خان گڑھ کا ایک نواحی گاؤں گیرے وائن ہے۔ عام سا دیہات، اور دہی سہولتوں کے بغیر زندگی، آبادی بھی تھوڑی سی ہے۔ لہٰذا ہر شخص دوسرے کو جانتا ہے۔ پر انسانی ذہن اور رویہ ایک ایسی مشکل گتھی ہے جسے سمجھنا ناممکن ہے۔
گیرے وائن میں ایک خاندان میں قریبی رشتہ داروں کے مابین چپقلش تھی۔ ایسی ہی جیسے ہر کنبہ میں ہوتی ہے۔ اور یہ معمول کی بات ہے۔ ہمارے بدقسمت معاشرے میں حسد، جلن اور ذاتی پرخار ہر سطح پر عروج پر ہیں۔
گاؤں کے ایک کنبہ میں بلال نام کا ایک شخص تھا۔ ٹھیک تین چار دن پہلے اس درندے نے اپنے قریبی عزیز کے تین معصوم بچوں کو موٹرسائیکل پر سیر کے بہانے بٹھایا اور ایک نزدیکی ڈیرے پر لے گیا۔ بچوں کی عمر سات اور تین برس تھی، ساتھ ہی ڈیڑھ سال کی پھول سی بچی بھی تھی۔ تمام بچے، بلال کو چاچا بلاتے تھے۔
ان کے فرشتوں کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ قریبی عزیز، ان کے ساتھ کتنا سفاکانہ سلوک کرنے والا ہے۔ اپنے رشتہ کے چچا سے ٹافیاں مانگ رہے تھے۔ ہنس رہے تھے، کھیل رہے تھے، انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ ایک مقتل میں پہنچ چکے ہیں۔ حد درجہ جانور نما چچا نے دو بچوں کو کمرے سے باہر نکالا، یہی کہا کہ بازار سے تمہیں گولیاں لے کر دینی ہیں۔ ڈیرے کی چار دیواری میں ایک خالی کمرہ تھا۔
تین برس کے عبداللہ اور ڈیڑھ سال کی حفصہ کو چھری سے ذبح کر دیا۔ ذرا تصور فرمایئے کہ بھائی بہن، ایک دوسرے کے سامنے، دست قاتل سے فنا ہوتے رہے۔ اس کے بعد، بلال نے بچوں کی کھال اتاری اور ان کا ایک قصائی کی طرح گوشت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ بچوں کے گوشت کا اس نے اطمینان سے سالن بنا لیا۔ پہلے، خوب سیر ہو کر کھایا۔ پھر پتیلہ نزدیکی دربار پر لے گیا۔ بچو ں کے گوشت کے سالن کی نیاز تقسیم کی گئی۔
کسی انسان کے ذہن کے ہزارویں حصے میں بھی یہ شک نہ گزرا، کہ یہ جلاد، انھیں انسانی گوشت کا سالن کھلا رہا ہے۔ خیر جب بچے گھر نہ پہنچے تو والد نے تھانہ میں گمشدگی کا پرچہ کٹوایا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ تینوں بچے، آخری بار رشتہ کے چچا کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتے دیکھے گئے تھے۔ بلال کو گرفتار کر لیا گیا۔ تو وہ پولیس کو اس ڈیرے پر لے گیا۔
جہاں یہ گھناؤنا جرم ہوا تھا۔ حد درجہ خوش قسمت سات سالہ بچہ علی حسن وہاں زندہ موجود تھا۔ عبداللہ نے اسے دو تین دن کے بعد ذبح کرنا تھا۔ اس کے علاوہ تین سالہ بچے کی کھوپڑی، خون آلود کپڑے بھی نزدیک کھیت سے برآمد ہو گئے۔ عجیب معاملہ تھا کہ اٹھارہ ماہ کی بچی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اس کی تلاش بہرحال جاری ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلال کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی احساس ندامت نہیں تھا۔ شاید اس کے اندر کا انسان، بالکل ہی ختم ہو چکا تھا۔ اس کے پاس پولیس کے اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ اگر چپقلش، بچوں کے والدین سے تھی تو اس میں ان نحیف اور لاچار بچوں کا کیا قصور تھا، جن کو جانور سے بھی بدتر طریقے سے ذبح کیا گیا۔ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ عبداللہ نفسیاتی طور پر بالکل صحت مند ہے اور اسے کسی قسم کی کوئی ذہنی بیماری نہیں ہے۔
یہ اندوہناک واقعہ، تمام قومی اخبارات میں شایع ہوا۔ اور حسب معمول، گزشتہ روز اس کا کسی جگہ پر بھی کوئی ذکر نہیں تھا۔ کسی میڈیا چینل نے اس مقامی قیامت کو اتنا اہم نہیں سمجھا کہ اس کے اسباب اور وجوہات پر سیر حاصل بات چیت کرے۔
خیر اب تولوگ سوشل میڈیا ہی کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اب تو ایسے گمان ہوتا ہے کہ مقتدر طبقے کا، زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ کوئی غزہ میں مسلمانوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم پر مرثیہ گو ہے۔ کوئی کشمیر کو صرف اور صرف لچھے دار باتوں سے آزاد کروانا چاہتا ہے۔ کوئی ہندوستان کے اندر گھس کر مارنے کا راگ الاپ رہا ہے۔
مگر، ہمارے اپنے ملک میں قدم قدم پر جو ظلم برپا ہے اس کا مداوا تو دور کی بات، وہ تو اس قیامت صغریٰ کی جانب توجہ دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیا کسی قومی رہنما کو اس کی مذمت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔
ان کے موضوعات الیکشن کو جاڑے کی شدت کی بدولت، آگے کرنے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ ماتم ہی اس بات کا ہے کہ ہمارے قومی سیاست دان اور سیاسی مسخرے، لوگوں کے مسائل سے مکمل بے اعتنائی برتتے ہیں۔ انھیں شوق ہے تو اپنے سیاسی دشمن کو نیچا دکھانے کا۔ جھوٹے اور جعلی پرچوں میں کس طرح، اپنے مخالفین کو ذلیل کرنا یا کروانا ہے۔
اس کے علاوہ نہ ہمارے مقتدر طبقے کے پاس کوئی ذہنی پختگی ہے اور نہ ہی ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنے کا کوئی طریقہ۔ سنجیدہ ترین معاملات میں عدالتوں کا رویہ بھی منظم نہیں۔ کیا پچاس برس قبل، عدالتی قتل کے معاملات اہم ہیں یا ملک میں بچوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرنے کا واقعہ۔ پر جناب، کسی بھی عدالت نے اپنے سوموٹو اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے، خان گڑھ کے قبیح واقعہ پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔
عدالتوں کی کارکردگی تو حالیہ شایع ہونے والی رپورٹ میں کرپٹ ترین ادارے کی ہے۔ ہماری حد درجہ فعال حکومت کو بھی اس سنگین معاملے پر نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اعلیٰ ترین سطح کے بابو اور سیاست دان، بذات خود خان گڑھ جاتے۔ معاملات کو سمجھتے اور مظلوم والدین کی اشک شوئی کرتے۔ مگر جناب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لوگوں کے ساتھ قیامت خیز مظالم سے بھلا ان کا کیا تعلق۔
سرکاری بے حسی تو ایک طرف، ذرا اپنے سماج پر بھی نظر ڈالیے۔ ہماری پوری سوسائٹی حد درجہ اخلاقی توڑ پھوڑ اور شکستگی کا شکار ہے۔ اخلاقی قدروں کے متعلق کیا ماتم کرنا۔ پورا سماج اب منفی اخلاقی، سماجی اور اقتصادی اقدار پر قائم ہے۔ ویسے پندونصائح کے ہر پیمانے پر ہم پورے اترتے ہیں۔ مگر یہ صرف اور صرف الفاظ کا ہیر پھر ہے۔
خطبے ہیں، تقاریر ہیں، عملی زندگی سے ان کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت پسندی سے کام لیجیے۔ آنکھیں کھول کر معاملات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ آپ دنیا کے خطرناک ترین اور دروغ ترین معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں کوئی بھی طاقتور درندہ آپ کو ہر متاع سے محروم کر سکتا ہے۔
نہ آپ کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی چادر اور چار دیواری کا کوئی تقدس باقی رہ چکا ہے۔ ہم ایک ایسے جنگل میں رہ رہے ہیں۔ جہاں آپ صرف اس وجہ سے محفوظ ہیں کہ کسی آدم خور جانور کی نظر آپ پر نہیں پڑی۔ جس دن کسی کی گندی نظر پڑ گئی، وہ اس سماج میں آپ کا باعزت رہنے کا آخری دن ہوگا۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ نا انصافی ہونے کے بعد، کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے، جہاں آپ کی شنوائی ہو، کوئی ایسا عدالتی فورم نہیں ہے جو آپ کے دکھ اور تکلیف کو فوری طور پر راحت میں تبدیل کر دے۔ لوگوں میں برداشت کا مادہ تو کب کا ختم ہو چکا۔ اب تو معمولی سی بات پر بھی لوگ دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ ماں، باپ اور اولاد کا رشتہ حدد درجہ محترم گنا جاتا ہے۔ اب تو ہر روز دیکھنے کو ملتا ہے کہ اولاد نے جائیداد کی خاطر باپ کو قتل کر دیا۔
ماں نے بچوں کے ساتھ مل کر اپنے خاوند کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بہنوں نے بھائی کی جان لے لی، اور بھائی نے معمولی سے جھگڑے کے بعد، اپنے خونی رشتوں کو عدم کے راستے پر روانہ کر دیا۔ یہ سب کچھ اخبارات میں روز چھپتا ہے۔ اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اب یہ کسی اہم خبر کے زمرے تک میں نہیں آتا۔ لوگ اس پر بات کرنا بھی اہم نہیں گردانتے۔
مگر صاحبان دنیا میں ایسے مہذب ملک بھی ہیں، جہاں حکومت، لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں تقسیم کرتی ہے۔ دور نہ جائیے سنگاپور، ساؤتھ کوریا، ڈنمارک، ناروے، آئس لینڈ، جاپان اور اس طرح کے متعدد خوش قسمت ممالک، اپنے معاشروں سے جرائم کی مکمل بیخ کنی کر چکے ہیں۔
وہاں کا مقتدر طبقہ، ہر وقت احتساب کی زد میں رہتا ہے۔ وہاں ٹرین کے حادثے کے بعد، وزیر ریلوے شرمندگی کے باعث خودکشی کر لیتا ہے۔ مگر ہمارا ملک ہر طرح کی اخلاقیات سے مبرا ہو چکاہے۔ اب تو صرف یہ نرخ لکھنے باقی رہ گئے ہیں کہ انسانی گوشت فی کلو، کتنے روپے میں ملے گا!