Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Riyasaten Kaise Tabah Hoti Hain

Riyasaten Kaise Tabah Hoti Hain

دوسری صدی عیسوی میں روم دنیا کی سب سے عظیم قوت بن چکی تھی۔ اس سے پہلے پورے کرہ ارض پر اتنی مستحکم، امیر اور طاقتور ایمپائر کا کوئی وجود نہیں تھا۔ رومن سلطنت کی جاہ و حشمت کا اندازہ یوں لگایئے کہ ایک زمانے میں فراعین مصر بھی انھیں خراج ادا کیا کرتے تھے۔ مصر رومن سلطنت کے صرف ایک صوبے تک محدود تھا۔ اس سلطنت کا رقبہ پچاس لاکھ مربع کلو میٹر تھا۔

یہ افریقہ، ایشیا اور مغربی یورپ کے وسیع ترین علاقے پر مشتمل تھی۔ دنیا کی بیس فیصد آبادی اسی سلطنت کا حصہ تھی۔ بحیرہ روم پر ان کے بحری بیڑوں کی مکمل گرفت تھی۔ اس عہد کے زمینی اور آبی تجارتی راستوں پر رومن بحریہ کا کنٹرول تھا۔ زراعت، کان کنی، ہتھیار سازی، مصنوعات سازی اور تجارت اس قوم پر ختم تھی۔

یہ ناقابل یقین حد تک مضبوط سلطنت پانچ سو برس تک قائم رہی، اس کے بعد اس کا نام و نشان تک ختم ہوگیا۔ تاریخ دانوں اور محققین کے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ یہ سلطنت کیسے زمین بوس ہوئی اور اس کا وجود تک ختم ہوگیا۔ ایون اینڈریوز (Evan Andrews) نے گہری تحقیق کے بعد، اس سلطنت کی بربادی کی آٹھ وجوہات درج کی ہیں۔

پہلا نکتہ تو یہ کہ، مشرقی یورپ کے انتہائی جنگجو مسلح قبائل نے رومن فوج کوکبھی چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ ان حملہ آوروں کو Germanicقبائل کا نام دیا جاتا ہے، یہ کوئی منظم فوج نہیں تھی۔ بلکہ یہ ہزاروں جنگجوؤں پر مشتمل مسلح جتھے تھے، جن کا مقصد لوٹ مار، قتل و غارت اور رومن سلطنت کو ہر طریقے سے نقصان پہنچانا تھا۔

یہ جنونی اور وحشی قبائل رفتہ رفتہ اتنے طاقتور اور نڈر ہو گئے تھے کہ سن 410 میں ان کے ایک قبائلی سردار King Alaric نے روم پر حملہ کر دیا۔

اس عظیم شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بالکل اسی طرح ایک قبائلی سردار Odoacerنے نہ صرف روم پر قبضہ کر لیا۔ بلکہ اس وقت کے رومن بادشاہ رومولس اگستلولس کو معزول کر دیا۔ مطلب یہ کہ ریاست کی طاقت کمزور ہوگئی اور دہشت گرد مضبوط تر ہوتے گئے۔

بیرونی دشمنوں کے علاوہ روم کا معاشی بحران، اس کے زوال کی دوسری وجہ بن گئی۔ حکومت قائم رکھنے اور چلانے کے لیے جس سرمایہ کی ضرورت تھی، وہ کم ہوتا جا رہا تھا۔ بادشاہ کا خزانہ تو شاید بڑھتا جا رہا تھا۔ مگر رعایا کے لیے خرچ کرنے کی حکومتی استطاعت کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔

اس کا مداوا بالکل اس طرح کیا گیا، جس طرح آئی ایم ایف ہمارے جیسے کمزورملکوں کو ترقیاتی پروگرام دیتا ہے۔ رعایا پر ٹیکس بڑھایا جاتا رہا۔ مہنگائی بڑھتی رہی۔ یعنی وہی کام کیا جو ہماری اشرافیہ مسلسل کرتی چلی آ رہی ہے۔ تاجر اشیاء خورونوش کی مونہہ مانگی قیمت وصول کیا کرتے تھے، حکومتی عمال ٹیکس وصول کرنے میں ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔

کچھ عرصے کے بعد تو یہ ہونے لگا کہ امیر طبقوں نے روم کے باہر جاگیریں خرید کر وہاں رہنا شروع کر دیا تاکہ ان کے اثاثوں پر ٹیکس نہ لگے اور سارا بوجھ رعایا پر منتقل ہو جائے۔ یعنی ایک دم توڑتی ہوئی معیشت کو رومن اشرافیہ مزید تباہی کی طرف کامیابی سے لے گئی۔ ایون کے مطابق سلطنت ختم ہونے کی ایک اور وجہ، دفاعی ضروریات کا حد درجہ مہیب پھیلاؤ تھا۔

دفاعی دائرہ بحر اوقیانوس سے لے کر دریائے فرات تک تھا۔ اتنی بڑی سلطنت کو منظم رکھنے کے لیے اخراجات کی کوئی حد ہی نہیں تھی۔

رومیوں نے اپنے پورے علاقے میں بہترین سڑکوں کا جال بچھا رکھا تھا۔ اس کے باوجود سلطنت پر چھوٹے چھوٹے گروہوں کے حملوں اور مقامی بغاوتوں نے عسکری اخراجات کو اتنا بڑھا دیا تھا، جنھیں پورا کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ ایک رومی بادشاہ Haidrianنے اپنی سلطنت کے کچھ حصو ں میں سرحدی دیواریں بنانی شروع کر دی تھیں۔ مگر اس سے اخراجات مزید بڑھ گئے۔

اگلا نکتہ حددرجہ اہم ہے۔ حکومت میں کرپشن اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتی چلی گئی اور رعایا جانور کی سطح پر پہنچ گئی۔ رشوت دیے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوتا تھا۔ رومن بادشاہ، درباری اشرافیہ اور شاہی عمال کرپٹ اور دروغ گو تھے۔

بلکہ حد درجہ نااہل اور کند ذہن بھی تھے۔ ان کا مطمح نظر صرف اورصرف دولت اکٹھی کرنا اور عیاشی کرنا تھا۔ جس کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا تھا۔ کبھی بادشاہ کا کوئی دوست تاجر مصر سے آنے والے غلے ذاتی گوداموں میں ذخیرہ کر لیتا تھا، پھررعایاکو مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔ بادشاہ تحائف کی آڑ میں رشوت وصول کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ پارلیمنٹ یعنی سینیٹ میں کرپٹ امراء اکٹھے ہو چکے تھے۔

جو دونوں ہاتھوں سے دولت ذاتی خزانوں میں بھرتے تھے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ پچھتر برس میں بیس بادشاہ آئے یا لائے گئے۔ نیا شہنشاہ لانے کا طریقہ پرانے بادشاہ کا قتل تھا۔ کیا آپ یقین فرمائیں گے کہ Praetorian Gaurds وہ معتمد خاص تھے جو بادشاہ کی حفاظت پرمامور ہوتے تھے۔ یہ بادشاہ کو قتل کرنے کا معاوضہ وصول کرتے تھے۔

بلکہ ایک مرتبہ تو ان محافظوں نے بادشاہ کی مسند پر بیٹھنے کو ہی نیلام کر ڈالا تھا۔ یعنی جو بھی انھیں زیادہ پیسے دے گا، اسے روم کا بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ کرپشن اور نااہلی نے روم جیسی عظیم سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا۔

اور وہ تاریخ کے کوڑے دان میں پہنچ گئی۔ اگلی بات بھی بہت اہم ہے۔ رومن بادشاہ نے Visigothقبیلہ کو اپنی سلطنت میں رہنے کی اجازت دے دی۔ یہ افرادی قوت، روم کے اندر رہتی تھی۔ مگر وہ اندرونی دشمن بن چکی تھی۔ لہٰذا اس اندرونی قوت نے رومیوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس قبیلہ نے رومی فوج کو تاراج کر ڈالا، اور رومی بادشاہ Valensکو قتل کر دیا۔ ایک وجہ حد درجہ نازک نکتہ ہے۔

قبل مسیح کے رومن بادشاہ کو خدا کا اوتار کہا جاتا تھا۔ جب سلطنت میں عیسائیت غالب ہوگئی تو بادشاہ کی دیو مالائی حیثیت ختم ہوگئی جو درست بات تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی فکر سیاست میں داخل ہوگئی، کلیساء نے بادشاہ کے اختیارات میں مداخلت شروع کر دی۔

Edward Gibben جو ایک نامور تاریخ دان تھا۔ اس کے مطابق طاقت کے متعدد مراکز بن گئے۔ جس میں بادشاہ صرف ایک فریق رہ گیا۔ پوپ دینی اور دنیاوی طاقت کا مرکز بنتا چلا گیا اور اس نے مذہب کا لبادہ پہن کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ روم کو صدیوں کی تاریکی میں لے گیا۔ آخری وجہ، رومی فوج کا شیرازہ بکھرنا تھا۔

ایون اینڈریوز نے جو آٹھ وجوہات درج کی ہیں۔ ان پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے مگر انھیں مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ جو ادنیٰ معاملات، رومن ایمپائر کو کھا گئے، وہ ہر سلطنت، ملک اورریاست کے لیے آج بھی زہر قاتل ہیں۔ ناکام اور کامیاب حکومتوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کامیاب ریاست وہی ہے، جس میں وہ علتیں نہ ہوں جو اینڈریو نے ڈنکے کی چوٹ پر بیان کی ہیں۔

آپ امریکا، یوکے، فرانس، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں، انھوں نے اپنے قائدین پر کڑی سختی کر رکھی ہے۔ وہ اپنی مرضی سے ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کر سکتے۔ ترقی یافتہ ممالک وسائل کی اکثریت کو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ تعلیم، صحت، پینے کے پانی، ماحولیاتی آلودگی اور روزگار پر توجہ دیتے ہیں۔

معاشرے میں طاقتور اور عام آدمی کے لیے یکساں انصاف، قانون کی حکمرانی اور مساوات کی ترویج کرتے ہیں۔

عدالتوں کو مکمل طور پر غیر جانبدار بناتے ہیں۔ بیوروکریسی کے اختیارات چیک اینڈ بیلنس کے اصول پر تقسیم ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے جیسے ادنیٰ ملک، اپنی کمزوریوں کو چھپاتے چھپاتے ہر چیز کو برباد کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا!