Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Nakam Riyasat? (2)

Nakam Riyasat? (2)

ایک ناکام ریاست کے اجزاء ترکیبی کیا ہوتے ہیں، یہ حد درجہ سنجیدہ سوال، پاکستان میں کئی لوگ اس موضوع پر بات نہیں کرتے، انھیں لگتا ہے کہ کہیں کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔

البتہ ہمارے ہاں ایسے چرب زبان موجود ہیں جو تاریخی کہانیوں اور جذباتیت کا لبادہ اوڑھ کر ترقی و خوشحالی اور قانون کی حکمرانی کا ایک جھوٹا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں سسٹم میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ اس فریب کو بڑھاوا دینے کے لیے موقع پرست سیاست دن اور اہم افراد، بے تکے بیانات، جذباتی تقاریر اور دروغ گوئی سے تعمیر وترقی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا ایک ایسا منظر بناتے ہیں جو عام آدمی نے گزری سات دہائیوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں دیکھا۔

زندگی کی اس پختہ منزل پر، میں سو فیصد دلیل کے ساتھ بات کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اسے Rationalismبھی کہا جا سکتا ہے۔ تاریخ کی ہربے رحم حقیقت، مستقبل کاپتہ دے دیتی ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں تاریخ کو مسخ کرکے ایک مصنوعی تاریخ لکھی جاتی ہے، جن دانشوروں نے سچ بیان کرنے کی کوشش کی، انھیں سبق یاد دلا دیا گیا۔

ناکام ریاست دراصل ہوتی کیا ہے، اس اہم موضوع پر کئی بے مثال کتابیں اور مقالے موجود ہیں۔ اگر آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو ان سے باآسانی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ناکام ریاستوں کی سات ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جنھیں چھپانا ناممکن ہوتاہے۔ انھیں کی بنیاد پر ریاستوں کو کامیابی یا ناکامی کا تمغہ دیا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو ایک ناکام ریاست طاقتور طبقے سے ٹیکس وصول کرنے کی استطاعت سے محروم ہوتی ہے۔ پاکستان کو ہی دیکھ لیں، یہاں کا امیر ترین طبقہ کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں ایسی بااختیاراور جرأت مند ٹیکس کولیکشن مشینری موجود ہے جو امیر ترین اور طاقتور طبقات، سیاست دانوں، بزنس ٹائیکونز، بڑے تاجروں، صنعتکاروں اور دیگر کاروباری افراد سے سرکاری ٹیکس وصول کرنے کی ہمت کر سکے۔

ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں کون سے طبقے طاقتور بھی ہیں اور مبالغہ کی حد تک امیر بھی۔ کیا واقعی کوئی انکم ٹیکس افسر یا ادارے کا کوئی بھی سرخیل، ان کالے دھن والے لوگوں سے پوچھ سکتا ہے کہ جناب! آپ کی بے پناہ دولت کا منبع کیا ہے؟ آپ کے ذرایع آمدنی کیا ہیں؟ اور آپ نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے؟

کسی بھی سیاسی وابستگی کے بغیر، کیا محترم نواز شریف، محترم زرداری، محترم شہباز شریف، محترم فضل الرحمن یا اس سطح کے دیگر سیاسی قائدین سے کوئی بھی افسر، قانونی حیثیت کے مطابق ٹیکس کی ڈیمانڈ کر سکتا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی افسر ایسی ہمت کرسکتا ہے۔

دوسرا نکتہ، قانون کی عملداری (Law enforcement) کا ہے۔ یاد رہے کہ Rule of Law کا ذکر نہیں کر رہا۔ سادہ سی بات عرض کر رہا ہوں کہ کیا ملک میں ایسا طبقہ موجود ہے جو قانون کی گرفت سے باہر ہے۔ اس کا جواب، ایک لمحہ میں مل جاتا ہے۔ ملک میں ایسے طاقتور طبقے موجود ہیں جو قانون کی گرفت سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ یا قانون ان کے سامنے ایک نوکر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

تکلیف دہ سچ یہ بھی ہے کہ چند ادارے اور عہدے تو قانون کی رو سے قابل گرفت ہی نہیں ہیں۔ ایسی مقدس گائیں ہر طرف موجود ہیں اور پاکستان نامی چرا گاہ کو خوب قانونی طریقے سے اجاڑ رہی ہیں۔ اس ظلم کو برطانیہ میں بارہ صدیاں پہلے Magna Carta کی صورت میں ختم کر دیا گیا تھا۔ مگر ہمارے ملک میں آئین اور قانون صرف کتابوں میں درج ہے، قانونی عملداری محض باتوں کے لیے ہے۔

آگے چلیے۔ Security assurance نام کا اہم ترین جزو، قوم کو کامیاب یا ناکام ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ کیا ہونا چاہے۔ شایدمکمل حفاظت کی یقین دہانی۔ اس سیکیورٹی میں ہر جہت شامل ہے۔ غذا سے لے کر، انسانی جان کے تحفظ تک، کسی بھی شہری کی جائیداد سے لے کر اس کی ذاتی صحت تک۔ اس کے علاوہ کسی بھی شہری کی معمولی سے معمولی نوعیت کے مسئلے کا حل ایک کامیاب ریاست کی اولین ذمے داری ہے۔

اگر اس اہم ترین نکتہ پر غور کریں، تو اپنے وطن عزیز میں تو طالب علم کو کسی قسم کی Security assuranceنظر نہیں آتی۔ کبھی چینی نایاب ہو جاتی ہے، توکبھی آٹا غائب ہو جاتا ہے، کبھی شاہراہوں پر ڈاکو گھنٹوں تک مسافروں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ موبائل، موٹر سائیکل کی چوری، جیب تراشی اور نوسربازی کو تو پولیس جرم کی کیٹیگری سے نکال باہر کر دیتی ہے۔ کیونکہ یہ معمولی درجہ کے اسٹریٹ کرائمز ہیں جن پر حکومتی اداروں کا وقت ضایع کرنا فضول ہے۔

غور سے دیکھیے، کسی بھی طرح کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی ہمارے نظام میں موجود ہی نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص ایک چارہ کی طرح ہے۔ جسے کوئی بھی طاقتور انسان نما جانور یا ادارہ، مسل کر پھینک سکتا ہے۔ آپ اس کی شکایت تک نہیں کر سکتے۔ ویسے کوئی سننے والا بھی نہیں ہے۔ یہاں ہماری جان، مال اور عزت محفوظ ہے تو اسے اللہ کا کرم سمجھیں، بس آپ خوش قسمت ہیں کہ کسی ڈاکو، لٹیرے، فراڈیے یا سرکاری ادارے کے بے رحم افسر کے ہتھے نہیں چڑھے۔

اس عمومی منظر نامے سے صرف نظر کرکے عرض کروں گا کیونکہ سات دہائیوں سے ایک ہی منظر نامہ چل رہا ہے۔ ویسے بھی جہاں ایوب خان نامی آمر کی شہہ اور آشیرباد سے مادر ملت، محترمہ فاطمہ جناح کو سیکیورٹی تھریٹ، ہندوستان کی ایجنٹ اور غدار کہا گیا ہو، طاقتور ریاستی عہدیدار اور کاروباری اشراف اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی مہم کا لطف اٹھا رہا ہو۔

وہاں، عام پاکستانی شہری کے تحفظ کی یقین دہانی کے آئینی وعدے کی کیا بات کی جائے۔ جہاں پاکستان کے اقتدار پر قابض طاقتور طبقہ اپنے تحفظ کے لیے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ یعنی شیخ مجیب الرحمن کو غدار اور ملک دشمن قرار دے ڈالے اور ملک ٹوٹنے کی بھی پروا نہ کرے، وہاں عام شہری تو کیڑے مکوڑے سے بھی کم اہم ہے۔

کامیاب ریاست اپنی جغرافیائی حدود پر مکمل کنٹرول رکھتی ہے۔ یعنی Terretorial Control، اس پہلو پر میں کیا عرض کروں؟ ہمارے ملک کی دشمن دہشت گرد تنظیمیں اور مافیا گینگز، اپنی مرضی سے جہاں چاہتے ہیں، قتل عام کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کا کچے کا علاقہ حکومت کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔

افغانستان سے سیکڑوں کی تعداد میں دہشت گرد ہمارے شمال مغربی علاقوں میں خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ کے پی کے، کے متعدد علاقے ایک جنگی محاذ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں کئی گروہ دہشت گردی، قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں کچے کا علاقہ پولیس کنٹرول سے باہر ہے۔

اگلہ نقطہ ہے کہ سیاسی اور حکومتی عہدوں پر براجمان ہونے کا کوئی شفاف نظام موجود ہے کہ نہیں۔ پوری دنیا میں حکومتیں جنرل الیکشن کے ذریعے قائم ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی پورے سسٹم پر رٹ قائم ہوجاتی ہے، مگر پاکستان میں الیکشن دھاندلی کا مرثیہ بن جاتا ہے، سات دہائیوں میں ایک بھی چناؤ ایسا نہیں ہے جسے بین الاقوامی معیار کے مطابق شفاف کہا جا سکے۔ اسی طرح حکومتی عہدوں پر تعیناتی کا معاملہ بھی حد درجہ غیرشفاف ہے۔

ایسے سرکاری افسر بڑے آرام سے ہر حکومت کو دستیاب ہو جاتے ہیں جو ہر غیر آئینی اورغیر قانونی کام فخریہ انداز میں کرنے کو اپنی طاقت بتاتے ہیں۔ ان کا ہنر ہی یہی ہے کہ وہ طاقت ور طبقے کے پالتو بننے کو اپنی خوش قسمتی گردانتے ہیں۔ بلکہ اس طرح کی کیفیت پر عش عش کرتے نظر آتے ہیں۔

مندرجہ بالا نکات، ہمارے ملک کو کس سمت میں لے جا چکے ہیں۔ یہ ہرایک کے علم میں ہے۔ معاملہ بیانات اور ترانوں سے حل ہونا ہوتا تو آج ہم سپر پاور گردانے جاتے۔ مگر غیر متعصب تجزیہ کے مطابق، وطن عزیز ایک ناکا م ریاست بننے کے راستے پر گامزن ہے اور واپسی کے راستے محدود ہوتے جارہے ہیں!