Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Thora Thora Yaad Hai (2)

Thora Thora Yaad Hai (2)

بارہ سال کی عمر میں 1972 کا سال میرے لیے حددرجے مشکل ہوگیا۔ گھر سے ہاسٹل میں رہنے کاذہنی دباؤ، ہر کام خود کرنے کی مشقت اور بھرپوراحساس ذمے داری سے تعلیم حاصل کرنا۔ ایسے معلوم ہوتا کہ آٹھویں کلاس کبھی مکمل ہو ہی نہیں پائے گی۔

مگر ایک مضبوط دینی استقامت نے میرے لیے ہر معاملہ نرم کر ڈالا۔ آٹھویں کلاس میں سب سے جونیئر ہونے کی بدولت تمام بچے فوجی طرز کی سزا پاتے رہتے تھے۔ مگر مجھے ایک اور دشواری سے گزرنا پڑا۔ میرا ایک سینئر مجھ سے حد درجہ مشکل رویہ رکھتا تھا۔

یاد ہے کہ روزے کی حالت میں اس نے مجھے گراؤنڈ کے چھ چکر لگوائے اور آخر میں تقریباً بے ہوش ہوگیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بچپن دیکھ ہی نہیں سکا جو معصوم بچوں کے وجود کونرم و نازک پھول کی طرح سنبھالتا ہے۔

مگر قدرت نے مجھے ذہنی اورجسمانی طور پر اتنی استطاعت عطا فرما دی کہ میرے لیے علم مسخر ہوتا چلا گیا۔ آٹھویں کلاس سے لے کر بارہویں کلاس تک ہمیشہ اپنے سیکشن میں تواتر سے اول آتا رہا۔ عجیب بات ہے کہ پڑھنے سے اتنا لگاؤ پیدا ہوگیاکہ اسے مقصد حیات بنا لیا۔

وقت گزرتا چلا گیاآٹھویں سے اگلی جماعتوں میں جاتا رہا۔ ہاں ایک اور بات کہ کسی بھی سطح پرکبھی ٹیوشن نہیں پڑھی۔ ایک دن حساب کا ایک سوال سمجھ نہیں آیا۔ مغر ب کی نماز پر حساب کے ٹیچر محترم بخاری صاحب ملے تو انھیں اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔ کمال شفقت سے انھوں نے گھاس پر ایک تنکے کی مدد سے میرے لیے حساب کا پیچیدہ سوال نہایت شائستگی سے سمجھا ڈالا۔

اس مقام پر اپنے اساتذہ کا ذکر کرناکمال ضروری سمجھتا ہوں۔ صدیقی صاحب اردو پڑھایا کرتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوم ورک کے طور پر کسی ایک کتاب پر تبصرہ لکھنے کاکام سونپا۔ لائل پور میں جناح کالونی کے اندر ایک چھوٹی سی آنہ لائبریری تھی۔

وہاں سے میں نے جوش ملیح آبادی کی مشہور زمانہ تصنیف، یادوں کی بارات کرایہ پر لی اور اس پر تبصرہ لکھ ڈالا۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں خیر کتاب کی جزئیات تو کچھ خاص سمجھ میں نہیں آئیں مگر چند شخصیات کے خاکے بہر حال بہت اچھے لگے۔ چھٹیاں ختم ہوئیں تو میں نے تبصرہ صدیقی صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔

عنوان دیکھ کر صدیقی صاحب حیران رہ گئے اور مجھ سے تین بار پوچھاکہ کیا واقعی میں نے یہ کتاب پڑھی ہے۔ پیہم اقرار پرصرف ایک فقرہ کہا کہ برخوردار یہ کتاب تم نے اپنی عمر سے پہلے پڑھ لی ہے۔ صدیقی صاحب کی اردو حددرجہ شستہ تھی۔ آج مجھے جو اردو زبان پر معمولی سی دسترس ہے اس میں محترم صدیقی صاحب کا حد درجہ احسان شامل ہے۔

سائنس کے مضامین سلیمی صاحب اور محفوظ صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ سلیمی صاحب چھوٹے قد کے حامل مگر حد درجہ بڑے آدمی تھے۔ اکثر جناح کیپ پہنتے تھے۔ اس کے بالکل برعکس محفوظ صاحب گرج دار آواز سے بیالوجی پڑھاتے تھے۔ فقیر محمد صاحب فزکس پڑھایا کرتے تھے اور فزکس جیسے مشکل مضمون کوترتیب سے دل میں اتارنے کی کامیاب کوشش کرتے تھے۔ جب کسی بچے سے کوئی غلطی ہو جاتی تو اسے زور سے چاک مارتے تھے۔

اسلامیات کا پیریڈ محمد حسین چوہدری صاحب لیا کرتے تھے۔ خوب خوش لباس انسان تھے۔ ایک عجیب بات لکھنے کو دل چاہ رہاہے جو شاید میں آج تک کسی سے ذکر نہیں کر سکا۔ میرے والد محترم کو کسی دوست نے سیرت النبی ﷺ پر ایک ضخیم کتاب تحفے میں دی تھی۔

کتاب کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ عربی زبان سے اردو میں مقالمے کی شکل میں ترجمہ ہوئی تھی۔ تقریباً گیارہ سو سے بارہ سو صفحے کی یہ کتاب اکثر اوقات پڑھتا رہتا تھا۔ اس وقت میں دس سال کا تھااور شاید چھٹی کلاس میں پڑھ رہا تھا۔

آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ میں نے سیرت النبیﷺ کی وہ مکمل کتاب تقریباً حفظ کر لی اور یہ بات کسی کو نہیں بتائی۔ جب محمد حسین چوہدری صاحب نے سیرت پر ایک لیکچر دیا تو اپنی یادداشت کے زور پر ان سے چند سوالات پوچھے۔ محمد حسین صاحب یکدم چونک گئے۔ فرمانے لگے کہ یہ سارے سوالات تم نے کہاں سے کشید کیے ہیں۔

ان میں سے تو کوئی بھی اسلامیات کے سلیبس کا حصہ نہیں ہے۔ جب انھیں یہ عرض کی کہ میں سیرت النبی ﷺ کی ایک کتاب کو مقالمے کی طرز پر تقریباً حفظ کر چکا ہوں تو ان کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔ مجھے شاباش دی اور کہا یہ خدا کی نعمت ہے کہ اس نے حد درجہ اوائل عمری میں مجھے رسول کریم ﷺ کی زندگی کے متعلق بھر پور علم عطا کیا ہے۔

جی لارنس تاریخ کے استاد تھے اور انھوں نے سلیبس کے مطابق حد درجہ محنت کرکے نوٹس بنائے تھے جو تمام بچوں میں تقسیم کیئے ہوئے تھے۔ ان نوٹس میں چندر گپت موریا سے لے کر اشوک، مسلم سلاطین کے زمانے سے لے کر مغل خاندان کے بادشاہ اور پاکستان بننے کے اہم ترین واقعات شامل تھے۔

یہا ں ایک حد درجے منفرد استاد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان کا اصل نام کیا تھا یہ تو میں بھول چکا ہوں مگر انھیں پورا کالج خطیب صاحب کہتا تھا۔

وہ آٹھویں سے دسویں کلاس تک اسلامیات بھی پڑھاتے تھے اور مسجد میں تمام نمازوں کی امامت کی ذمے داری بھی انھیں کی تھی۔ نما ز کے دوران اچھی طرز سے تلاوت کرتے تھے۔ پورے پانچ سال یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے کسی ایک نماز کی بھی امامت نہ کروائی ہو۔

ہاں یاد آیا کالج میں فوجی طرز پر ڈسپلن قائم کرنے لیے کیپٹن حسن شاہ ایڈجوڈنٹ مقرر کیے گئے تھے۔ ہم سارے عسکری یونیفارم پہنتے تھے مگر کیپٹن حسن شاہ خاکی یونیفارم میں منفرد ہی نظر آتے تھے۔

سخت سردی کے دوران صبح چھ بجے تمام کیڈٹس کے ساتھ پی ٹی کرتے تھے اور دوڑ لگواتے تھے۔ اور یہی عالم شام کو ایک گھنٹے کے اسپورٹس پیریڈ میں بھی ہوتاتھا۔

کیپٹن حسن شاہ نے پولو کھیلنی شروع کر دی اور پاکستان کی پولو ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ بریگیڈیئر کے عہدے پر پہنچے اور پھر اپنے ہی کالج یعنی کیڈٹ کالج حسن ابدال کے انتظامی سربراہ بھی بنے۔

اب میں ایک دیوملائی کردار کا ذکر کرنا چاہوں گا اور وہ تھے ہمارے کالج کے پرنسپل کرنل این ڈی حسن۔ حد درجے سخت مزاج اور کسی کے بھی رعب دبدبے میں نہ آنے والی شخصیت تھے۔ ان کے لیے وزیراعظم کا بیٹا بھی اسی سطح کا تھا جتنا ایک عام آدمی کا لخت جگر۔ اتنی مساوات اور میرٹ پر یقین رکھنے والا انسان بہت کم نظر سے گزرا ہے۔ کرنل این ڈی حسن صاحب کالج کے ہر کونے میں ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔

صبح کی پی ٹی ہو تو وہاں کھڑے نظر آتے تھے۔ اگر صبح پریڈ کا ٹائم ہو تو وہاں بھی چستی سے سب کچھ دیکھتے ہوئے نظر آتے تھے۔ میس میں کھانے کے دوران بھی ان کی موجودگی محسوس کی جاسکتی تھی۔

شام کو گیمز کے پیریڈ میں وہ پوری گراؤنڈز کا چکر لگاتے تھے۔ اور تسلی سے ہر بچے کو کھیلتا ہوا دیکھتے تھے۔ میں اس کالم میں نہ اپنے اساتذہ کی شفقت، محبت اور محنت کااحاطہ کر سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے پرنسپل کرنل این ڈی حسن کی شخصیت کو قلم بند کر سکتا ہوں۔ بس ایسے لگتا ہے کہ تمام لوگ ایک خواب میں ملے تھے۔ اور بس سب کچھ خواب ہی تھا۔