معتبر کہلاتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان، اکٹھے آزاد ہوئے تھے۔ جواہر لال نہرو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ ان کی سیاسی اٹھان ایک طرف، مگر اس شخص نے 1947میں انڈیا میں ہیوی انڈسٹری کی داغ بیل ڈال دی۔ Non Aligned movement کی بدولت اس نے روس اور امریکا دونوں سے حیرت انگیز مراعات لے ڈالیں۔ اندازہ فرمائیے کہ وہ بیک وقت، روس اور جرمنی سے لوہے کے کارخانے لینے میں کامیاب ہوگیا جب کہ ہم ابتدا سے امریکا کے طفیلی بنے۔ جس کی بدولت ہماری بربادی یقینی ہوگئی۔

کیا یہ جائز سوال نہیں ہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان نے امریکی مدد اور معاونت سے سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کر لی جس کی بدولت وہ صرف دو دہائیوں میں تجارت اور ہیوی انڈسٹری والے ممالک میں صف اول میں آ گئے۔ اس کے بالکل متضاد ہمارے قائدین کی حد درجہ ناقص حکمت عملی سے، پاکستان جدید مصنوعات بنانے کے سانچے میں ڈھل ہی نہیں پایا۔ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے ملک کی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں دہائیاں ضایع کر دیں۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے نیٹو افواج کو پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی اجازت دے دی، بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اس پالیسی کو جاری رکھا، کیا یہ درست سوال نہیں ہے کہ یہ سہولت کیوں دی گئی؟ وسطی ایشیا کی کسی ریاست نے نیٹو افواج کو ایسی سہولت کیوں نہیں دی؟ افغان طالبان اور القاعدہ کے لوگوں کو پاکستان میں پناہ کیوں دی گئی؟

جو نیٹو کے ڈرون حملوں کا جواز بنی۔ کسی نے ان پالیسیوں پر بات نہیں کی اور نہ ہی ذمے دار پالیسی سازوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ کارروائی تو خیر دور کی بات، یہاں تو یہ ذکر کرنا بھی مشکل ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے حکمران اور ان کے حاشیہ نشین ہمارے ہی در پے ہیں۔ ایسا صرف پاکستان میں کیوں ممکن ہے؟ بھارت ایسا کیو ں نہیں کرتا؟

چالیس پچاس سال سے ہر حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے ملک میں معاشی انقلاب برپا کر دیا ہے؟ بہت اچھی بات ہے۔ مگر غربت میں مسلسل کیوں اضافہ ہو رہاہے؟ لوگ غربت کی بدولت خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں؟ معاشی ترقی کے یکساں مواقع کیوں ممکن نہیں؟ بلاشبہ ملک میں دولت کی ریل پیل ہے مگر صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے۔ باقی پچانوے فیصد صرف دھکے کھانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ کیوں سوال نہیں کر سکتے کہ ہماری ہر حکومت عوام کو بے وقوف بناتی رہی ہے۔ افسوس کی کیفیت اب بے حسی میں بدل چکی ہے۔

کیا ہم پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ق لیگ، پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے سربراہان سے پوچھ سکتے ہیں کہ معاشی ترقی کے خواب چکنا چور کیوں ہو گئے؟ جناب جو حکمران اور ان کی حکومتیں پلاسٹک کی بوتلوں اور پلاسٹ کے شاپر بیگز ختم کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتی، ان سے معاشی ترقی کی امید رکھنا، خود کو بے و قوف بنانا ہے۔ ہر سربراہ، صرف اور صرف ترقیاتی منصوبوں میں سے اپنا حصہ وصول کرتا رہا۔ آخری دم تک جھوٹ بولتا رہا۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس سفید جھوٹ کو بھی سچ ماننے لگے۔ یہ گراؤٹ صرف ہمارے ملک میں ہی ممکن ہے۔

ماضی قریب کی خاک کو کیا کریدنا۔ یہ تو دائمی نوحہ ہے۔ مگر حد تو یہ ہے کہ پچیس کروڑ لوگوں کے مقدر کو جادو ٹونے کے ذریعے چلانے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ کیا یہ بحیثیت مسلمان، ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں کہ ضعیف العتقادی کو سیاسی حکمت عملی بنا دیا گیا۔ خوابوں کے ذریعے ریاست کے فیصلے کیے گئے۔ یعنی ملکی وزیراعظم اس قدر تواہم کا شکار ہوگیا کہ اہم اور حساس فیصلے کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ لیکن اس کے بعد سولہ ماہ کی اتحادی حکومت نے کیا کیا؟

عوام کو مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پیس کر رکھ دیا۔ واویلہ مچایا گیاکہ روس سے سستے تیل کے بحری جہاز آ رہے ہیں۔ بس سستے تیل کی فراہمی شروع ہی ہونے والی ہے۔ مگر جب تیل آیا تو معلوم ہوا کہ یہ سیدھا روس سے نہیں، بلکہ تین دیگر ملکوں کی سیر کرتا ہوا کراچی پہنچا ہے۔ کچھ لوگوں نے روسی تیل کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے منگوانے پر مالی کرپشن کی بات بھی کی۔ تھوڑے دن میڈیا پر ذکر ہوا۔ مگر پھر موت جیسی خاموشی۔

آج بھی روسی تیل کی درآمد پر سوال کرنے کی کوئی اجازت نہیں؟ کیا سوال نہیں پوچھنا چاہیے کہ جناب آپ کی سولہ ماہ کی حکومت نے تو بلند بانگ وعدے کیے تھے، ایک بھی وعدہ بتائیے جو پورا ہوا ہو۔ حکمرانوں کے اللے تللے اور شاہ خرچیاں دیکھ کر بہادر شاہ ظفر کا آخری دور یاد آ جاتا ہے۔ جہاں بادشاہ سلامت کے کھانے کے لیے درجنوں کھانے موجود ہوتے تھے۔ مگر سب کچھ مہاجن کے قرض کی بدولت چل رہا تھا۔ پھر انجام بھی سب کے سامنے ہے۔

دوبارہ آئین اسٹائن کی آفاقی بات کی طرف آتا ہوں کہ صحیح سوال پوچھنے سے نصف مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے جیسے نیم آزاد ملک میں صحیح سوال پوچھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر عدلیہ سے پوچھیئے کہ آپ انصاف کیوں نہیں دے رہے؟ تو یہ توہین عدالت کا جرم بن جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم اورسیاست دانوں سے پوچھیں کہ جناب، آپ نے اپنے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات، قانون بدل کر ختم کرالیے۔ تو آپ پر اپوزیشن کے ہمدرد ہونے لیبل لگا دیا جائے گا۔

اگر ریاستی اداروں سے پوچھنے کی جرأت کریں کہ ہمسایہ ملکوں سے پائیدارامن قائم کریں۔ تو آپ کو ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جائے گا؟ اب خود بتایئے کہ کیا ہم واقعی اپنے عزیز وطن میں کسی قسم کا صحیح سوال پوچھ سکتے ہیں؟ کم از کم میرے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں؟