جب پاناما لیکس کا معاملہ شروع ہوا۔ ثاقب نثار چیف جسٹس نہیں تھے۔ یہ پنڈورابکس، چیف جسٹس جمالی کے دور کا تھا۔ مگر جمالی صاحب اس پر کسی قسم کی کوئی بھی کارروائی کرنے سے کتراتے اور معاملہ کو طول دیتے رہے اور فیصلہ کیے بغیر ریٹائر ہو گئے۔ اس طرح یہ کیس ثاقب نثار کی ٹیبل پر پہنچ گیا۔
چیف جسٹس کے طور پر ثاقب نثار کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ انھیں میاں صاحب نے ہی جج مقرر کیا تھا۔ اور میاں صاحب سے ان کی کافی بہتر یاداللہ بھی رہی تھی۔ انھیں مسلم لیگ کے اکابرین نے اپنا جج بھی قرار دے دیا تھا۔ یہ وہ کڑا مرحلہ تھا جس میں بطور چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے آپ کو عدالتی بنچ سے علیحدہ کر لیا۔ یعنی پاناما لیکس کے بنچ سے ان کا عدالتی تعلق ختم ہو گیا۔
اب اس بنچ کے سربراہ آصف کھوسہ تھے۔ اوروہ اپنی جگہ پر ایک صاف ستھرے مگر سخت گیر جج کی شہرت رکھتے تھے۔ پاناما لیکس سے ثاقب نثار کی لاتعلقی، ہر اخبار میں بطور خبر شایع ہو چکی ہے۔ بڑے سہل طریقے سے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ عدالتی حکم پر جے آئی ٹی کا بننا اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں بطور جج ثاقب نثار شامل نہیں تھے۔ تحقیقات کا نتیجہ پورے پاکستان کو معلوم ہے۔
نواز شریف کو ملزم سے مجرم، آصف سعید کھوسہ کی زیر صدارت بنچ نے قرار دیا۔ حالات کا رخ کہیں یا قدرت کا طریقہ کار، بطور چیف جسٹس ثاقب نثار کوپچیس سے تیس سیاستدانوں کی نااہلی کے دورانیے کو متعین کرنے کا فیصلہ کرنے کا مقدمہ سننا پڑا۔ اس معاملہ میں آئین خاموش تھا۔ اب یہ عدالت عظمیٰ کی آئینی ذمے داری تھی کہ وہ نااہلی کے دورانیے کو مختص کرے۔
اس میں نواز شریف صاحب کا کیس بھی شامل تھا۔ انھیں عدالتی نوٹس، دیگر سیاستدانوں کی طرح جاری کیا گیا مگر وہ عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے۔ آئین کی تشریح کرتے ہوئے یہ فیصلہ ہوا کہ نااہلی کا دورانیہ تاحیات ہو گا۔ دیگر لوگوں کی طرح، سابقہ وزیراعظم بھی اسی زد میں آ گئے۔
ثاقب نثار کے دوست بتاتے رہے کہ سابقہ چیف جسٹس کی کرپشن کے مقدمات سننے والے جج ارشد ملک سے کبھی کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ملاقات کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں، ایک اور دلچسپ بات، سابقہ چیف جسٹس نے کالم لکھنے والے دن تک کسی اینکر یا جرنلسٹ کو کسی قسم کا کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ معاملات کے متعلق وضاحتی بیان کسی بھی حوالہ سے کسی بھی صحافی کو نہیں دیا تھا۔ آڈیو کے متعلق بات ضرور کی تھی کہ یہ ان کی سماجی تقریبات میں کی گئی مختلف باتوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ ایک نامور اینکر نے انھیں فون کر کے انٹرویو کرنے کی بات کی۔ مگر ثاقب نثار نے مکمل انکار کر دیا۔ اس کے باوجود، اس جید صحافی نے لکھ ڈالا کہ ان کی سابقہ چیف جسٹس سے بات ہوئی اور انھوں نے فلاں بات کی تردید یا اسے تسلیم کیا۔ جب کہ ثاقب نثار نے ان سے کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں کی تھی۔
اب گفتگو کا رخ حالیہ بحران کی طرف موڑتا ہوں۔ رانا شمیم، گلگت بلتستان کے چیف جج مکمل طور پر سیاسی دباؤ یا سفارش پر لگائے گئے۔ ان کا ن لیگ سے انتہائی قریبی تعلق تھا اور ہے۔ اگر آپ ان کی عمومی شہرت پر بات کریں، تو محتاط انداز سے یہ کہا جا سکتا ہے، کہ ان کے بارے میں منفی اور مثبت دونوں آراء موجود ہیں۔ بہر حال جب وہ چیف جج متعین ہوئے۔ تو کئی حد درجہ متنازعہ فیصلے کر دیے جو ان کے قانونی دائرہ کار سے بالکل باہر تھے۔ اس میں شاہین ایئر لائنز جیسے فیصلے بھی شامل تھے۔ شمیم صاحب نے فیصلہ فرمایا کہ شاہین ایئرلائنز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں فضائی آپریشن شروع کرے۔
یہ معاملہ جس وقت سپریم کورٹ پہنچا تو سابقہ چیف جسٹس نے اسے کالعدم قرار دے دیا اور یہ بھی لکھا کہ یہ جی بی کے چیف جج کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ بالکل، اسی طرح رانا شمیم کے کئی فیصلے تھے جو ثاقب نثار نے قانونی وجوہات پر ناقابل عمل قرار دیے۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ رانا شمیم نے کبھی کوئی ایسا احتجاج نہیں کیا یا کسی کو یہ نہیں کہا کہ ان کے جائزفیصلے کو ذاتی بنیادوں پر ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ معاملہ کسی بھی قانونی مقدمہ یا اس کے انجام کا ہرگز ہرگز نہیں تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ، وہ ذاتی نوعیت کا دورہ آتا ہے جس میں ثاقب نثار اور ان کے اہل خانہ نے جی بی میں چند دن قیام کیا۔ اس میں ٹرانسپورٹ، جی بی کی حکومت نے فراہم کی تھی۔ رانا شمیم نے اس ذاتی ٹور میں سابقہ جسٹس اور ان کی فیملی کا بہت خیال رکھا۔ بہترین طرز کی خاطر مدارت کی۔ رات کا کھانا ہمیشہ رانا شمیم کی طرف سے جاتا تھا۔ اس ذاتی ٹور کے آخر میں رانا شمیم نے جی بی کی مقامی سوغاتیں اور چوغے وغیرہ بھی تحفے میں پیش کیں۔ یہاں تک کسی قسم کا کوئی معاملہ خراب نہیں تھا۔ یہ ٹور بہت خوشگوار طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔
ثاقب نثار کے دوست نے حلفاً بتایا کہ رانا شمیم کے سامنے نواز شریف یا ان کے خاندان کے متعلق کسی سے بھی، کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ویسے دلیل سے سوچا جائے، تو کیا اتنی حساس بات، سابقہ چیف جسٹس ایک گواہ کی موجودگی میں کرتے؟ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ فرض کیجیے۔ اگر ثاقب نثار نے کسی جج کو کسی بھی سیاستدان کے متعلق کچھ بھی کہنا ہوتا۔ توکیا ان کے پاس موبائل فون اور گفتگو کرنے کے دیگر ذرایع موجود نہیں تھے۔ جن کے ذریعہ وہ مکمل راز داری سے کسی کو بھی کوئی حکم دے پاتے۔ اس پوری کہانی میں یہ جھول، ہر قسم کی عقلی دلیل سے باہر کا معاملہ لگتا ہے۔ خیر اس دورے کے بعد زندگی رواں دواں ہو گئی۔
ثاقب نثار کو ایک شادی میں شرکت کے لیے کراچی جانا پڑا۔ تقریب کے آخر میں، گاڑی تک روانگی میں رانا شمیم ان کے ساتھ تھے۔ یہاں ایک واقعہ ہوا۔ رانا شمیم نے چلتے چلتے ثاقب نثار سے گلہ کیا کہ آپ نے میرے کئی عدالتی فیصلے ختم کر دیے تھے۔ اس وجہ سے جب میری مدت ملازمت کی توسیع کا کیس پیش کیا گیا، تو ان فیصلوں کی بدولت مجھے ایکسٹینشن نہ مل پائی اور میری نوکری ختم ہو گئی۔ یہ رانا شمیم کا وہ ذاتی رد عمل تھا جو انھوں نے کراچی میں ثاقب نثار کو بطور چیف جسٹس ایک سماجی سطح پر کیا۔ مگر اس وقت بھی، رانا شمیم نے کسی سطح پر کوئی قانونی اپیل یا پٹیشن داخل نہیں کی، کہ ان کے ساتھ ثاقب نثار نے زیادتی کی ہے۔
یہاں بہرحال، یہ سوال ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ رانا شمیم نے کن وجوہات پر خاموش رہنا پسند کیا۔ شاید وہ حقیقت کو سمجھتے تھے اور انھیں علم تھا کہ خرابی کہاں ہے اور اس میں ان کی کیا قانونی حیثیت ہے۔ بہر حال عجب سی بات ہے کہ رانا شمیم طویل دورانیے تک بالکل خاموش رہے۔ اور پھریک دم انھوں نے لندن میں ایک ایفی ڈیوٹ یا بیان دیا جسے چارلس گوتھری (Charles Guthrie) نامی نوٹری پبلک نے تصدیق کیا۔ یہاں ایک از حدباریک نکتہ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
چارلس، نواز شریف اور ان کے خاندان کے سابقہ کاغذات کو بطور نوٹری پبلک تصدیق کرتا رہا ہے۔ جب شریف خاندان کے نمایندے یا قریبی ذرایع سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کے سارے اہم کاغذات ایک ہی شخص کیوں تصدیق کرتا ہے، تو شایع شدہ جواب ہے کہ سینٹرل لندن میں چارلس ہی وہ نوٹری ہے جو یہ کر سکتا ہے۔ یہاں بخدا گریہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور جس موصوف نے یہ جواب قلمبند کروایا۔ ان کے متعلق بھی کئی سنجیدہ سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ یو کے میں 775 نوٹری پبلک موجود ہیں۔ سینٹرل لندن میں ان کی تعداد زیادہ نہیں، بلکہ ان گنت ہے۔ لہٰذا یہ جواب دینا، کہ جناب وہاں تو چارلس گوتھری کے علاوہ کوئی دوسرا تھا ہی نہیں۔ حد درجہ ادنیٰ بات معلوم ہوتی ہے۔
اس حقیقت کی تصدیق گوگل پر جا کر آپ بذات خود کر سکتے ہیں۔ پر معاملہ کسی کو شرمندہ کرنا نہیں۔ جو جتنا بڑا جھوٹ بول سکتا ہے۔ وہ اپنے جعلی اعتماد سے حد درجہ راست گو معلوم پڑتا ہے۔ بہر حال یہ کوئلوں پر کرنے والا وہ ماتم ہے جس کو کرنے یا نہ کرنے کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں۔ اس لیے کہ ہماری موجودہ سیاست کی بنیاد صرف اور صرف جھوٹ پر ہے۔ شاید، اس میں سچ بولنے والا بے وقوف ہے۔
بہر حال رانا شمیم کابیان بڑی احتیاط سے لندن کے ایک لاکر میں محفوظ پڑا ہوا ہے۔ ویسے کیا یہ عجیب بات نہیں کہ رانا شمیم بذات خود تو اپنے ملک یعنی پاکستان میں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ وہ اکیلے ہر جگہ آتے جاتے ہیں بلکہ عدالتوں میں بھی بلا خوف و خطر پیش ہوتے ہیں۔ مگر ان کا اعترافی بیان، خفیہ طریقے سے لندن میں موجود ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ وہ یہ فرماتے ہیں کہ انھیں کچھ یاد نہیں کہ لندن میں کیا بیان لکھ کر دیا تھا؟ خیر چھوڑیے۔ یہ معاملہ چند دنوں یا ہفتوں میں کھل کر سامنے آہی جائے گا۔
(جاری ہے)