Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sirf Fareb Hai

Sirf Fareb Hai

جب بھی کسی ترقی یافتہ ملک سے واپس اپنے دیس میں آتا ہوں تو ایک خاموشی، سکوت اور شکستگی کا شکار ہو جاتا ہوں۔ دنیا کا ہر ملک عوامی فلاح اور ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ مگر ہمارے ملک پر ایسا کالا جادوکیا گیا ہے کہ شکستگی اور تنزلی کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔

کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ پاکستان قائم کرنے کے لیے جو دعوے اور وعدے سیاست دانوں اور برطانوی راج نے باہمی رضا مندی سے کیے تھے ان کاعوامی بہبود سے بلکہ عام لوگوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یا ان کا آپس میں منفی اور متضاد ربط ہے۔

یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں ہے کہ محمد علی جناح کے کہے ہوئے کسی بھی فرمان پر معمولی سا بھی عمل نہیں کیا۔ قائداعظم جیسا مدبر انسان، لحد میں پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ سے بے چین ضرور ہوتا ہوگا۔

کون سا ایسا سیاسی فریب ہے جو ہمیں نہیں دیا گیا۔ کون سا ایسا سیاسی وعدہ ہے جو آج تک وفا کیا گیا۔ سکندر مرزا، غلام محمد، جسٹس منیر، ایوب خان، جنرل یحییٰ، ان کی روحیں آج بھی پوری قوت سے اس خطہ پاک پر قابض ہیں۔ دعوے سے عرض کر سکتا ہوں کہ سڑکیں بنا کر یا اسلام آباد اور لاہور کو سیمنٹ کا جنگل بنا کر اپنے آپ کو ترقی یافتہ نہیں کہا جا سکتا۔

مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا ملک اب عوامی فلاح کے لیے کوئی بھی راستہ اپنانے کی استطاعت رکھتا ہے۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور مکمل فراڈ اب ہماری زندگی معاشرے اور اداروں پر چھا چکا ہے۔ عدالتوں میں انصاف نہیں، انتظامیہ سے لوگوں کی توقعات کے مطابق کوئی کام نہیں، اداروں کی چپقلش اور سیاست دانوں کی ذہنی پسماندگی کی بدولت ملک کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں۔

ایک سروے کے حساب سے روزانہ پاکستان میں ان گنت لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ ہر موت کے پیچھے ناانصافی، بے قدری اورظلم کی تکلیف دہ کہانیاں ہیں۔ سب سے پہلے معیشت پر بات کرنی اہم ہے۔

ہر سیاسی اور غیر سیاسی وزیراعظم یا رہنما اقتدار میں آنے کے بعد ایسی شاندار تقریر کرتا ہے کہ لوگوں میں جھوٹی امید کا چراغ جلنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد ہر ایک کو معلوم ہو جاتا ہے کہ دقیانوسی نظام نئے حاکم کو چبا کر نگل چکا ہے اور معاملات جوں کے توں ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کوئی سنجیدہ یا بغیر تعصب کے سوال بھی پوچھنا چاہیں تو آپ کو ملک دشمنی کا تمغہ عطا کر دیا جاتا ہے۔

آپ کی جان خطرے میں آ جاتی ہے اور آپ کے اردگرد کے لوگ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ جنرل ضیاء الحق کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں سے جو ملکی تباہی مچی، اس کو ناپیپلز پارٹی ختم کر سکی اور نا ہی مسلم لیگ ن میں وہ استطاعت تھی جس میں وہ وقت کے پہیے کو واپس لا سکے۔ زیادہ دور یا بہت دیرینہ ماضی کی بات کرنا عبث ہے۔ مگر ضیاء الحق کا دور تو اچھی طرح یاد ہے۔

پاکستان کی سب سے مقبول قومی جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ جو سفاکانہ سلوک کیا گیا ہے وہ کسی بھی قائد کے لیے شرم ساری کا باعث بن سکتا ہے مگر آج تک ماضی کی پیپلزپارٹی کے ساتھ ظلم کرنے پر کسی اہم شخصیت یا ادارے نے معافی نہیں مانگی۔

1988کے الیکشن کے بعدبے نظیر کی شخصیت میں وہ امید کی کرن معلوم دکھائی دیتی تھی شاید یہ عظیم خاتون ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ محترمہ کو ان کے قریبی عزیزوں نے اس شاہراہ پر گامزن کروا دیا جس میں دولت کی چکا چوند تو تھی مگر حکومت کی سطح پر عوامی استحصال سے نجات نہیں مل سکی۔

امید کا یہ ستون گرا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے بعد آنے والا وزیراعظم کچھ نہیں کرسکا۔ وہی پٹوار کی چیرہ دستیاں، وہی تھانوں کے عقوبت خانے اور وہی عدالتوں کی منڈیاں جاری و ساری رہیں۔ ہماری قوم کے قیمتی دس سال برباد کر گئی۔ نا کوئی نیا ڈیم بنا، نا کوئی مستحکم صنعتی ترقی ہو پائی اور نہ ہی صحت اور تعلیم میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی۔

قیامت یہ ہے کہ جب عنان حکومت پرویز مشرف کے ہاتھ میں آئی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں نے لندن پلان کے تحت ایک چارٹر آف ڈیموکریسی دستخط کیا جس پر ایک لمحے کے لیے بھی عمل نہیں ہو پایا۔ ابھی تحریر کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ تمام سیاسی فریقین مقتدرہ کے نزدیک آنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح کام کرنے لگے۔

پرویز مشرف کو حکومت سے نکالنے کا منصوبہ بھرپور طریقے سے واشنگٹن اور لندن میں طے ہوا۔ چیف جسٹس کی معزولی کو ایک ہتھیار بنا کر پیش کیا گیا۔ ویسے اس کے بعد جو کچھ ہوا اور عوام کے ساتھ جس سطح کا ظلم ہوا اس پر کسی نے آج تک شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔

پاکستان میں سیاست اور اخلاقیات کا کوئی باہمی تعلق نہیں ہے۔ اس اخلاقی تنزلی سے ادارے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پہلے ایک کٹھ پتلی کو دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور کبھی دوسرے کے خلاف ایک بے جان مہرے میں جان ڈالتے ہیں۔ کھیل وہی کا وہی ہے۔ نا عوامی ووٹ کی کوئی طاقت ہے نا عوامی شعور کو کسی قسم کی اہمیت حاصل ہے۔

اس کم مائیگی کو چھپانے کے لیے طاقتور حلقوں نے دینی سیاسی حلقوں کو جواز کے طور پر پیش کیا اور سوال اٹھانے والے کو گردن زنی کا حکم سنایا گیا۔ کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولا اور اپنی باری آنے پر ناجائز دولت کمانے کی بھرپور کوشش نہیں کی۔

کم از کم طالب علم کے پاس تو کسی بھی سیاسی جماعت کے دفاع کے لیے کوئی بھی دلیل نہیں ہے۔ آج جو عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہی سب کچھ ماضی میں نواز شریف کے ساتھ ہوتا رہا۔ اور یہ بھی نابھولیے کہ زرداری صاحب گیارہ سال کی قید مسلم لیگ ن کے قائدین کے بنائے ہوئے جعلی مقامات میں بھگتتے رہے۔

زرداری صاحب کی جوانی جیل کی نذر ہوگئی اور اس دن سے لے کر آج تک وہ صحت مند زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔ مطلب یہ کہ یہاں ہر کوئی دوسرے کو استعمال کرتا ہے۔ پھر فائدہ اٹھانے کے بعد اسے کوڑے دان میں مقید کر دیتا ہے۔

موجودہ سیاست دانوں میں سے ہر ایک کو بارہا پاتال میں بطور سزا دفن کیا گیا۔ اور ضرورت پڑنے پر باہر نکال کر ایک دوسرے کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ زوال اب اس سطح کا ہے جس میں ہمارا پورا ملک ایک ناکام ریاست کی شکل بن چکا ہے۔ یاد رکھیے کہ موجودہ خارجہ پالیسی اور اندرونی حکمت عملی، ملک کی جغرافیائی ساخت کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔

دل نہیں چاہ رہا کہ 2024کے الیکشن پر کسی قسم کی بات کروں۔ ہر صاحب نظر کو معلوم ہے کہ الیکشن سے پہلے کیا ہو رہا ہے، الیکشن کے دوران کیا ہوگااور اس کے بعد کیسے ایک کمزور سیاسی بساط بچھا دی جائے گی۔ یقین فرمایئے اتنے سنگین مذاق پر اب دکھ بھی نہیں ہوتا اس لیے کہ غم کا اظہار کرنے سے معمولات اور فیصلہ سازی میں کسی قسم کا کوئی تعطل نہیں آتا۔ نا دست قاتل میں کوئی نرمی آئی ہے اور نا ہی بے گناہوں کے خون سے مزین مٹی کوئی انقلاب لا سکی ہے۔

شاید انقلاب کا لفظ ہمارے خطے کے لیے نامناسب ہے۔ یہاں تو کسی کو بنیادی سہولتیں ہی مل جائیں تو وہ اسے انقلابی تبدیلی کہتے ہوئے نہیں تھکتا۔ صاحبان زیست، کیا سستی بجلی اور سستی گیس کی فراہمی کوئی انقلابی قدم ہے۔ یہ تو لوگوں کا بنیادی حق ہے جسے عجیب طریقے سے غصب کیا گیا ہے۔

کیا مہنگائی کو ریاست کی طاقت سے روکنا ضروری نہیں ہے۔ کیا عدالتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور انصاف کی فراہمی عوام کا بنیادی حق نہیں ہے۔ پر نہیں صاحب یہاں کچھ نہیں ہوگا۔ لہٰذا خوف کی اس فضا میں سانس لینا سیکھئے۔ ہر جعل سازی پر خوشی اور حیرت سے تالیاں بجائیں اور پھر خاموش ہو جائیں۔

اگر یہ نہیں کر سکتے تو خاموشی سے دیار غیر میں بسنے کی کوشش کریں۔ جو بذات خود ایک کٹھن کام ہے۔ کچھ بھی نہیں لکھنا چاہتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس خطہ حیرت پر لکھنے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔