Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Science Ko Orhna Bichona Banaiye (2)

Science Ko Orhna Bichona Banaiye (2)

مغل سلطنت، سولہویں سے اٹھارویں صدی عیسوی تک پورے ہندوستان پر قائم رہی۔ اکبر اعظم سے لے کر جہانگیر اور پھر شاہ جہاں، دولت، رتبے اور جاہ و چشم میں دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران کے ہم پلہ ہی نہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر تھے۔ اکبر اعظم کے دور حکومت کو غور سے پرکھیے، یہ نصف صدی پر محیط تھا۔

جہاں تک اس کی طرز حکمرانی، مذہب اور حکومت کے درمیان فرق رکھنے کا اصول تھا، وہ اپنی جگہ۔ مگر اس کے اقدامات نے ہندوستان کو دنیا کی سب سے امیر سلطنت بنا دیا تھا۔ مختلف زاویوں سے یہ برصغیر کا سنہری دور تھا۔ بالکل اسی طرح جہانگیر اور شاہ جہاں کا مجموعی دور حکومت بھی تقریباًنصف صدی پر محیط تھا۔ ان تینوں بادشاہوں کی مثال اس لیے سامنے رکھی ہے کہ اس دورانیہ میں پورا برصغیر، حددرجہ عروج پرتھا۔

سونے کی چڑیا، جسے بعد میں انگریزوں نے بے دردی سے لوٹا، واقعی دنیا کا مرکز تھا۔ یورپ سے برطانوی، فرانسیسی، پرتگالی اور دیگرمغربی قومیں روز گار کی تلاش میں ہندوستان آتی تھیں۔ اور اپنی خواہشات اور محنت کے مطابق نوازی بھی جاتی تھیں۔ آپ اس دور کی تاریخ کو پڑھیں تو یہ منفرد پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ غیر ملکی یورپین، برصغیر میں آنے کے بعد، ہندوستانی لباس، معاشرت اور سماج کی روایات کے مطابق زندگی گزارنا شروع کر دیتے تھے۔

یعنی وہ برصغیر کے کلچر کو اپنا لیتے تھے۔ 1857 کے بعد، صورت حال بالکل متضاد ہوگئی۔ فاتح، مفتوح قرار دے دیے گئے اور تاجر حکمران بن گئے۔ مغل خاندان ہمیشہ کے لیے تاریخ کی کتابوں کی زینت بن گیا۔ پر یہاں ایک حد درجہ اہم نکتہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہو۔ تینوں بادشاہ، یعنی اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں تو پورے ہندوستان پرہر طرح سے دسترس رکھتے تھے۔ دولت کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔ پورے یورپ میں ان کی دولت کے برابر کا کوئی حکمران نہیں تھا۔ مگر اس ایک سے ڈیڑھ سو برس کے طویل عرصے میں، پورے برصغیر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک بھی نئی ایجاد نہ ہو پائی۔

امراء حرم بناتے رہے اور بادشاہ مقبرے اور باغ بنواتے رہے۔ حد درجہ عجیب بات ہے کہ ہم نے اپنے سنہری دور میں، اگر اسے واقعی سنہری دور گردانا جائے تو صنعتی انقلاب، فرسودہ اور دقیانوسی روایات و نظریات کی بیخ کنی اور جدت کی طرف ایک قدم بھی نظر نہیں آتا۔ صنعت وحرفت تو دور کی بات، کروڑوں لوگوں میں سے ایک بھی ایسا فلسفی، سائنسدان اور عالم پیدا نہیں ہوا۔ جس کا ذکر فخر سے کیا جا سکے کہ اس نے اپنی فکر اور نئی ایجاد سے دنیا میں تبدیلی کے آثار پیدا کر دیے۔

انگریزوں کے دہلی پر قابض ہونے کے بعد تو خیر، کم از کم مسلمانوں کے لیے ترقی کے تمام راستے بند ہو گئے یا کر دیے گئے۔ مگر اپنے ترقی یافتہ دور کے اندر بھی، پورا برصغیر، سائنسی اعتبار سے بانجھ رہا۔ صرف مذہبی تعلیمات کو علم کا درجہ دیا گیا۔ اورنئی سوچ پر قفل لگا دیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ رویہ، آج بھی جاری و ساری ہے۔

مسلم معاشرے آج بھی سائنسی ترقی سے کوسوں دور ہیں۔ ہاں، اگر کوئی مسلمان سائنسدان، نئی بات بھی کرتا ہے تواس کی وجہ مغربی درسگاہوں کی تعلیم اور ذہنی تربیت ہے۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اپنے قیمتی ترین دور میں ہم نے شاعری اور شعراء کرام پر فضیلت کی دستار چڑھا دی مگر سائنس کی طرف ہماری توجہ ایک لمحہ کے لیے بھی مبذول نہیں ہوسکی۔ یہ بے اعتنائی آج بھی قائم ہے۔

اس کے بالکل برعکس تین صدیاں قبل، مغرب میں نشاۃ ثانیہ اور جدید فکر کا آغاز ہو چکا تھا۔ انسانی فکرنے پرانے افکار کو دلیل کی بنیاد پر چیلنج کیا تھا۔ پورے یورپ میں ایک ایسا دور شروع ہو چکا تھا۔

جس نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا اور دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کی ابتداء ایک پولش مفکر، Nicolaus Coperinicus کی فکری تبدیلی سے ہوئی۔ کوپرنیکس سے پہلے علم فلکیات انتہائی محدود تھا۔ زمین کو کائنات کا محور قرار دیا جا چکا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یونانی طرز فکر پر استوار اس کلیہ کے برخلاف سوچے۔ مگر کوپر نیکس وہ انقلابی سائنس دان تھا جس نے Heliocentric Theory کی ابتدا کی۔ اس نے ثابت کیا کہ زمین نہیں، بلکہ سورج پورے شمسی نظام کے درمیان میں ہے۔ زمین اور دیگر سیارے، سورج کے اردگرد چکر لگاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نئی بات تھی جس کا تصورتک بھی پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ سولہویں صدی عیسوی کی بات ہے۔

سترویں صدی میں جرمن ماہر فلکیات، Johannes Keplerنے کوپرنیکس کی دلیل کو بڑھا وا دیا۔ وہ پوری زندگی حساب اور فلکیات پر تحقیق کرتا رہا۔ ذرا اس دور میں اپنے خطے کو دیکھیے تو ہندوستان امیر ہونے کے باوجود علمی جمود کا شکار تھا۔ ہمارے بادشاہ عظیم الشان ذاتی قلعے، محلات اور فقید المثال مقبرے بنانے میں مصروف تھے۔ خواص اور امراء کا تحقیق اور سائنس سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ لا علمی کی انتہاء دیکھیے کہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سمندر کی تسخیر بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی زمینی رقبے پر قابض ہونا۔ جہالت کاعالم دیکھیے کہ ہم بحری جہازوں اور سمندر سے نابلد رہے۔

اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہی۔ سن 1500تک، مغرب میں Wheel lock musket بن چکی تھی۔ اور یہ ایک سپاہی کے لیے کافی تھی۔ یعنی مغرب نے اپنے اعتبار سے جدید ترین اسلحہ کی دوڑ میں اول حیثیت حاصل کر لی تھی۔ 1503ء میں ہی Da vinci، شہرہ آفاق تصویر، مونا لیزا، بنا چکاتھا۔

1508ء میں مائیکل اینجلو روم کے Sistine Chappel کی چھت پر اپنے لازوال فن کا آغاز کر چکا تھا۔ جو آج تک کسی بھی انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ 1510 میں جرمن سائنسدان Peter Henlein جیب میں رکھنے والی گھڑی بنا چکا تھا۔ 1565 میں سوئس محقق Conard Gesner سکے والی پنسل ایجاد کر چکا تھا۔

1590میں ہالینڈ کا ایک سائنسدان Zacharias Janssen، مائیکرواسکوپ تک بنا چکا تھا۔ اسی برس، ملکہ الزبتھ اول کے باتھ روم کے لیے پہلا فلش ٹوائلٹ بھی ایجاد ہو چکا تھا۔ بالکل اسی طرح Robert Boyle، کیمیکل خوائص کو میکینکل فلسفہ کے ساتھ منسلک کر چکا تھا۔ یہ اپنی طرز پر ایک بہت بڑا فکری انقلاب تھا جس نے کیمسٹری اور کیمیکلز کی دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ ڈالا۔

صدیوں پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ جس وقت مغرب، سائنس اور تحقیق کی بنیاد پر ترقی کرنے کی ابتدا کر چکا تھا۔ مگر برصغیر میں بادشاہ علم و سائنس سے دور تھے۔

ان کے پاس پورے زمانے کی دولت تھی۔ مگر فکری جمود اتنا تھا کہ کوئی نئی سوچ پنپ نہیں سکی۔ سونے، چاندی اور جواہرات نے ان کو دنیاوی لوازمات میں ایسا پھنسا دیا کہ وہ سائنس سے مکمل غافل رہے۔ آج ہم مغرب سے کتنا پیچھے ہیں، اس کے متعلق صرف قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ مگر ٹھوس بنیادوں پر کوئی بات کرنی شاید ممکن ہو۔

امریکا اور یورپ کی سائنسی ترقی سے ہم پانچ سو سے آٹھ سو سال پیچھے ہیں۔ یا شاید ایک ہزار برس کا فرق ہے۔ اب تو خیر ہم اقتصادی طور پر مکمل مفلوج ہیں۔ لہٰذا سائنسی تحقیق کے لیے سرمایہ ہی فراہم نہیں کر سکتے۔ جہاں تک ذہن کا تعلق ہے۔ آج بھی وہی بعداز مرگ جیسا جمود ہے جو صدیوں پہلے تھا۔

اس کی ایک واضح مثال خلاء (Space) میں ہماری عدم موجودگی ہے۔ عہد قدیم میں جو حیثیت پہلے سمندر کو حاصل تھی، وہ آج خلا کو ہے اور اس میں بھی مسلمان دنیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مجھے کوئی مسلمان مملکت کا نام بتا دیجیے۔ جس نے Space Technology پر عبور حاصل کرنے کی ہمت کی ہو۔ یا جنھوں نے جدید ترین سیٹلائٹ بھجوانے کی قدرت حاصل کی ہو۔

ہم سارا دن، امریکی استعمار کی بات کرتے ہیں۔ مگر یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کی اصل طاقت، سائنسی میدان میں بے مثال ترقی ہے۔ وہاں تواب تجارتی ادارے خلا میں سیارے بھیجنے کا کام شروع کر چکے ہیں۔ اس کی ایک مثال Alan musk کا خلائی سیٹلائٹس کا نظام ہے۔

یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے قومی اور انفرادی رویے کافی حد تک جہالت پر مبنی ہیں۔ ہم سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم اپنی فکری پسماندگی کو اپنی قوت بناتے ہیں۔

نتیجہ یہ کہ ہمارا پوری دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ سائنسی علوم سے دوری ہماری کم مائیگی کی بنیاد ہے۔ اور عقیدت کے غلاف میں لپٹی ہوئی سوچ ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ مگر قیامت یہ ہے کہ ہمیں بلکہ مسلم دنیا کو سائنس اور تحقیق سے کوئی دلچسپی نہیں۔ فرسودہ خیالات ہمارے اصل دشمن ہیں، وقت تو کب کا گزر چکا۔ مگر آج بھی سائنس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ تو شاید کوئی مثبت تبدیلی آ سکے؟