علی اعجاز، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے بے مثال ہیرو رہے ہیں۔ اسی کی دہائی میں تو ان کا نام کسی بھی فلم کی کامیابی کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ میڈیکل کالج کی تعلیم کے دورانیہ میں ان کی متعدد فلمیں دیکھنے کا موقعہ ملا۔ اسی کی دہائی میں ایبٹ روڈ پر درجنوں سینما گھر ہوتے تھے۔
ایک سے بڑھ کر ایک۔ بہرحال علی اعجاز، فلموں کے علاوہ، محترم عطا الحق قاسمی کے لکھے گئے کمال ڈرامہ سیریز "خواجہ اینڈ سن" کے اندر مرکزی کردار بھی ادا کرتے رہے۔
خواجہ اینڈ سن میں علی اعجاز نے ایک وسیع خاندان کے بزرگ کا کردار ادا کیا۔ اورواقعی قاسمی صاحب کے لکھے ہوئے ہر لفظ کا حق ادا کر دیا۔ خواجہ اینڈ سن کی سطح کے ڈرامے بننا اب ناپید ہو چکے ہیں۔ اب تو اسکرین پر میک اپ کا بے مقصد سا مقابلہ ہوتا ہے۔
جس میں ادا کاری کا قتل لازم نظر آتا ہے۔ عجیب سے سطحی ڈراموں کا دور ہے۔ فلمیں تو خیر ملک میں بننی ہی بند ہو چکی ہیں۔ بہرحال توازن سے دیکھیں تو علی اعجاز ایک بلند پایہ اداکار تھا۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ دس بارہ برس پہلے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے ان سے سرسری سی ملاقات ہوئی۔
جو آہستہ آہستہ گہری دوستی میں بدل گئی۔ ان دنوں لاہور میں سرکاری رہائش گاہ میں رہتا تھا۔ ہوتا یوں تھا کہ دو تین ہفتوں بعد علی اعجاز کا فون آ جاتا تھا کہ ملاقات ہونی چاہیے۔ چنانچہ میں مسلم ٹاؤن گاڑی بھیج دیتا تھا۔ وہ مسلم ٹاؤن میں اپنے ذاتی گھر میں رہتے تھے۔ علی اعجاز صاحب گھر تشریف لے آتے تھے۔ پھر گھنٹوں گپ شپ رہتی تھی۔
پہلے دن علی اعجاز آئے تو انھوں نے آدھے بازوؤں والا کرتا پہن رکھا تھا۔ میں نے کبھی بھی اس طرح کا کرتا نہیں دیکھا تھا۔ بتانے لگے کہ اس طرز کا کرتا، پہلے عام پہناجاتا تھا۔ اب رواج ختم ہو چکا ہے۔ خیر میں نے علی اعجاز کے علاوہ کبھی ایسا کرتا کسی کو بھی پہنے نہیں دیکھا۔ یا شاید ایک دو بار، لاہور میں کسی بزرگ کو زیب تن کیے دیکھا تھا۔
علی اعجاز نے عملی طور پر ایک زمانہ میں فلموں پر راج کیا تھا۔ جب ان کی فلموں پر بات ہوتی تھی تو ان کا رویہ عجیب سا ہو جاتا تھا۔ ایک دو بار تو کسی فلم کا ذکر ہوا تو باقاعدہ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور ہچکیاں لے کر روتے رہے۔ انھوں نے کئی بار اپنے ساتھ ہونے والی گھریلو بدمزگی کا ذکر کیا۔ یہ ان کا نجی معاملہ تھا۔
اس لیے کبھی بھی اس موضوع پر کھل کر بات نہیں ہوئی۔ ایک دن علی اعجاز صاحب نے بتایا کہ وہ اور منور ظریف اندرون شہر ایک ہی محلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ آج کی نسل کو منور ظریف کا نام تک معلوم نہ ہو۔ مگر منور ظریف، اردو اور پنجابی کی فلموں کا وہ مزاحیہ اداکار تھا۔ جو کمال کے لہجے اور باغ و بہار شخصیت کا مالک تھا۔ اس جیسا عظیم اداکار کسی بھی فلم انڈسٹری میں حد درجہ کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔
بہر حال علی اعجاز نے ایک دن یہ بتایا کہ ان پرفالج کا حملہ ہواتھا۔ وہ دنوں تک بے ہوش رہے تھے۔ بہرحال اس موذی مرض سے بتدریج صحت یاب ہوئے۔ لیکن وہ ایک سیاسی شخصیت کا شکریہ بہت ادا کیا کرتے تھے۔ اس شخصیت نے بیماری کے دوران اور بعد میں علی اعجاز کی حد درجہ مالی اور اخلاقی مدد کی تھی۔
علی اعجاز اس کو ہروقت دعا دیتے رہتے تھے۔ یہ سابقہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف تھے جن کے لیے اس عظیم اداکار کے ہونٹوں سے ہر وقت دعائیہ کلمات جاری رہتے تھے۔ نواز شریف کی شخصیت کا یہ پہلو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ کہ ان کے ہاتھ سے ان گنت لوگوں کو امداد کی صورت میں بہت فیض ملا ہے۔ نواز شریف کی شخصیت میں یہ عنصر موجود تھا کہ جہاں انھیں کسی بھی انسان کے دکھ درد کا پتہ چلتا تھا، وہ براہ راست اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے۔
پاکستانی فنکار، گلوکار، اور نمایاں کھلاڑی ہمیشہ نواز شریف کی توجہ کے مستحق رہے۔ شاید اس بات پر بھی لوگوں کو یقین نہ آئے کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کی زمین بھی نواز شریف نے بطور وزیراعلیٰ خان صاحب کو انتہائی کم نرخوں پر دی تھی۔
اچھی طرح یاد ہے کہ یہ خان صاحب کو کوڑیوں کے مول الاٹ کی گئی تھی۔ کینسر اسپتال بنانا ایک نیک مقصد تھا اور اس میں بھی نوازشریف ہر طریقہ سے خان صاحب کے ساتھ کھڑے رہے۔ اگر یہ زمین نواز شریف نہ دیتے تو شاید شوکت خانم جیسا عظیم اسپتال وجود میں آنا مشکل ہو جاتا۔ بالکل اسی طرح، ہماری فلم انڈسٹری کے مایہ ناز اداکار، الیاس کشمیری اپنی آخری عمر میں حد درجہ بیمار ہو گئے تھے۔
شوگر کی وجہ سے ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔ مفلسی، مشکل حالات اور بڑھاپے نے الیاس کشمیری سے ہر خوشی چھین لی تھی۔ اس مشکل وقت میں نواز شریف نے الیاس کشمیری کی بہت مدد کی تھی۔ اس امداد کا ذکر کرتے کرتے الیاس کشمیری رونا شروع کر دیتے تھے۔
یہ سب کچھ عرض کرنے کا ایک مقصد ہے۔ مجھے نواز شریف کو ملنے کے مواقع سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر متعدد بار ملے۔ جوانی میں نواز شریف، حد درجہ خوشگوار اور وجیہہ انسان تھے۔ بات بات پر لطیفے سنانا ان کی عادت تھی۔
حد درجہ خوبصورت انداز سے گانے گاتے تھے۔ یاد ہے کہ 1982 میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ میاں صاحب، اس وقت پنجاب میں وزیر خزانہ تھے۔ شام کو لال اسپورٹس کار میں سوار جاگنگ کرنے لارنس گارڈن آ جاتے تھے۔ سفید نکر، سفید ٹی شرٹ میں ملبوس سرخ و سفید نوجوان بڑی تندہی سے دوڑ لگاتاتھا۔ اور ان کے ساتھ جاگنگ پارٹنر کوئی اور نہیں خان صاحب ہوتے تھے۔ خان صاحب کو ٹانگ کا فریکچر ہوگیا تھا۔ اور وہ اپنی ہڈی کے جڑنے تک کرکٹ کھیلنے سے دست بردار ہوچکے تھے۔
وہ بھی شام کو جاگنگ کے لیے زمان پارک سے لارنس گارڈن آ جاتے تھے۔ جہاں نواز شریف اور خان صاحب، ایک گھنٹے سے زیادہ جاگنگ کرتے رہتے تھے۔ میاں صاحب کے اردگرد، کئی طالب علم جمع ہو جاتے تھے۔ اور میاں صاحب خوب ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔
خان صاحب البتہ حد درجہ کم گو انسان تھے۔ اس وقت کرکٹ میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ مگر وہ محفلی آدمی نہیں تھے۔ شاید آج بھی نہیں ہیں۔ اس کے برعکس نواز شریف حد درجہ بذلہ سنج انسان تھے۔ ماضی کے دو قریبی دوست، آنے والے وقت میں ایک دوسرے کے شدید ترین سیاسی دشمن بن جائیں گے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ویسے وقت بھی کتنی ظالم چیز ہے۔ کس موڑ پر، کون سا دوست، آپ کو چھوڑ جائے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چھوڑنا تو ایک طرف، شاید بدترین دشمن بن جائے۔ اس مشکل ترین موضوع پر کچھ بھی لکھنا عبث ہے۔ ویسے شہباز شریف سے نوجوانی میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ان کے پرانے دوست بتاتے ہیں کہ وہ نواز شریف سے بالکل متضاد شخصیت تھے۔ ویسے زمانہ انسان کو جو مرضی بنا دے۔ انسان ہمیشہ اپنی اصل کی طرف لوٹتا ہے۔ ذاتی حیثیت میں بڑے میاں صاحب آج بھی وضعدار انسان ہیں۔
ہاں ایک بات لکھنا بھول گیا۔ بڑے میاں صاحب جب وزیراعظم تھے تو بہاولپور اکثر آیا کرتے تھے۔ انھیں صحرا میں کیمپنگ کا شوق تھا۔ لال سہارا پارک کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے تھے۔ ایک دفعہ آئے تو مشہور شکاری تہور اور ان کے چند ذاتی دوست ساتھ تھے۔
نواز شریف اس قدر ہنساتے تھے کہ ڈیوٹی پر موجود ہم لوگوں کے لیے بھی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ لطیفہ سنانے اور سننے کا ایک دور چلتا تھا۔ جو ہمیشہ میاں صاحب ہی جیتا کرتے تھے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آلام، مصائب اور منصب انسان کو کتنا تبدیل کر دیتے ہیں۔ انسان کیا سے کیا بن جاتا ہے۔
جوانی اور آج کے نواز شریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جن لوگوں نے انھیں جوانی میں دیکھا ہے، انھیں تو یقین نہیں آتا کہ وہ اس قدر سنجیدہ کیونکر ہو گئے ہیں۔ بہرحال زمانے کے مظالم ہرانسان پر فتح پا لیتے ہیں۔ اسے اس طرح بدل دیتے ہیں کہ شاید اس انسان کا خود کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہی زندگی ہے۔ بہر حال نواز شریف نے اپنی پوری زند گی میں لوگوں کی مشکل میں بروقت مدد کی ہے۔
ویسے نواز شریف اور خان۔ دونوں سیاست میں نہ آتے تو بہترین دوست ہوتے۔ ہمارے ملک کی جوہڑ نما سیاست، جہاں بڑے بڑے لوگوں کو چبا کر کھاگئی، وہاں بہترین دوستوں کو بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا کر دم لیا۔ کیسے کیسے ہنس مکھ لوگ، کس قدر سنجیدہ ہو گئے۔ لگتا ہے کہ جوانی میں یہ نہیں کوئی اور ہی شخص تھا۔ صاحب، بالکل یقین نہیں آتا۔ وقت ہر ایک کو غیر محسوس طریقے سے اس قدر بدل کر رکھ دیتا ہے کہ پہچاننا ناممکن ہو جاتا ہے۔
نوٹ: گزشتہ کالم کا عنوان، مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن کی نسبت سے تھا۔ غلطی سے آئن اسٹائن کا نام لکھا گیا۔ اس غلطی کی حد درجہ معذرت چاہتا ہوں۔