سڈنی میں اگر اوپیر ا نہ دیکھا جائے تو زیادتی والی بات ہے۔ سڈنی ہاربر کے قریب ہی پھول کی پتیوں جیسی چند عمارتیں ہیں۔ یہ آرٹ ہاؤس ہیں، جن میں سے کچھ عمارتوں میں اوپیرا ہوتا ہے۔ ہم چار پانچ دوستوں نے ٹکٹ لیے اور ٹھیک وقت پر روانہ ہو گئے۔
گاڑی ایک پاکستانی نژاد آسٹریلین نوجوان چلا رہا تھا۔ پنتالیس منٹ کا سفر تھا۔ راستے میں ایک معمولی سے ایکسیڈنٹ نے ہمارا آدھا گھنٹہ ضایع کر دیا۔ آسٹریلیا عجیب مہذب ملک ہے۔ کار حادثے کی صورت میں دونوں فریق، سیل فون سے تصویریں کھینچتے ہیں اور اپنی انشورنس کمپنی کو بھجوا دیتے ہیں۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں، کوئی پولیس، کوئی تھانہ، کسی سرکاری عمال کا کوئی تعلق ہی نہیں۔
اب انشورنس کمپنی جانے اور حادثہ میں جو نقصان ہوا، وہ جانے۔ البتہ کوئی بڑا ایکسیڈنٹ ہو تو پھر پولیس بلانا ناگزیر ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ کہ ہم لوگ تھیٹر میں تاخیر سے پہنچے۔ ہال کے باہر عملے کا ایک ادھیڑ عمر اہلکار کھڑا تھا، اس نے حد درجہ تشویش سے پوچھا کہ آپ کو دیر کیسے ہوگئی؟ اس تھیٹر کو دیکھنے کے لیے تو پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔
جب ہم نے کار ایکسیڈنٹ کا بتایا تو وہ ہمدردی سے کہنے لگا کہ میں خود آپ لوگوں کو نشستوں تک لے کر جائے گا۔ مگر دو شرائط ہیں۔ ایک تو ہم آہستہ آہستہ چلیں گے۔ دوسرا خاموش رہیں گے تاکہ لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔ وہ انتہائی شائستگی سے ہمیں نشستوں تک لے گیا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کا تھیٹر تھا۔ ہم برطانوی انگلش بولتے اور سمجھتے ہیں۔
آسٹریلوی انگلش کا لہجہ بہت مختلف ہے۔ لہٰذا اوپیرا میں انگریزی کو غور سے سمجھنا پڑا۔ حد درجہ اعلیٰ اور بہترین کھیل تھا۔ فنکاروں کی اداکاری اتنی اعلیٰ سطح کی تھی کہ بالکل ذہن میں نہیں آیا کہ ان لوگوں نے کیا کپڑے پہن رکھے ہیں۔ مختصر ہیں یا لمبے۔ یہ بات سوچی تک نہیں۔ تھیٹر کے آخر میں تمام فنکار، ایک قطار میں سب کے سامنے آئے۔ تو پر جوش تالیاں بجائی گئیں۔ احتراماً تمام لوگوں نے کھڑے ہو کر بھرپور داد دی۔ لندن میں بھی ایک تھیٹر، The Lion king دیکھنے کے بعد ایسا ہی منظر تھا۔
لائن کنگ تو خیر اداکاری کا عروج تھا۔ ایک بات عرض کرنا بھول گیا۔ آسٹریلیا اور لندن، دونوں جگہ پر تھیٹر کے اندر مے خانے ہیں۔ مگر تھیٹر دیکھتے ہوئے سوئی کے گرنے کی آواز بھی نہیں تھی۔ کوئی ہلڑ بازی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ویسے اگر کبھی لندن جانے کا اتفاق ہو، تو لائن کنگ ضرور دیکھیے گا۔ وہاں، تھیٹر کئی کئی سال ایک ہی ڈرامہ دکھاتا رہتا ہے۔ یعنی ایک پلے، کئی کئی دہائیں لوگوں کو تفریح بانٹتا رہتا ہے۔ معلوم نہیں کہ لائن کنگ چل رہا ہے یا نہیں۔ بہرحال تھیٹر، ڈرامہ اور اوپیرا حد درجہ شائستگی سے منسلک ہیں۔ لوگ وہاں جاتے ہوئے بہترین کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ بڑی چاہ سے تھیٹر جاتے ہیں۔
لاہور شہر، پاکستان میں آرٹ اور کلچر کا گڑھ ہے۔ یہاں جدید ترین سینما ہاؤس اور تھیٹر موجود تھے۔ وسیع و عریض اور جدید فلم اسٹوڈیو ہوا کرتے تھے۔ بہترین لکھاری، اداکار، رقاص اور سنگیت کار لاہور میں رہتے اور کام کرتے تھے۔
شاید اب بھی ہوں۔ 1977تک پاکستان کسی نہ کسی طور پر معتدل ملک تھا۔ پھر ضیاء الحق نے پورے ملک کو ایک پریشر ککر میں تبدیل کر دیا۔ ہمارے عظیم مذہب اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے بڑی بے رحمی سے استعمال کیا گیا، ملک میں اپنی بقا کے لیے اکثر لوگ دوہری اور تہری شخصیت رکھنے پر مجبور ہو گئے۔
ضیاء الحق اور اس کے چند ساتھی تو ایک فضائی حادثے نذر ہوکر اگلے جہان چلے گئے لیکن اپنی زہریلی فصل کی پنیری چھوڑ گئے، پاکستان پر اخلاقی مفلسی کی مستقل چھاپ لگ گئی۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے ہماری قوم، معاشرہ یا ملک آج تک باہر نہیں نکل پایا۔ ویسے اب باہر نکلنے کے آثار بھی نہیں ہیں۔ آپ کسی سے ملیں، وہ ایمانداری اور پرہیز گاری کا نمونہ نظر آئے گا، لیکن عمل میں کائیاں اور پرلے درجے کا شاطر ہوگا۔ بلاشبہ سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مگر اس سچ کو بھی ماننا پڑے گا کہ دوعملی اور منافقت ہمارے سماج کومکمل طور پر نگل چکی ہے۔
یہیں سے بنیادی مسئلہ جنم لیتا ہے کہ "فحاشی" یا "غیر اخلاقی" کی اصل تعریف کیا ہے؟ کیا یہ موجود ہے یا نہیں؟ یا معاشرے میں بند دروازوں میں اس طرح موجود ہے کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ کیا کوئی ایسا قریہ ہے جہاں صرف اخلاقیات ہی اخلاقیات کا راج ہے۔ کم از کم میرے مشاہدے میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے۔
یہ سوال اٹھانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ لاہور میں ایک انتظامی حکم کے تحت تمام تھیٹر بند کر دیے گئے ہیں۔ جواز حد درجہ سادہ ہے کہ یہاں فحاشی پروان چڑھتی ہے۔ رقص اس طرح کے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے اخلاق بگڑنے کا احتمال ہے۔
پاکستان میں کبھی کسی نجی تھیٹر میں جانے کااتفاق نہیں ہوا۔ ہاں، الحمرا میں کئی بار گیا ہوں۔ مگر اس حکم نامہ کے جواز کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ دوبارہ اپنے سوال کی سنجیدگی کی طرف آتا ہوں۔ کہ فحاشی ہے کیا؟ کیا تھیٹر یا سینما سے باہر حد درجہ پاکیزہ ماحول ہے؟ کیا واقعی پورے ملک میں اخلاقی قدروں کے تحت زندگی گزاری جا رہی ہے؟ جناب بالکل نہیں۔ نجی تھیٹروں کو فحاشی کا منبع کہنے والوں سے میرا سوال ہے کہ کیا ہمارے ملک کا ایک انچ، ایک حصہ، ایک شہر یا قصبہ واقعی بلند پایہ اخلاقی اصول کے تحت پنپ رہا ہے۔
پتہ نہیں کیوں، منافقت اس حد تک ہمارے اندر گھر کر چکی ہے کہ اب ہم سچ سننے کے بھی روا دار نہیں رہے۔ جھوٹ کامیاب ہے اور سچ مونہہ چھپا کر کونے میں چھپا ہوا ہے۔ ذرا ٹھہریے جن مغربی ممالک میں آپ کے خود ساختہ اخلاقی اور پاکیزہ اصولوں کے تحت فحاشی یا عریانی کا راج ہے تو ان مغربی ممالک میں زندگی گزارنے، تعلیم اور روزگار کے حصول کے پاکیزہ اور بااخلاق پاکستانی کیوں جانا چاہتے ہیں اور جو ان ممالک میں مقیم ہیں، وہ پاکستان واپس کیوں نہیں آجاتے؟ وہاں مستقبل تلاش کرنے کیوں جان بازی لگا رہے ہیں۔ عریانی، فحاشی اور عیاشی کے لوازمات سے بھرپور مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے باہر ویزہ لینے والوں کی قطاریں کیوں لگی ہوتی ہیں؟
لاہور کے تھیٹروں میں کون لوگ جاتے ہیں؟ جناب! وہ طبقہ جو ایلیٹ نہیں ہے۔ یعنی دیسی لوئرمڈل کلاس کے لوگ جو ایک ڈیڑھ گھنٹہ تھیٹر میں بیٹھ کر تفریح سے لطف اندوز ہوتے ہیں، انھی کی وجہ سے تھیڑ آباد ہیں اور فنکاروں کو پیسے مل رہے ہیں، تھیڑ میں بیٹھ کر وہ کوئی جرم نہیں کرتے، کوئی چوری یا ڈاکا زنی نہیں کرتے۔
سرکاری ٹینڈر منظور کرانے کے لیے رشوت لے کر نہیں جاتے۔ ذو معنی جگتوں کی بات کریں تو نجی ٹی وی چینلز کے پروگرامز میں اینکرز جو گل کھلا رہے ہیں، انھیں کیا کہا جائے گا؟ ہمارا آج کا تھیٹر اور وہاں کام کرنے والے فنکار کمزور طبقہ ہے، اس لیے اس پر اخلاقی حد جاری کرنا بہت آسان ہے۔
مگر کیا ہمارا سسٹم طاقتور طبقے کی تفریحات پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ جناب! نظام ہی یہ ہے کہ طاقتور جو مرضی کرے، اس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ لاہور ہی میں برکی روڈ اور بیدیاں روڈ پر بڑے بڑے فارم ہاؤسز ہیں۔ تفریح کی وہ کون سی قسم ہے، جس کا انتظام و اہتمام یہاں نہیں ہوتا، خوبصورت ترین ڈانس فلور، مے اور نشاط کا مکمل بندوبست بلکہ دنیا کی ہر وہ عیاشی موجود ہے جس کا مغرب میں بھی تصور کرنا ذرا مشکل ہے۔
کیا بہالپور یونیورسٹی اسکینڈل کو بنیاد بنا کر تمام یونیورسٹیاں اور ہوسٹلز بند کیے جاسکتے ہیں۔ نہیں صاحب! ایسا ممکن نہیں ہے۔ انسانی جبلت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہ اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ جو معاشرے اس نکتے کو سمجھ چکے ہیں۔ وہاں لوگوں کے اصل مسائل یعنی غربت، تعلیم، صحت کو حل کرنے کے بعد بہترین ملک بنا دیا گیا ہے۔
لیکن ہم چونکہ ایک بھرپور منافق معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اور ہماری کوئی بھی حکومت لوگوں کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر پائی، اس لیے خود ساختہ اخلاقیات کی لاٹھی بناکر اسے کمزروں پر برساتی ہے۔ ویسے پوچھنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ "مشروب صحت" بنانے والے کارخانے کیا ہمارے غریب غیرمسلموں کے لیے ہیں؟ یہ ساری پیدوار کہاں جاتی ہے؟ برائے مہربانی اس ماحول میں ذہنی گٹھن کو مزید نہ بڑھایئے۔ بس!ذرا فحاشی کی تعریف ہی بتا دیجیے تاکہ ناچیز کے علم میں اضافہ ہوجائے۔