بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو آپ کو بغیر ملے متاثر کرتے ہوں۔ ڈاکٹر نعیم بیگ بھی ان لوگوں میں سے ہیں۔ لندن رہتے ہیں۔ خود بھی ڈاکٹر ہیں۔ ان کی وائف ہما صاحبہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں نے فیصل آباد میڈیکل کالج سے 1994 میں گریجویشن کی۔
ان کا تعلق جہلم کے گائوں چوٹالہ سے ہے۔ لندن میں رہتے رہتے ایک دن گائوں لوٹے تو اس کی گندگی اور حالت دیکھ کر رہا نہ گیا۔
اپنے پانچ بچوں بشمول اپنی بیٹیوں کو کہا چلو بیٹا باہر چلو۔ دستانے پہن لو۔ شاپرز ہاتھ میں لے لو۔ بچے حیران ہوئے۔ باہر گائوں کی گلیوں میں لے گئے۔ وہ سب بچے گلیاں صاف کرنے لگے۔ انہیں دیکھ کر گائوں کے لوگ حیران ہوئے کہ یہ مخلوق کہاں سے آئی ہے۔ اتنے پیارے بچے گائوں کا گند صاف کررہے ہیں۔ ان بچوں کو صفائی میں مصروف دیکھ کر گائوں والے بھی اس کام میں مصروف ہوگئے اور یوں اس گائوں کی حالت بدلنے کا آغاز ہوا۔
ہمارے پاس اس معاشرے کی ناکامی کی ہزاروں کہانیاں ہیں۔ سینکڑوں جواز ہیں اور ہم میڈیا کے لوگ اب تو سوشل میڈیا بھی شامل کر لیں دن رات آپ کو فرسٹریٹ کرتے رہتے ہیں کہ بس تباہی آج آئی کل آئی۔ رات کو یہی سوچ کر سوتے ہیں کہ صبح تک قیامت آچکی ہوگی۔ خود پر لعن طعن کرتے رہتے ہیں۔ ایک عجیب خود اذیتی کا شکار ہیں۔ لیکن پھر ڈاکٹر نعیم بیگ جیسے انسان ہیں جو لندن میں اپنے بچوں ساتھ اچھی زندگی گزارتے ہیں اور گائوں وزٹ پر آتے ہیں تو احساس جرم ہوتا ہے کہ ہماری زندگیاں بدل گئیں لیکن جس گائوں میں جنم لیا، جن بزرگوں کے ہاتھوں میں پلے بڑھے ان کی زندگیوں میں آسانیاں نہیں آئیں۔
یوں اپنے گائوں کی حالت بدلنے پر کام شروع کیا۔ گلیاں نالیاں صاف ہونی شروع ہوگئیں، ہزاروں درخت لگنے شروع ہوگئے، کوڑا کرکٹ اٹھانے والے بھرتی کر لیے گئے، ٹیمیں رکھ لی گئیں، غریبوں کی مدد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پانچ مستقل ملازم رکھ لیے گئے جن کا کام گائوں کو صاف ستھرا اور گائوں کے ان پراجیکٹس کا خیال رکھنا ہے۔ ہفتے میں چھ دن سیوریج کی صفائی ہوتی ہے، روازنہ گلیوں کی صفائی ہوتی ہے، کچی گلیوں کو پکا کرنے کا کام شروع ہوا تاکہ کیچڑ سیوریج اور دیگر گند سے نجات ملے اور صفائی میں آسانی رہے، قربانی والی عید پر پورے گائوں میں ایسے انتظامات کیے گئے کہ شام تک گندگی نظر نہیں آتی تھی۔
ڈیزورنگ خواتین کو بیس سلائی مشینیں تو 45 غریب خاندانوں کو ہر ماہ 5000 روپے، برطانیہ سے غریبوں کے لیے تحائف الگ، ہیلتھ ایجوکیشن، قابل بچوں کے لیے تعلیمی وظائف کا اجرا۔ دس ہزار درخت گائوں میں لگوائے گئے، ایک سو بیس Bins ہر جگہ رکھے گئے تاکہ گندگی نہ پھیلے، ایک لوڈر لیا گیا۔
ہر ماہ گائوں کی ایک فیملی کو قرض حسنہ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ و ہ کاروبار یا کام کریں اور اپنے پائوں پر کھڑے ہوں، جب برسوں پہلے جنوبی پنجاب میں میں سیلاب آیا تو وہاں دس لاکھ روپے بھیجے۔۔
یہ کام دونوں میاں بیوی نے مل کر کیا ہے۔ وہ خود کریڈٹ نہیں لیتے بلکہ بار بار کہتے ہیں گائوں کے لوگوں نے ساتھ نہ دیا ہوتا تو یہ ممکن نہ تھا۔ برطانیہ میں بھی لوگ ان کی فاونڈیشن کی مدد کرتے ہیں۔
مجھے سب کچھ پڑھتے ہوئے تھامس ہارڈی کا ناول The Return Of the Native یاد آیا جس کا مین کردار پیرس کی مصنوعی زندگی سے بور ہو کر اپنے گائوں لوٹ گیا تھا۔
ڈاکٹر نعیم بیگ بھی وہی son of the soil ہے جس نے برطانیہ بیٹھ کر اپنے گائوں کی حالت بدل دی ہے۔ یہی لوگ unsung ہیروز ہیں جنہوں نے امید کی شمع جلائی ہوئی ہے۔ جنہیں نہ کسی صلے کی تمنا ہے نہ واہ واہ چاہتے ہیں نہ سوشل میڈیا پر مایوسی پھیلاتے ہیں۔
یاد آیا گوتم بدھ ایک دن جنگل میں نروان کی تلاش میں گم بیٹھے تھے۔ خزاں کا موسم تھا۔ پورا جنگل زرد پتوں سے بھرا ہوا تھا۔ گوتم نے اپنی مٹھی میں پتے بھرے اور چیلے آنند سے پوچھا بالکا میری مٹھی میں سارے جنگل کے پتے آگئے ہیں؟
آنند گھبرا کر بولا گرو بھلا یہ کیسے مکمن ہے چھوٹی سی مٹھی میں جنگل کے سارے پتے سما جائیں؟
گرو مسکرایا اور بولا بالکا یہی حال دنیا بھر کی سچائیوں کا ہے۔ وہ جنگل کے پتوں کی طرح ان گنت ہیں لیکن میری مٹھی میں جتنی سچائیاں آئیں میں نے ان کا پرچار کیا۔
ڈاکٹر نعیم بیگ جیسے لوگوں نے بھی اپنی اپنی مٹھی میں جو سمایا اس کا پرچار کیا، خیر بانٹی، عام لوگوں کی زندگیوں میں جو تھوڑی زیادہ تبدیلی لاسکتے تھے وہ لائے۔
یہی وہ unsung ہیروز ہیں جو تھامس ہارڈی کے ناول کے ہیرو کی طرح اپنی دھرتی ماں کی محبت میں گائوں پلٹ آئے اور کایا پلٹ دی۔