Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Mein Aap Ka Fan Hoon

Mein Aap Ka Fan Hoon

ایک وقت تھا جب کوئی مہربان ملتا اور کہتا آپ کا فین ہوں تو اچھا لگتا تھا۔ تعریف کس کو اچھی نہیں لگتی۔

دھیرے دھیرے مجھے احساس ہوا کوئی بندہ اس وقت تک آپ کا فین ہے جب تک آپ کے خیالات اس کی لائف یا سیاسی خیالات سے ملتے ہیں۔ آپ ایک صحافی ہیں لہذا بدلتے حالات مطابق جب آپ ان کے پسندیدہ حکمرانوں یا لیڈروں بارے رائے میں تبدیلی لاتے ہیں تو وہی فین آپ کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوتے ہیں۔ آپ اگر grow کرگئے ہیں تو وہ آپ کو پانچ دس سال پہلے والے وقت میں قید رکھنا چاہتے ہیں جب آپ کی باتیں انہیں اچھی لگتی تھیں۔

(یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے بھی زیادہ گرو کر گئے ہوں لہذا سمجھدار ہوگئے اور اب وہ آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے)

وہ آپ کو اپنے خیالات کا قیدی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کو اس پنجرے سے باہر نہیں نکلنے دیتے جس میں انہوں نے آپ کو قید کررکھا ہے۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے کہ آپ ان کے خیالات سے ہٹ کر کیسے سوچ سکتے ہیں۔ وہی آپ کو کہیں گے آپ سے توقع نہ تھی، آپ یہ لکھیں گے۔ آپ بدل گئے ہیں۔ آپ نے لفافہ لے لیا۔ آپ بک گئے۔ آپ نے سخت مایوس کیا۔

یوں دھیرے دھیرے جو کبھی خوشی ہوتی تھی کسی فین سے مل کر اب کوئی کہے کہ فین ہوں تو میرے اندر سے کوئی خوشی جنم نہیں لیتی۔ کرٹسی کے طور پر مسکرا کر شکریہ ادا کر دیتا ہوں۔ مجھے اب تجربوں نے سکھایا ہے وہی فین آپ کا بڑا نقاد نکلے گا اور کچھ دن بعد آپ کے خلاف کمنٹس کرے گا جو کبھی آپ سے متاثر تھا۔ وہ آپ سے جلد مایوس ہوگا کیونکہ دنیا میں سب لوگوں کو ہر وقت خوش اور مطمئن نہیں رکھا جاسکتا۔

فین خود ہی آپ کو پڑھ اور سن کر توقعات باندھ لیتے ہیں۔ ایک امیج بنا لیتے ہیں۔

اس لیے اکثر لوگوں کو شکایت رہتی ہے میں لوگوں سے اب کم ملتا ہوں۔ کبھی بہت ملتا تھا۔ وجہ یہی ہے بہت سارے فینز کو مل کر دیکھا۔ آخر پر وہ سب مجھ سے مل کر مایوس ہی ہوئے اور کچھ عرصے بعد مجھے ان کی طرف سے hostile attitude کا سامنا کرنا پڑا کہ میں ان کے سیاسی ویوز کی نمائندگی کیوں نہیں کررہا۔ جیسا وہ سوچتے ہیں ویسا کیوں نہیں لکھ رہا۔

آج تک نہیں بھولتا کہ سپر مارکیٹ میں ایک نوجوان ملا جو اپنی بیگم صاحبہ ساتھ تھا۔ وہی کہا کہ فین ہوں۔ نمبر مانگا۔ میں کسی کو نمبر دینے سے یہ سوچ کر انکار نہیں کرتا کہ اگر میں کسی سے مانگتا اور مجھے نہ دیتا تو مجھے کتنے دن تکلیف رہتی لہذا دے دیتا ہوں۔

اکثر کو تو شک رہتا ہے کہ شاید غلط نمبر دیا ہوگا لہذا وہ وہیں کھڑے کھڑے ڈائل کرکے چیک بھی کرتے ہیں۔ خیر اس نوجوان نےکہا کسی دن آپ ہمارے ساتھ گھر ناشتہ کریں۔ شکریہ ادا کیا۔

اگلے دن ہی اس کا ایسا میسج آیا کہ آپ نے خان صاحب پر جو بات کی ہے یا کالم لکھا ہے اس پر میری شدید مذمت کی گئی تھی۔

تین سال گزرنے والے ہیں آج تک دکھ ہے کہ اسے کیوں نمبر دیا تھا۔ ابھی شکر کیا اس کے گھر ناشتہ کرنے نہیں گیا تھا ورنہ اس کی مایوسی کا لیول کتنا زیادہ ہوتا کہ ایسے ہی بیکار بندے پر ناشتہ ضائع کیا۔

آپ کے فین بہت اچھے ہیں لیکن اس وقت تک جب آپ ان کے بنائے سنہری پنجرے میں قید ہیں۔ ایک پالتو کبوتر یا طوطے کی طرح وہ آپ سے پیار کریں گے، لاڈ اٹھائیں گے لیکن رکھیں گے اندر لاک کرکے۔ اگر آپ نے ان کے ذہنی تخلیق کردہ پنجرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو وہ آپ کا گلہ دبا کر وہیں گھر کے لان میں دفن کرکے فیس بک پر اسٹیس بھی دے دیں گے۔

ہائے وہ کیا دور تھا جب کوئی کہتا تھا آپ کے فین ہیں اور کچھ لحمے خوشی میں گزرتے تھے۔ عمر بڑھنے اور وقت گزرنے ساتھ یہ خوشی بھی چھن گئی کہ کوئی آپ کا فین نہیں ہوتا۔ سب اپنے اپنے خیالات کے فین ہوتے ہیں اور اتفاقا کچھ دنوں کے لیے آپ اور ان کے خیالات مل جاتے ہیں۔ اور ہم بانس پر چڑھ جاتے ہیں کہ دیکھا دنیا ہماری فین ہے۔ شکر ہے عرصہ ہوا میں اس اونچے بانس سے نیچے اتر آیا ہوں۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.