محمد بخش نول اپنی فانی زندگی میں وہ عظیم تجزیاتی کام کر رہے ہیں جو لوگوں کی اکثریت شاید دس بارہ زندگیوں میں کرنے سے قاصرہو۔ بہاولپور میں مقیم اس شخص نے وہ علمی کارنامہ انجام دے ڈالا جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
اس دور میں جب لکھنے والے سیاست اور سیاستدانوں کے سوا سنجیدہ موضوعات سے اجتناب کرتے ہیں، نول صاحب پورے پاکستان کے ایک ایک شہر، قریہ، قصبے اور دیہات میں خود گئے۔ دشوار گزار ترین سفر کیے اور ہر اعتبار سے جامع معلومات اکٹھی کی۔ حیرت ہوتی ہے کہ حد درجہ محدود وسائل کے باوجود، اس انسان کے تجسس اور جذبے نے، اسے چین سے بیٹھنے نہ دیا بلکہ وہ مسلسل سفر میں ہی رہے۔
حد تو یہ ہے کہ پختہ عمر بھی ان کا علمی راستہ نہ روک پائی۔ تاریخ مخزن پاکستان تین ضخیم جلدوں پر محیط ہے۔ جلد اول چند ماہ پہلے آ چکی تھی اور اس پر طالب علم نے کالم، تحریر بھی کیا تھا۔ مگر چند دن قبل اس کتاب کی جلد دوم اور جلد سوئم بھی موصول ہوئی۔ قلم فاؤنڈیشن کو اعزاز حاصل ہے کہ، اس نے ان تمام جلدوں کو حد درجہ محنت سے شایع کیا۔ یہاں عبدالستار عاصم صاحب کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ وہ قلم فاؤنڈیشن کی روح رواں، شائستہ اور نفیس انسان ہیں۔
ویسے اتنی ضخیم کتابوں پر کچھ لکھنا حد درجہ مشکل کام ہے۔ مگر کچھ نہ لکھنا بھی غلط ہوگا۔ دونوں جلدوں سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ بلوچستان کے عظیم شہر لورالائی سے شروع کرتا ہوں۔ جہاں مجھے دو برس ڈپٹی کمشنر رہنے کا نادر موقع ملا۔ آج بھی اس خطے کے لیے دل میں محبت اور احترام موجود ہے۔ نول صاحب، لورالائی کے متعلق رقم دراز ہیں۔
لورالائی کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔ 1383 میں جب امیر تیمور نے قندھار فتح کیا تو اس کے پوتے پیر محمد نے آگے بڑھ کر لورالائی پر اپنی عملداری قائم کر لی اور ڈیڑھ صدی تک تیمور خاندان کا اقتدار رہا۔
1470میں ہرات کے حکمران سلطان حسین مرزا کے ہاتھ میں لورالائی کا اقتدار آ گیا۔ 1480میں امیر شجاع الدین نے ذوالنون کو یہاں کا حاکم مقرر کیا۔ 1505 میں شاہ بیگ خان اپنے والد کی جگہ پر برسراقتدار آیا تو اس نے کابل کی فتح کے بعد ہندوستان کا رخ کیا اور واپسی پر سخی سرور کے راستے آیا اور تھل چوٹیالی کو فتح کیا۔ بابر نے بھی دکی کے نزدیک ایک ندی کے ساحل پر پڑاؤ کیا۔ 1545میں میر سید علی دکی کا حکمران تھا، 1559 تک قندھار دہلی سلطنت کے ساتھ تھا۔
1622میں صفوی حکمرانوں نے پشین اور دکی میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس وقت شیر خان ترین سردار تھا، گورنر قندھار علی مروان خان نے دکی پر حملہ کرکے دکی اور چوٹیالی پر قبضہ کر لیا۔ شاہ جہاں کے دور میں شہزادہ داراشکوہ ایک لشکر لے کر دکی اور پشین کے راستے قندھار پر حملہ آور ہوا لیکن حملہ ناکام رہا اور وہ واپس دہلی چلا گیا۔ 1747کے بعد احمد شاہ ابدالی نے تھل چوٹیال اور دکی کو فتح کرکے خراج وصول کیا۔
1826میں درانی حکومت بار کزئی حکمرانوں کے پاس چلی گئی، 1879 تک علاقہ لورالائی دوست محمد کے تسلط میں رہا۔ 25مئی 1879 کو دکی اور تھل چوٹیالی پر انگریزوں نے اقتدار حاصل کر لیا۔ بیسویں صدی کے شروع میں تحریک آزادی کا آغاز ہو چکا تھا۔ 1936 میں مولانا ظفر علی خان لورالائی تشریف لائے، ان کے ساتھ غلام محمد ترین اور قاضی محمد عیسیٰ تھے۔ یہ لوگ چوہدری مولابخش کے مہمان تھے۔
مسجدوں میں خطاب کیا اور مسلم لیگ کی شاخ قائم کی۔ سردار یار محمد خان اور حاجی صورت خان مسلم لیگ کے ابتدائی قائدین تھے۔ زرک خان لورالائی کے حریت پسند لیڈر تھے، انھوں نے انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔ ان کی گرفتاری پر اس زمانے میں ایک لاکھ روپے انعام تھا۔ جو آج2016میں پچاس کروڑ کے برابر ہے لیکن پھر بھی انگریز حکومت گرفتار نہ کر سکی۔ یہ مجاہد جولائی1966میں اللہ کو پیارا ہوا۔
اب بیان کچھ شکر گڑھ کا ہو جائے۔ شکر گڑھ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں روایت ہے کہ یہاں پر ہندو راجہ کی دوبیٹیاں تھیں، ان میں ایک کا نام شکری اور دوسری کا نام گری تھا۔ ایک نالہ بیئس کے مشرقی جانب اور دوسری مغربی جانب رہتی تھی۔ بعدازاں دونوں موجودہ مقام پر اکٹھی رہنے لگی۔ اس وجہ سے اس بستی کا نام شکری گڑی مشہور ہوا جو شکر گڑھ میں تبدیل ہوگیا۔ دوسری روایت کے مطابق یہاں پر نیشکر بکثرت پیدا ہوتا تھا جس سے شکر اور گڑ کی بڑی منڈی بن گئی، وہیں شکر گڑ سے شکر گڑھ نام مشہور ہوا۔
مفتی غلام سرور قریشی تاریخ مخزن پنجاب میں لکھتے ہیں۔ ضلع گورداس پور میں بھی ایک قصبہ اور پرگنہ کا صدر مقام ہے۔ شکر گڑھ اصل میں ایک قلعہ کا نام ہے۔ جو پہلے کوٹلی کہلاتا تھا۔ یہ قلعہ سردار حقیقت سنگھ نے بنوایا تھا جو سکھ تسلط کے آغاز میں قابض ہوا تھا، پھر سردار دان سندیانوالیہ کی جاگیر میں شامل تھا۔
1810 میں اس علاقے کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی سلطنت میں شامل کیا، راجہ رنجیت سنگھ کی تین بیویوں کا تعلق شکر گڑھ سے تھا۔ ایک رانی مہتاب کور کا تعلق بھابھڑہ گاؤں سے تھا، دوسری بیوی راج دیوی کا تعلق دونہرا سے تھا، تیسری بیوی رانی دیوی گاؤں انتووالی کی رہائشی تھی۔
شکر گڑھ کے معروف شاعر، حکیم محمد ارشد کا ذکرکچھ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ادب میں حکیم محمد ارشد شہزاد محلہ رشید پورہ کا نمایاں نام ہے۔ پنجابی کی کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کر چکے ہیں۔ ان کی کتب کا گورمکھی پنجابی میں ترجمہ چھپ چکا ہے۔ ان کی کتب کی پٹیالہ سے لے کر اوٹاوا کینیڈا تک مانگ ہے۔ ان کاایک مشہور معروف شعر ہے۔
کدھرے ارشد مینوں چھاں نہ لبھی ائے
سر تے دھپ دا تنبو تان کے بہ گئے آں
ایک اور جگہ اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جتھے مسلک دی پابندی نہ ہووے
انج دی اک مسیت بنانی چاہنا واں
کے پی کے شہر گڑھی حبیب اللہ کا ذکر ذرا سنئے۔ یہ قصبہ حبیب اللہ خان سواتی نے آباد کیا تھا۔ اسی کے نام پر گڑھی حبیب اللہ نام رکھا گیا۔ جو 1845 میں مظفر آباد کی جنگ میں مارا گیا۔
اس نے گڑھی حبیب اللہ کے گرد ایک چھوٹا قلعہ بنایا تھا جسے سکھ حکومت نے فتح کرکے اسے اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ انگریز حکمرانوں نے سمندر خان نامی شخص کو اس قصبے کا حاکم بنا دیا اور اسے نو ہزار ایک سو بارہ روپے کی جاگیر عطا کی، وہ آنریری مجسٹریٹ بھی تھا۔ 1901 میں یہاں کا جاگیردار خان محمد حسین خان تھا، 1871 میں گڑھی حبیب اللہ کی آبادی ایک ہزار چار سو تیس افراد پر مشتمل تھی۔ ایک ہی بازار تھا جس میں ہندوؤں کا کاروبار تھا۔
مسلمانوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1928میں ضلع سکھر خلافت کمیٹی کے صدر مولانا ابوالحسن تاج محمود امروٹی اور جنرل سیکریٹری سید محبوب علی شاہ تھے جب کہ سکھر خلافت کمیٹی کے صدر وڈیرہ یار محمد بھٹو اور سیکریٹری جنرل حکیم عبدالحق تھے۔ اس دوران مہاتما گاندھی پہلی بار 1922 اور دوسری بار1929 میں سکھر آئے اور جلسوں سے خطاب کیا۔ سکھر میں مسلم لیگ 1941 میں قائم ہوئی جس کے صدر میاں رسول بخش اور جنرل سیکریٹری سید محبوب علی شاہ تھے۔
1946کے الیکشن میں سردار قیصر خان بزدار، آغا بدر الدین درانی، رحیم بخش سومرو، پیر زادہ عبدالستار اور سردار علی گوہر خان مہر مسلم لیگ کی طرف سے سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 14اگست 1947کو قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں کی اکثریتی آبادی بھارت منتقل ہوگئی، ان کی جگہ مسلمان بے گھر ہو کر سکھر میں آباد ہوئے، اس نقل مکانی میں دونوں اطراف کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔
محمد بخش نول صاحب نے جس طرح ہمارے عظیم ملک کے قریہ قریہ کو اس عظیم علمی نسخہ میں محفوظ کیا ہے، وہ بذات خود ایک نایاب امر ہے۔ صرف خدا ہی انھیں اس کاوش کا انعام دے سکتا ہے۔ اس علم دشمن معاشرے نے ان کی کیا قدر کرنی ہے۔