مسئلہ سیاست کا ہے ہی نہیں۔ بلکہ اس مشکل کا تو کار زار سیاست سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ اصل مصیبت تو وہ توقعات تھیں جو موجودہ وزیراعظم نے عہدہ سنبھالنے سے تقریباً دس برس پہلے عام لوگوں کے ذہنوں میں نقش کر ڈالی تھیں۔ اس امر سے بھی کوئی انکار نہیں کہ عوامی جلسوں میں تقریر کرنا عمومی طور پر غیرسنجیدہ عمل ہوتا ہے۔
ہر ایک کو علم ہوتاہے کہ جلسوں میں تقاریر عوام کا دل لبھانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ یہ سبز باغ دکھانے کا ایک عمل ہے۔ اس میں سچائی کا عنصر قدرے کم ہوتا ہے۔ بلکہ جھوٹ قوی تر ہوتا ہے۔ یہ کلیہ تمام سیاست دانوں کے لیے یکساں ہے۔ اس معاملے میں کسی سیاستدان میں انیس بیس کا بھی کوئی فرق نہیں۔ بلکہ ایک سر پیٹنے والی یکسانیت ہے۔
خان صاحب کے معاملے میں ایک نکتہ قدرے منفرد تھا۔ کھیلوں میں دیو مالائی مقام، سماجی بہبود کے بہترین کارنامے، تعلیمی ادارے قائم کرنے کی لگن نے عام آدمی کے دل میں ایک امید پیدا کر دی تھی، کہ یہ شخص جو کچھ بھی کہہ رہا ہے۔
یہ اس کو عملی طور پر کرنے کی استطاعت بھی رکھتا ہے۔ اس میں قومی مقدر سنوارنے کی دھن موجود ہے۔ متوسط طبقے کی اکثریت، پڑھے لکھے لوگوں کی واضح ترین کثیر تعداد، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، آسودہ حال لوگ یعنی تمام افراد خان صاحب کے انقلابی مسیحائی کردارکے گرویدہ ہو چکے تھے۔ ہر ایک کوبھرپور گمان تھا کہ ملک کی ستر برس کی سنگین غلطیاں، صرف اور صرف خان صاحب، انتہائی سرعت سے ٹھیک کر دینگے۔ اس زرخیز سوچ کے پیچھے ایک عنصر یہ بھی تھا کہ اعلان کے مطابق عمران خان کے پاس منجھے ہوئے تجربہ کار افراد کی ایک ٹیم بھی ہے جو ملکی بگاڑ پر گہری نظر رکھتی ہے۔
ان میں ان مسائل کو درست کرنے کی اہلیت بھی موجود ہے۔ الیکشن سے چھ سات ماہ پہلے، متحارب سیاسی جماعتیں نزع کے عالم میں تھیں۔ جناب شہباز شریف صاحب تو تقریر کرنے تک سے کتراتے تھے۔ بڑے میاں صاحب دور ابتلا کے عروج پر تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت عوامی ساکھ کھونے کی بدولت ڈانواں ڈول تھی۔ تحریک انصاف کے مخالف فریقوں کا خیال تھا کہ اب سیاسی میدان ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور ان کے اندر ایک خوف کی سی کیفیت تھی۔ 2018 کا الیکشن ہوا۔ تو تحریک انصاف بہرحال باقی سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ گئی۔
پنجاب جو کہ اصل میدان سیاست ہے، وہ بھی عمران خان کے ہاتھ آ گیا۔ اس طرح تحریک انصاف کو سوائے صوبہ سندھ کے ہر جگہ حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ یہ نادرموقعہ، حد درجہ کم سیاسی جماعتوں کے نصیب میں آتا ہے۔ بہر حال ملک میں پی ٹی آئی کے ووٹر کے دل میں یکسو اطمینان تھا کہ اب ستر برس کے تاریخی زنگال اور غلاظت کی ایسی صفائی ہو گی کہ ملک میں خوشحالی کا سورج چمک اٹھے گا۔ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کو وسوسہ تھا کہ اب یوم حساب تو سر پر آن کھڑا ہوا ہے، مگر یہ سب کچھ نقش برآب ثابت ہوا۔
یہ کیفیت پہلے نوے دن تک مکمل طور پر قائم رہی۔ اس دوران خان صاحب نے اپنی انتظامی، سیاسی اور کور مشاورتی ٹیم تشکیل دینی تھی۔ جو انھوں نے تقریباً مکمل کر لی۔ اسی اثناء میں سینئر ترین بیورو کریٹس میں بے چینی شروع ہو گئی کیونکہ خان صاحب نے ابتدائی سطح پراپنی ٹیم تشکیل دینے میں میرٹ کے عنصر کو بھرپور طریقے سے نظر انداز کر دیا۔
بلکہ کمال عنصر تو یہ کہ سابقہ حکومتوں کے چہیتے ترین افراد کو کلیدی عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ تحقیق پر معلوم یہ ہواکہ خان صاحب کو اس طاقت ور ترین طبقہ کی جزئیات کی سمجھ بوجھ ہی نہیں تھی جو ملک کو حقیقت میں چلاتے ہیں۔ اس لا علمی کا فائدہ جس طرح خان صاحب کے چند مہربانوں نے اٹھایا۔ اس سے ان کی انتظامی ٹیم حد درجہ عامی سے افراد پر مشتمل ہو گئی۔
سیاسی ٹیم میں جو جفا کش شامل کیے گئے۔ ان میں سے اکثریت قدیم ترین بلکہ حنوط شدہ چہرے تھے۔ اہم ترین وزراء کسی انقلابی فلسفہ کے حامی نہیں تھے۔ بلکہ اسٹیٹس کو کی پیداوار تھے۔ جس بدبودار نظام نے انھیں پروان چڑھایا تھا، وہ کیونکر اس کو ختم کرنے کی خواہش رکھ سکتے تھے۔ شعوری اور عقلی طور پرجس ٹہنی پر بیٹھے تھے۔ اس کو کاٹنے کی احمقانہ حرکت یہ لوگ کیسے کر سکتے تھے۔ یہیں سے زوال اور جگ ہنسائی کاایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ساڑھے تین سال بعد ایک ٹھٹھہ بن چکا ہے۔
خان صاحب صرف اور صرف وزیراعظم ہاؤس کے کمیٹی روم یا چند سرکاری جلسوں تک محدود ہو چکے ہیں۔ انھوں نے جو بنیادی ترین غلطیاں کی تھیں آج وہ اژدھے کی شکل اختیار کر کے ان کی حکومت کو ہڑپ کر چکی ہیں۔ ہر ضمنی الیکشن یا بلدیاتی الیکشن میں مسلسل ناکامی، ثبوت کے طور پر واضح ہوتی جا رہی ہے۔
مگر قیامت یہ ہوئی کہ ان کی انتظامی ناتجربہ کاری کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی انتہائی ادنیٰ کوشش کی گئی، جو آج بھی جاری ہے۔ اگر یہ قیامت خیز معاملہ، خان صاحب سمجھ جاتے تو غیر مقبولیت کا سفر شاید اتنا روا نہیں ہوتا۔ مگر حقائق کے بالکل برعکس، خان صاحب کو ان کے مصاحبین نے یقین دلا دیا کہ ان سے کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ یہ یقین مصمم کرنے کے بعد آج تک خان صاحب کو اصل معروضی غلطیوں کے متعلق پتہ نہیں چلنے دیا گیا۔ یہ تحریک انصاف کے لوگوں کا قومی سیاست میں ایک ایسا خوفناک فعل ہے جس کے اثرات کا وثوق سے کہنا اس وقت از حد مشکل ہے۔
ملکی سیاست کے معروضی حالات دیکھ کر متعدد عناصر جنم لیتے ہیں۔ اپوزیشن کے خشک دھانوں میں پانی کی تراوٹ لگ چکی ہے۔ کے پی کے میں مولانا اپنی تمام تر کوتاہیوں کو چھپانے میں حد درجہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان پر سیاسی جلسوں میں لگائے گئے الزامات اب عامیانہ سے لگتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا تو خیر اب کسی بھی ادارے کے بس کی بات ہی نہیں رہی۔ کسی سیاسی بحث میں جائے بغیر عرض کروں گا کہ آہستہ آہستہ خان صاحب نے اپنے دوستوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ اور اپنے دشمنوں سے قربتوں کے سلسلے شروع کر دیے۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اب ہوا کیا ہے۔ سابقہ حکومتوں کی سی ٹیم کو خان صاحب نے اپنی پسندیدہ ٹیم قرار دے دیا۔ وہ لوگ جن کی وفاداریاں اور شخصی استحکام، پرانی حکومتوں سے وابستہ تھا۔ جناب وزیراعظم نے چن چن کر ان کو اپنی آنکھ کا تارا بنا لیا۔ حد تو یہ ہے کہ خان صاحب کے نزدیک ترین انتظامی اکابرین نے چند حد درجہ ادنی انتظامی فیصلے کر ڈالے۔ اور اس طرح پوری حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کر ڈالا۔ سیکڑوں مثالیں دے سکتا ہوں۔ لوگوں کے نام بھی معلوم ہیں۔ گر فائدہ کوئی نہیں۔ کیونکہ آج بھی یہ ایمان دار ترین شخص کو شیطان ثابت کرسکتے ہیں۔ اور شیطان کو فرشتہ بنا سکتے ہیں۔ خان صاحب کو انتظامی امور میں شدید ناتجربہ کاری کا سامنا ہے۔ لہٰذا وہ ان لوگوں کی باتوں میں گھر چکے ہیں۔
کے پی کے کا بلدیاتی الیکشن، تحریک انصاف کی حکومت کے لیے صور اسرافیل سے کم نہیں۔ پنجاب میں بلدیاتی معرکہ، مسلم لیگ ن کے حق میں جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ آنے والے قومی الیکشن میں کیا ہو گا۔ اس غیب کا علم تو خیر کسی کے پاس نہیں ہے۔ مگر قیافہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف شدید مشکلات کا سامنا کرے گی۔
یہ بات قدرے درست ہے کہ مہنگائی، کووڈ کے بعد ایک بین الاقوامی مرض بن چکی ہے۔ جید ترین معاشی ماہرین پیٹتے رہے کہ آئی ایم ایف کے پاس بالکل نہیں جانا چاہیے۔ حکومتی اخراجات کو حد درجہ کم کرنا چاہیے۔ سرکاری سطح پر مکمل سادگی کا دور دورہ ہونا چاہیے، مگر اس طرح کا کوئی خوش نما واقعہ برپا نہیں ہو پایا۔ ابھی اٹھارہ ماہ باقی ہیں۔ دیکھیے کہ آسمان کیا کیا رنگ بدلتا ہے۔