1970 کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اس وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ معلوم نہیں تھا کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان آپس میں اتنا کیوں لڑتے ہیں۔ باہمی نفرت اتنی زیادہ کیوں ہے۔
لائل پور جسے میں فیصل آباد لکھنے سے کتراتا ہوں۔ کسی طور پر بھی میدان جنگ کا حصہ نہیں تھا۔ پورا شہر رات کو تاریکی میں ڈوب جاتا تھا۔ گھروں کی اکثرکھڑکیوں کے شیشے بھی، اسی طرح خاکی کاغذ سے مزین تھے۔ سوچتا ضرور تھا کہ اس طرح چھپنے کاکیا فائدہ۔ کیاکاغذ لگانے سے شہر غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرے بچے سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
اسے بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ کسی بڑے یا بزرگ سے بات کرنے کی تو ہمت نہیں تھی۔ لہٰذا تمام بچے امیر دین نائی کے پاس پہنچے۔ امیر دین کی دکان، جناح کالونی کی مشہور ترین دکان تھی۔ تہبند پہنے، چارپائی پر پیاز کاٹنے میں مصروف تھا۔ امیر دین نے ہمارا سوال انتہائی سنجیدگی سے سنا۔ پھر اس نے جواب دیا۔ پہلے تو یہ کہ گورنمنٹ نے اس کی سرکاری ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ جناح کالونی میں موجود ہندوستانی جاسوسوں پر کڑی نظر رکھے۔ اور دوسرا، وہ کچھ سائنسدانوں کے ساتھ مل کر ایٹم بم بنانے کے فارمولے پر کام کر رہا ہے اور خدا کے فضل سے بھرپور طور پر کامیاب ہو چکا ہے۔
ان اہم مصروفیات کی بدولت جنگ میں رات کے کرفیو یا اندھیرا کرنے کے فوائد پر غور کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ جب تمام بچے، امیر الدین کی حکیمانہ گفتگو سن کر واپس آ رہے تھے تو یقین ہو چکا تھا کہ امیر الدین جیسے باخبر اور عظیم آدمی کی موجودگی میں کم از کم لائل پور کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔
ایک دن، دوپہر کو فضا میں ہیبت ناک گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ فوراً چھت پر چڑھ گیا اور اوپر دیکھنا شروع کر دیا۔ ہوا میں دو بڑے بڑے ہوائی جہاز چکر لگا رہے تھے۔ اتنا نیچے اڑ رہے تھے کہ دموں پر بنا ہوا ترنگا تک نظر آ رہا تھا۔ سڑک پر جمع لوگ زور زور سے آوازے کس رہے تھے کہ یہ تو ہندوستان کے جہاز ہیں۔ کوئی آدھا گھنٹہ، انڈین جہاز مسلسل لائل پور پر چکر لگاتے رہے۔
انڈین ایئرفورس نے کسی قسم کی کوئی بمباری نہیں کی اور اطمینان سے واپس چلے گئے۔ شام کو ہم تمام مل کر امیر دین کے پاس گئے۔ وہ دکان کے نزدیک نلکے پر برتن دھو رہا تھا۔ تمام بچوں نے پوچھا کہ انڈین جنگی جہاز بغیر کوئی بم گرائے کیوں واپس چلے گئے؟ اس نے اطمینان سے جواب دیا کہ پاکستانی جنگی جہازوں میں جدید میزائل فٹ کردیے گئے تھے، انڈینز کو سن گن ملی تو فوراً فرار ہوگئے۔ یہ جواب سن کر تمام بچے اطمینان سے واپس آگئے۔ ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ امیر دین دراصل ایک گیسو تراش نہیں، بلکہ ایک بہت عظیم ایٹمی سائنسدان ہے۔
اگلے دن صورت حال حد درجہ نازک ہو گئی۔ میری والدہ، گرلز کالج کارخانہ بازار میں لیکچرار تھیں۔ کالج سے جلدی واپس آ گئیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ سمجھ نہیں آئی کہ والدہ اتنا زیادہ کیوں رو رہی ہیں۔ کہنے لگیں کہ فوراً ریڈیو لگاؤ۔ گھر میں "مرفی" کمپنی کا ایک ریڈیو موجود تھا۔ اس پر خبریں تسلسل سے آ رہی تھیں۔ ایک خبر تو یہ تھی کہ پاکستانی افواج نے ہندوستانی فوج کا بھرکس نکال دیا ہے اور ہر محاذ پر فتح حاصل کر لی ہے۔ ساتھ ساتھ جنرل یحییٰ کی نشے میں کی گئی تقریر کے ٹکڑے بھی سنائے جا رہے تھے کہ ہم ہر قیمت پر لڑیں گے اور جنگ جیتیں گے۔
یہ خبریں سن کر مجھے اطمینان ہو گیا مگر پھر اسپیشل بلیٹن آنا شروع ہو گیا۔ اعلان ہو رہا تھا کہ امید ہے کہ ہندوستان، پاکستانی جنگی قیدیوں کے ساتھ جنیوا کنونشن کے مطابق سلوک کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی جنگی ترانے بجنے شروع ہو گئے۔ یہ خبر سن کر میری والدہ تو سکتے میں چلی گئیں۔ اور پھر انھوں نے دھاڑیں مار مار کر گریہ شروع کر دیا۔ مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ جنیوا کنونشن کیا ہوتا ہے۔ ہمارے جوانوں کو قید کس نے کر لیا۔ یہ ضرور جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ امیردین نائی کے پاس تو مکمل معلومات تھیں۔ ہمارے پورے گھر میں سوگ کا عالم تھا۔
مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کروں، تو میں نے بھی رونا شروع کر دیا۔ باہر نکلا تو محلے میں ہو کا عالم تھا۔ باہر صرف طارق شریف پھر رہا تھا۔ ہم دونوں، امیر الدین کی دکان پر گئے تو وہاں تالہ لگا ہوا تھا۔ طیفا بوتلوں والا اورشفیع برف والے کی دکان پر بھی تالہ لگا ہوا تھا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ کوئی بہت بڑا سانحہ ہو گیا ہے۔ بہر حال اس دن ایسے لگتا تھا کہ جناح کالونی کے ہر گھر میں مرگ ہو چکی ہے۔ ہمارے گھر میں اس دن چولہا نہیں جلا۔ بلکہ کئی دن گھر کا ماحول سوگوار رہا۔
اگلے دن امیر دین ملا توکہنے لگا کہ اس کا بنایا ہوا فارمولا، کسی غدار نے انڈیا کو فروخت کر دیا ہے اور صرف اور صرف اس وجہ سے پاکستان جنگ ہار چکا ہے۔ تمام بچے شفیع برف والے کے کافی خلاف تھے کیونکہ وہ برف کے رنگیں گولے نہیں دیتا تھا۔ ہم سب کا خیال تھا کہ ہندوستان کو ایٹمی راز، صرف اور صرف شفیع برف والا ہی بیچ سکتا ہے۔ امیر دین نے ہماری بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ اسے ایک منیاری فروش، نصیر ٹیڈی پر شک ہے۔ یہ وہ حقیقی سوچ ہے جو اس دورانیہ میں محلے کے بچوں کی تھی۔ اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔
جوں جوں تھوڑی سی عقل آئی۔ معاملات کا پتہ چلا تو پھر اندازہ ہوا کہ ملک تو دو لخت ہو چکا ہے۔ ہم بربادی کے اس بادل کے نیچے سانس لے رہے ہیں جس سے صرف اور صرف زہریلا پانی برستا ہے۔ پھر مجھے اپنی والدہ کی آہ وزاری کی اصل وجہ معلوم ہوئی۔ ایک سال بعد جب کیڈٹ کالج حسن ابدال گیا تو مزید سمجھ گیا کہ ہمارا ملک سنگین حادثے کا شکار ہو چکا ہے۔ اس وقت تک میں بارہ برس کا ہو چکاتھا، اکثر جگہ بتایا جاتا تھا کہ بنگالیوں کی اکثریت غدار تھی اور ہندوستان نے ان غداروں کے ساتھ مل کر ہمارا بازو کاٹ دیا تھا۔ ہمارے پورے اسکول میں کوئی بنگالی طالب علم نہیں تھا۔ جس سے ہم پوچھ سکتے کہ تم لوگوں نے کیوں غداری کی۔ کوئی ہندو استاد بھی نہیں تھا جس سے ہم دریافت کر سکتے کہ انھوں نے غداروں کی کیوں مدد کی۔ عجیب سا ناپختہ ذہن تھا۔
تعلیمی معاملات کو حد درجہ سنجیدگی سے لینے کی بدولت بھول گیا کہ یہ سانحہ کیا تھا اور اس کی اصل وجوہات کیا تھیں۔ چھٹیوں میں لائل پور جانا ہوتا تو امیردین بتاتا کہ اس کا بنایا ہوا فارمولا نصیر ٹیڈی نے ہندوستانی جاسوس کو فروخت کر دیا ہے اور یہ ہماری شکست کی واحد وجہ تھی۔ نصیر ٹیڈی میری نظروں میں بالکل گر چکاتھا۔ اور میں اسے ہندوستانی جاسوس سمجھتا تھا۔ وقت گزرتا گیا۔ زندگی کی دوڑ میں جب عملی حیثیت میں داخل ہوا تو کتاب سے رشتہ جوڑ لیا۔ آفس واپس آکر، ایک گھنٹہ بھرپور ورزش اور پھر کمرہ اور کتاب۔ سنجیدہ مطالعے نے آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔
جب سقوط ڈھاکا، اس کی وجوہات، مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا بنگالیوں سے حد درجہ ادنیٰ سلوک معلوم ہوا تو یقین فرمائیے کہ ذہن ماؤف ہوگیا۔ شعور کے دروازے کھلے تو سچ سامنے آیا۔ اس وقت کے حکمران اور اس کے حواریوں کی ہوس، لالچ اور نااہلی جب کہ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کی کوتاہ اندیشیاں، روز روشن کی طرح عیاں ہو گئیں۔ بنگالی تو کبھی بھی پاکستان سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتے تھے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد اقتدار سنبھالنے والے حکمران گروہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مدارالمہاموں نے ان سے ناانصافیاں کیں، انھیں حقیر گردانا، ان کی بے عزتی کی، ان کا جائز سیاسی، سماجی، اقتصادی حق کبھی انھیں نہیں دے پائے۔ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے مکمل جھوٹ کو قومی سچ بنانے کی کوشش کی مگر ہمارا ریاستی بیانیہ غلط ثابت ہوا۔ بنگالیوں نے اپنے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کا عملی احتجاج، اپنے آپ کو ہم سے علیحدہ کرنے سے ہی کیا۔ آج بنگلہ دیش ایک کامیاب ملک ہے۔
اس کے اقتصادی، سماجی، مذہبی، عسکری اور مالیاتی معاملات، ہم سے یعنی پاکستان سے بہت بہتر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش، آج پاکستان سے ہر معاملے میں بہتر اور ترقی یافتہ ہے اس کے برعکس ہم بربادی اور جھوٹ کے دائروں کا سفر کرتے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ میں شعور کی کھڑکی بند کر ڈالوں۔ سوچنا ہی بند کردوں، اور یقین کر لوں کہ اگر امیر دین نائی کا بنایا ہوا ایٹمی فارمولا چوری نہ ہوتا، تو ہم 1970 کی جنگ جیت جاتے۔ ہمیں تو نصیر ٹیڈی کی غداری نے مروا دیا؟