صوفی، میرے بچپن کا دوست ہے، پچیس سال سے امریکا میں مقیم ہے۔ سرجن ہے اور آسودہ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے خیالات حد درجہ سیدھے مگر انقلابی ہیں۔ کہتا ہے کہ امریکا میں بہت غربت ہے۔ جس کے پاس میڈیکل انشورنس نہیں، وہ اسپتال میں علاج کا بھاری بل ادا کرنے کے قابل ہی نہیں۔ انشورنس کا یہ ظالمانہ نظام اتنا مشکل ہے کہ غریب امریکی اچھے اسپتال میں جانے کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ ویسے پاکستان کے بھی یہی حالات ہیں۔ لیکن ایک فرق ہے۔
ہمارے مقتدر لوگ برطانیہ اور امریکا میں مہنگا ترین علاج بڑے آرام سے کروا لیتے ہیں۔ لہٰذا انھیں مقامی اسپتالوں کی زبوں حالی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات امریکا کی ہو رہی تھی۔ صوفی کرتا یہ ہے کہ اسپتال آئے ہوئے غریب لوگوں کا مفت علاج کرنا شروع کر دیتا ہے۔ دوائی کے پیسے بھی اپنی گرہ سے ادا کرتا ہے۔ بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ صوفی اپنے اسپتال کا سب سے مقبول ترین ڈاکٹر ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس کی انسان دوستی کی ایک مثال دے دیتا ہوں۔ کرسمس سے چند دن پہلے مقامی آبادی کے لیے سینٹا کلاز بن جاتا ہے۔ بچوں میں اٹھکیلیاں کرتا ہے۔ انھیں تحفے تقسیم کرتا ہے۔ میں نے پوری زندگی میں اس طرح کا درد دل رکھنے والا ڈاکٹر نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ مطالعہ کا بہت شوقین ہے۔ کرنٹ آفیئرز پر اس کی گرفت حددرجہ مضبوط ہے۔ پاکستان کی مٹی سے اسے دلی عشق ہے۔ آج سے ٹھیک دو ڈھائی سال پہلے پاکستان منتقل ہونا چاہتا تھا۔ اس موضوع پر اس سے اکثر بات ہوتی تھی۔ ویسے میں اسے ہمیشہ سمجھاتا تھا کہ ہمارے ملک میں اتنے سیدھے سادھے آدمی کا چلنا ناممکن ہے۔
ساٹھ سال سے اوپر عمر کا ہے لہٰذا اس کی اچھی عادات پختہ ہو چکی ہیں۔ لہٰذا بگڑنے کے قابل نہیں رہا۔ مگر ہمیشہ کہتا تھا کہ پاکستان اپنے خاندان کے ساتھ ضرور منتقل ہوگا۔ چند ماہ سے میں نے اس کے اندر ایک عجیب سی تبدیلی دیکھی۔ ایسے لگا کہ اس کے دل میں ملک سے لگاؤ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیلس میں بیٹھ کر ہر وقت پاکستان کی فکر کرتا رہتا تھا۔ اکثر مجھے فون کرکے پوچھتا تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ صرف اور صرف چند ماہ پہلے کی تبدیلی ہے۔ دو ماہ پہلے فون کرکے پوچھنے لگا کہ اگر میں پاکستان آؤں تو کیا زندہ سلامت واپس امریکا چلا جاؤں گا۔ میرے پاس اتنے سنجیدہ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ چند دن پہلے بتانے لگا کہ لائل پور آیا ہوا ہے۔
اس کے آنے کا مقصد صرف ایک ہے۔ اپنی ساری جائیداد فروخت کرنے کی غرض سے ملک میں آیا ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ فیصل آباد اور دیگر علاقوں میں اس کی معقول جائیداد ہے۔ صوفی کے اس جملے پر میں چونک گیا کیوں کہ اس کا ارادہ تو یہ تھا کہ لائل پور آ کر اپنے وسیع وعریض گھر میں رہے گا اور کسی نجی اسپتال میں غریب آدمیوں کی مفت سرجری کرے گا۔ مگر صوفی اب اپنی پوری جائیداد فروخت کرنے کے لیے شاید آخری بار اپنے وطن آیا ہے۔ اس کا دوسرا سوال مزید مشکل تھا کہ میں فروخت شدہ جائیداد کی رقم امریکا کیسے منتقل کروں گا۔ اس کا قانونی جواب تو میرے پاس کوئی نہیں تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ سے پیسے لیتے ہیں اور امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں آپ کو باآسانی پیسے پہنچا دیتے ہیں۔ یہ غیر قانونی کام پورے دھڑلے سے جاری و ساری ہے۔
دراصل سرمایہ کی قانونی یا غیر قانونی منتقلی کو کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ سرمایہ ہمیشہ محفوظ ممالک میں منتقل ہو جاتا ہے۔ صوفی کو یہی کہا کہ پیسے کی منتقلی کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھ سکوں کہ پاکستان سے مکمل ناطہ کیوں توڑ رہا ہے۔ وہ ملک جس کی محبت میں اس کی روح تک سرشار ہے، اس سے لاتعلقی کیسے عمل میں لائے گا۔ بہرحال ڈاکٹر آج کل اپنی جائیداد فروخت کر رہا ہے اور تھوڑے دن تک وہ اس ملک سے ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔ گھر، جو اس نے بڑی محبت سے اپنے خاندان کے رہنے کے لیے بنایا تھا، اس کو بیچنا کس قدر تکلیف دہ فیصلہ ہے، مجھے بخوبی اندازہ ہے۔
ذرا سوچیے کہ صوفی کا ذہن کیونکر تبدیل ہوا۔ بالآخر کون سے عناصر ہیں جن کی بدولت اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سچی باتیں لکھ رہا ہوں۔ دراصل ہمارا ملک ایک ایسا عقوبت خانہ بن چکا ہے جس میں آپ صرف سانس لے سکتے ہیں۔ آپ کے کسی قسم کے کوئی انسانی حقوق موجود نہیں ہیں۔ کوئی بھی طاقتور شخص، آپ کی جائیداد پر قبضہ کر سکتا ہے اور آپ اس کو کسی قیمت پر واپس نہیں لے سکتے۔ کیونکہ پورا ملکی نظام طاقتورلوگوں کی ٹھوکروں میں ہے۔ گزشتہ دو ڈھائی سال سے ملک میں جو ہنگامہ برپا ہے، اس کے منفی اثرات اب برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آ چکے ہیں۔
ہمارے ملک کے شہری اب اتنے تنگ پڑ چکے ہیں کہ ہر قیمت پر پاکستان سے جان، عزت اور اپنا پیسا بچا کر باہر جانا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی صاحب ثروت انسان یہاں رہنا محال سمجھتا ہے۔ نوجوان نسل تو خیر اب اتنی باغی ہو چکی ہے کہ زندگی خطرے میں ڈال کر، ہرناجائز طریقے سے ملک سے باہر جانے کے لیے تیار ہے۔ اس دو ڈھائی سال میں نہ ریاست کی فتح ہوئی ہے، اور نا ہی کسی سیاسی جماعت کی۔ گہری نظر سے دیکھیں تو اس میں لوگ اپنا مقدر ہار چکے ہیں۔ معاشی بحالی کا ورد کرنے والے سیاسی لوگ، اعداد و شمار سے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی ناکا م کوشش کرنے میں مصروف ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پورا ملک معاشی جمود کا شکار ہو چکا ہے۔
جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے ان میں سے اکثریت نے بینکوں سے نکلوا کر اسے اپنے گھروں میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ حد درجے معقول سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص یا ادارہ ہمیں ترقی کی شاہراہ پر واپس لا سکتا ہے۔ اس کا جواب مکمل نفی میں ہے۔ کیونکہ ہمارا مقتدر طبقہ اپنے اہل وعیال کو بڑے آرام سے مغرب میں منتقل کر چکا ہے۔ اکثریت کے ویزے تیار ہیں ملک چھوڑنے میں ایک لمحہ ضایع نہیں کریں گے۔ جو غدر گزشتہ ڈھائی سال میں حددرجے غیر معقول رویے سے پیدا کیا گیا ہے، کوئی بھی اس کی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ صورت حال حد درجے غیر معمولی ہے۔ مگر قیادت کے دل میں وہ انسانی جذبہ ہی نہیں جس سے کوئی واپسی کا راستہ نکل سکتا ہے۔
ایک کروڑ کے قریب تارکین وطن اس صورتحال سے حددرجہ متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں تو خیر ناہموار حالات میں رہنے کی عادت ہو چکی ہے۔ مگر تارکین وطن اپنے ملک کو مغرب کی ترقی یافتہ کسوٹی پرپرکھتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ، بھرپور معاشی ترقی، انسانی حقوق کی فراہمی، انصاف کا بے داغ نظام اور مضبوط طبقے کا احتساب، پاکستان میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ تارکین وطن بھول جاتے ہیں کہ ہمارے خواب زبردستی چھین لیے گئے ہیں۔ ترقی تو بہت دور کی بات، ہمیں زوال سے بچانے والا کوئی نہیں۔ حکومتی سطح پر اس قدر دروغ گوئی کی جارہی ہے کہ لوگ ٹی وی چینلز پر اعتبار نہیں کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی مکمل سچ نہیں بول رہا۔ وہاں بھی ریٹنگ اور اس سے ملنے والے معاوضے پر نظر ہے۔ خبروں کو توڑنا، ہر واقعہ کو سنسنی خیز طریقے سے بیان کرنا اور لگائی بجھائی اب سوشل میڈیا کے اکثر لوگوں کا شعائر بن چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ افواہیں، حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں۔ سچ پر یقین کرنا تو دور کی بات اب جھوٹ پر اندھا دھند اعتماد نظر آ رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا تو ویسے ہی کمزور ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ کوئی بھی طاقت باہر سے آ کر ہمارے حالات کو بہتر نہیں کر سکتی۔ اگر کرنا ہے تو ہمیں نے کرنا ہے۔ شاید میری گزارش آپ کو غیر حقیقی لگے لیکن قومیں، مشکل حالات سے گزرتی ہیں۔ مصائب کی بھٹی انھیں جلابخشتی ہے اور قومیں کندن بن کر سامنے آتی ہیں۔ ویتنام، چین، متحدہ عرب امارات اور جنوبی کوریا ہمارے سامنے روشن مثالیں ہیں۔
مایوسی کے عنصر کو بار بار ذہن سے جھٹکتا ہوں۔ اس لیے کہ بھرپور یقین ہیں کہ ہم خراب حالات میں سے نکل کر یقیناََ آگے بڑھیں گے۔ مگر عجیب سی بات ہے میں صوفی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ امریکا سے پاکستان منتقل ہو جائے۔ اس لیے کہ میری خوش گمانی مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ صوفی ٹھیک ہی کر رہا ہے!