چوہدری صاحب پرانے دوست ہیں۔ ہفتے میں کم از کم ایک دن ہم دونوں خوب گپ شپ لگاتے ہیں۔ بلیک کافی پیتے ہیں، موجودہ اور سابقہ حالات پر بحث کرتے ہیں۔ چوہدری صاحب ذہنی طور پر حد درجہ ذرخیز انسان ہیں۔ سیلف میڈ شخص ہیں۔
ان کے پاس اچھوتے مگر قابل عمل خیالات ہوتے ہیں۔ چند دن پہلے آئے تو دو چار کاغذ ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے۔ بیٹھتے ہی کہنے لگے کہ یہ ایک تجزیاتی رپورٹ ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں لاکھوں لوگ پاکستان سے ہجرت کرکے مغربی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں۔
میرا جواب عام سا تھا کہ جناب ملکی حالات اس حد تک خراب ہیں کہ یہاں نوجوان تو کیا، کسی کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ ادارے ایک دوسرے کی گردن کاٹنے میں مصروف ہیں۔ سیاست دان ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ نظامِ انصاف دم توڑ چکا ہے۔
چوہدری صاحب نے سنجیدگی سے باتیں سنیں۔ پھر کہنے لگے کہ ان تما م کوتاہیوں کا انسان کے مستقبل سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اور اگلے ہزاروں برس ایسا ہی رہے گا۔ چوہدری کی بات سن کر میں حیران ہوا۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ملک کی اقتصادی ترقی تقریباً صفرپر ہے۔ لوگ بھوک، مفلسی سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں اور آپ فرما رہے ہیں کہ ان حالات سے کسی کے مستقبل پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو کوئی منطق نہیں۔ چوہدری صاحب نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے، دراصل میدان کے متضاد کنارے کی گھاس حد درجہ سرسبز نظر آتی ہے۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ اگر دوسرے کنارے سے کھڑے ہو کر دیکھیں، تو آپ کو اپنے حصے کی گھاس مزید بہتر نظر آئے گی۔
زندگی نہ مغرب میں بہتر ہے اور نہ یہاں۔ نکتہ صرف یہ ہے کہ یہ کامیاب انسان کی دنیا ہے۔ اگر آپ اپنے ملک میں کامیاب ہیں تو یقین فرمائیے، اس سے اعلیٰ بات کوئی بھی نہیں ہے۔ مغرب میں بھی حددرجہ غربت ہے۔ گزشتہ دس سال میں نسلی تعصب زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ چوہدری صاحب کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہنے لگے۔
پاکستان کے سو کامیاب ترین لوگوں کی فہرست بنا دو۔ ان میں اگر ایک بھی اپنے ملک میں محنت کرنے کے بجائے، مغرب میں جا بستا، تو کیا وہ وہاں اتنا کامیاب ہو سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ امیر تو ہوتا مگر اتنا نامور، مؤثر اور طاقتور نہ ہوتا، جتنا وہ اپنے ملک میں ہے۔ چلو یہ بھی چھوڑ دو۔ ان کامیاب لوگوں کا ماضی کھنگالو۔ ان میں سے اکثریت صفر سے شروع ہوئی تھی۔
متعدد بار ناکام بھی ہوئے۔ اور معاملہ بدحالی اور مفلسی تک پہنچ گیا۔ مگر ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ محنت کرتے رہے۔ ان کے جذبے کو کسی قسم کی وقتی تکلیف نے شکست نہیں دی۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ دراصل لوگ، یہ بھول جاتے ہیں۔
کہ کامیابی ایک سیڑھی کی طرح ہے۔ اس کے اوپر والے حصے پر تو ہر بندہ دوسرے کو براجمان دیکھتا ہے۔ مگر یہ بھول جاتا ہے کہ اس سیڑھی کے نچلے حصے بھی ہیں۔ جو خالی نظر آتے ہیں۔ انھیں سے چڑھ کر کوئی بھی انسان، بلندی والی جگہ پر براجمان ہوتا ہے۔
کامیابی کا نسخہ حد درجہ آسان ہے۔ اس کے لیے کسی فلسفی کی رائے لینی ضروری نہیں۔ کسی اقتصادی ماہر کے پاس جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ بس ایک لگن اور ایک اچھوتے خیال پر عمل انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔ اب مجھے چوہدری صاحب کی باتوں میں دلیل کی طاقت محسوس ہو رہی تھی۔
چوہدری صاحب بتانے لگے کہ نہ وہ موٹیوشنل سپکر ہیں، نہ ٹی وی یا میڈیا پر اپنی دانائی کے موتی زبردستی لوگوں تک پھیلاتے ہیں۔ وہ صرف کسی بھی مسئلہ کو ٹھنڈے طریقے سے پرکھتے ہیں۔ پھر اس کا سادہ اور آسان حل پیش کر دیتے ہیں۔
میرے علم میں ہے کہ ہزاروں لوگ ان سے ملتے ہیں اور ہ کسی کو بھی ناامیدی کی سزا نہیں دیتے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات بتاتے ہیں۔ جس سے اس انسان کو اقتصادی فائدہ ہو۔ دولت اس کی طرف آئے۔ اور اس کی زندگی بہتر ہو جائے۔ میں نے ویسے یہ خود ملاحظہ کیا ہے کہ انھوں نے ہزاروں نوجوانوں کو باعزت روزگار کے ذریعے توانا کیا ہے۔
ویسے چوہدری صاحب خود حد درجہ کامیاب کاروباری انسان ہیں۔ کافی پیتے پیتے انھوں نے مجھ سے سوالات کرنا شروع کر دیے۔ ڈاکٹر! اپنی گاڑی کہاں سے ٹھیک کراتے ہو۔ میرا جواب سادہ سا تھا۔ اچھی ورکشاپ سے۔ بس یہیں ٹھہر جاؤ۔ لاہور شہر میں گاڑیاں ٹھیک کرنے کی ورکشاپیں کتنی ہیں۔ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔
پانچ چھ ہوں گی۔ چوہدری صاحب کہنے لگے۔ چلو، ہم بحث کے لیے کہتے ہیں کہ پورے شہر میں بیس اچھی ورکشاپس ہوں گی۔ اب بتاؤ، لاہور میں گاڑیاں کتنی ہیں۔ قیافے سے کام لے کر بتایا کہ بیس پچیس لاکھ تو ہوں گی۔ چوہدری صاحب نے فوراً کہا کہ کیا ایک ورکشاپ یا اچھا مستری، ایک لاکھ گاڑیوں کو ٹھیک کر سکتا ہے۔ جواب مکمل نفی میں تھا۔
چوہدری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کہہ ہمارے انجینئر ڈگریاں ہاتھ میں لیے نوکری حاصل کرنے کے لیے دفتروں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ ذلت برداشت کرتے ہیں۔ مگر ایک اچھی اور عمدہ ورکشاپ کھولنے کی ہمت نہیں کرتے۔ اس پر سرمایہ بھی کوئی خاص خرچ نہیں ہوتا۔ دو چار دوست مل کر بڑی آسانی سے تھوڑے سرمائے سے ایک ورکشاپ کھول سکتے ہیں۔
ہاں! اب اگلی بات، اس ورکشاپ میں گاڑیوں کی دیکھ بھال کا کام بہترین ہونا چاہیے۔ کسٹمرز کو کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہو بھی تو اسے حد درجہ ماہرانہ طریقے سے خوش اخلاقی سے درست کرنا چاہیے۔ اگر کوئی صرف اس طرح کی ایک اعلیٰ ورکشاپ کھول لے، تو اس سے آمدن سمیٹی نہیں جائے گی۔ شرط وہی پہلے والی، کام بہترین ہونا چاہیے۔
یک دم مجھے یاد آیا کہ ایک نوجوان نے لاہور کے پرانے ایئرپورٹ کے نردیک ایک محلے میں گاڑیوں کی اچھی ورکشاپ ترتیب دی۔ صرف چند سالوں میں وہ بے پناہ دولت میں کھیلنے لگا۔ ویسے چوہدری صاحب کی اس بات میں وزن تھا۔
چوہدری نے سانس لے کر کہا کہ نوجوان نوکری کو اپنی قسمت سمجھتے ہیں۔ مگر وہ قطعاً چھوٹے کاروبار کی طرف نہیں آتے۔ اکثر تو چھوٹے کام کو ادنیٰ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ پڑھے لکھے ہیں۔ ان کو تو صرف وائٹ کالر جاب ہی چاہیے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ اپنا مستقبل خود اپنے ہاتھ میں لیں۔ چھوٹے کام کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔ تو ان کو ترقی کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
چوہدری صاحب تو خیر تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے گئے۔ مگر مجھے سوچنے کی ایک نئی جہت ضرور دے گئے۔ اس وقت، نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔
اور یہ المیہ حد درجہ درست ہے۔ مگر سمجھنے کی بات ہے کہ کیا سرکاری یا نجی شعبہ اتنی کثیر تعداد میں نوجوانوں کو باعزت روز گار دے سکتا ہے؟ جواب سادہ سا ہے، بالکل نہیں دے سکتا۔ تو پھر کیا کیا جائے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے، انتظار کیا جائے۔ کہ جب بھی میرے منصب کے برابر غیب سے کوئی نوکری آئے گی، تو پھر ہی کروں گا۔ مگر یہ کرشمہ کبھی نہیں ہوگا۔
نوجوان انتظار کرتے کرتے بوڑھا ہو جائے گا۔ مگر اپنی بے روزگاری کا حل کبھی تلاش نہیں کر ے گا۔ یاد رکھیے کہ ٹیکسٹائل مل کے مالکان کی اکثریت نے بھی اپنا کام، سائیکل پر کپڑے بیچنے سے شروع کیا تھا۔ آپ بڑے کام کی طرف نہ جائیں۔
چھوٹا کاروبار شروع کیجیے۔ محنت کیجیے۔ پھر دیکھیے۔ نظام قدرت آپ کی مدد کے لیے آن کھڑا ہوگا۔ شاید آپ کو میری مثال پسند نہ آئے۔ اگر کوئی شخص ریڑھی پر پھل بیچنا شروع کر دے اور فیصلہ صرف یہ کرے کہ وہ اچھے پھل مناسب منافع کے ساتھ فروخت کرے گا۔ تو لنے میں ڈنڈی نہیں مارے گا۔ تو صرف ایک ٹھیلے سے انسان کی قسمت چمک سکتی ہے۔
میں اس کاروبارکی بات کر رہا ہوں۔ جو آپ کو آگے لے جا سکتا ہے۔ جناب! تعمیرات کے امیر ترین شعبے کو دیکھیئے۔ آپ کو اچھا مستری ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ مستری تو بہت بڑی بات ہے، مستعد مزدور قطعاً دستیاب نہیں ہے۔ اگر آپ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ مگر جاہل نہیں ہیں۔ تو راج گیری کا کام اچھی طرح سیکھیے۔ اور بہترین طریقے سے سرانجام دیں۔
وقت پر کام شروع کریں۔ مالک کا نقصان نہ ہونے دیں۔ تصور نہیں کر سکتے کہ آپ کتنی ترقی کر سکتے ہیں۔ میں، بہت سے بڑے ٹھیکے داروں کو جانتا ہوں۔ جنھوں نے اپنا کام مزدوری سے شروع کیا تھا۔ اور آج وہ دھن دولت میں کھیل رہے ہیں۔ اور ان کی اپنی اپنی تعمیراتی کمپنیاں ہیں۔
بیروزگاری کا مسئلہ ایک عفریت سے ہرگز کم نہیں ہے۔ مگر اس کا حل، خود آپ کے اپنے پاس ہے۔ ترقی کی کنجی آپ کی اپنی جیب میں ہے۔ اپنے اوپر بھروسہ کیجیے۔
معمولی سے کاروبار سے شروع فرمایئے۔ کوئی کام ادانیٰ نہیں ہوتا۔ محنت اور ایمانداری کو اوڑھنا بچھونا بنایئے۔ پھر دیکھیے، تائید ایزدی کیسے آتی ہے۔ ہمت کیجیے۔ دفتروں میں دھکے کھانے سے آپ کا مستقبل کبھی بھی روشن نہیں ہوگا۔ آگے بڑھیے، اپنے اوپر اعتماد کیجیے۔ یقین فرمائیے آپ کا تابناک مقدر صرف اور صرف آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے!