Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. The Unwanted Child

The Unwanted Child

پرانی کتابوں کی حالیہ شاپنگ سے جو پہلی کتاب پڑھنے کا دل کیا وہ مشہور جاسوی ناول نگار اگاتھا کرسٹی کی خودنوشت ہے۔ انہوں نے 75 برس کی عمر میں اپنی آپ بیتی مکمل کی۔

وہ اپنی ماں اور باپ کے بارے لکھتی ہیں کہ ان کے ماں باپ کی شادی کی کامیابی کی وجہ ان کا والد تھا والدہ نہیں۔ ان کے والد ہر وقت خوش رہتے، دوستوں کا جھمگھٹا لگا رہتا۔ ویک اینڈ پر دوست ہوتے اور پارٹیاں کرتے۔ کھانا پینا ہلہ گلہ چلتا۔ مجال ہے وہ کسی سے الجھتے ہوں۔ مذاق، قہقے، لطیفے، جملے بازی ان پر بس تھی، ممکن نہ تھا کہ ان کی محفل میں آپ بور ہوجائیں۔ کسی سے کوئی بحث مباحثہ نہیں۔ آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ سب لوگ ان کی کمپنی کے متمنی رہتے۔

دوسری طرف ان کی والدہ کا مزاج مختلف تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نانا (ماں کا باپ) ایک دن گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔ اس وقت ماں (نانی) کی عمر صرف 27 برس تھی۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ گھر کا گزارہ صرف پنشن میں ہونا مشکل ہوگیا تو ان کی ایک اور بہن جس کی ایک امریکن سے شادی ہوئی تھی اور وہ ان کی دوسری بیوی تھی اور امیر تھی نے اپنی بیوہ بہن کو کہا اپنا ایک بچہ مجھے دے دو تاکہ تم سے بوجھ کم ہو۔ میں پال لوں گی۔

اب ایک ماں امتحان میں پڑ گئی کہ وہ کس بچے کو اپنی بہن کو دے۔ آخر اس نے فیصلہ کیا وہ اپنی بیٹی بہن کو دے گی اور تین لڑکے خود پالے گی۔ یوں اس چھوٹی بچی کو دور دراز خالہ کے گھر بھیج دیا گیا۔ جہاں اسے دنیا بھر کی ہر عیاشی میسر تھی لیکن کچھ عرصہ بعد وہ شدید بیمار ہوگئی۔ ایک عمر رسیدہ ڈاکٹر آیا۔ اس نےچیک کیا تو بظاہر کوئی بیماری نہ تھی۔ سیانا تھا۔ اس نے بچی سے باتیں کیں اور اس کی خالہ کو بلا کر کہا بچی homesick ہے۔ یہ اپنے بھائیوں اور ماں کو بہت مس کرتی ہے۔

خالہ بڑی حیران ہوئی اور بولی یہاں سب کچھ تو ہے اس کے پاس۔ دنیا بھر کی کون سی نعمت اسے میسر نہیں۔ بیماری کی کوئی اور وجہ ہوگی۔ ڈاکٹر بولا نہیں اس وجہ نے ہی اسے بیمار کردیا ہے۔ تمہارے گھر کی نعمتوں سے بڑی نعتمیں اسے وہ لگتی ہے جو وہ اپنے گھر میں ماں اور بھائیوں کی شکل میں چھوڑ آئی ہے۔ اسے یہاں کچھ اچھا نہیں لگتا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر بیمار ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ماں اور بھائیوں ساتھ اسی گھر میں کیوں نہیں رہتی جہاں چاہے غربت تھی۔

اگاتھا کرسٹی لکھتی ہیں برسوں بعد جب میری ماں کچھ بڑی ہوئی تو اسے سمجھایا گیا کہ تمہاری ماں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ لڑکے زندگی میں کچھ نہ کچھ کر لیں گے، مشکلیں بھگت لیں گے لیکن تم لڑکی ہو کر مشکلوں میں پڑ جائوں گی۔ امیر خالہ کے گھر رہ کر تم پڑھو گی۔ تمہارا مستقبل محفوظ رہے گا۔ تم محفوظ ہاتھوں میں رہوگی۔ تمہاری ماں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔

اگاتھا کرسٹی لکھتی ہیں یہ تمام باتیں سن کر بھی میں ایک ہی بات کہتی تھی نہیں یہ سب غلط باتیں ہیں۔ میری ماں کو میری ضرورت ہی نہ تھی۔ میں اس کا unwanted child تھی۔ اسے مجھ سے لگائو ہوتا تو جہاں تین بچے پل رہے تھے وہیں ایک اور بھی پل جاتا۔ ماں کے اس فیصلے نے مجھ سے میرا گھر، میری ماں اور تین بھائی چھین لیے جن سے میں کھلیتی تھی۔ میں اپنی ماں کا ناپسندیدہ بچہ تھی ورنہ وہ مجھے اپنی بہن کو یوں نہ دے دیتیں۔

وہ عمر بھر دوسرے لوگوں کی محبت پر شک کرتیں کہ اگر اس کی اپنی ماں اسے چھوڑ سکتی ہے تو دوسرے رشتے کہاں قابل بھروسہ ہوسکتے ہیں۔ اگاتھا کرسٹی مرتے دم تک اپنی ماں سے ناراض رہی کہ اس نے اس کا بچپن چھین لیا تھا جو وہ اپنے تین بھائیوں ساتھ انجوائے کرتی۔

اگرچہ اس کی خالہ نے اس کا بڑا خیال رکھا۔ اسے اعلی تعلیم دلوائی لیکن پھر بھی وہ اس صدمے سے عمر بھر نہ نکل سکی کہ وہ اپنی ماں کا unwanted child تھی اور اس کی ماں کو اپنے بیٹے اس سے زیادہ پیارے تھے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.