Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Udham Singh Ka Inteqam

Udham Singh Ka Inteqam

بعض کتابوں کے دیباچے پوری کتاب پر بھاری ہوتے ہیں۔ اب اس کتاب کو ہی دیکھ لیں۔ اس کا چھ صحفات کا تعارف ہی اتنا بھاری بھر کم ہے کہ آپ کو لگتا ہے آپ 13 اپریل 1919 کو جیانوالہ باغ میں پنجاب کے گورنر جنرل ڈائر کے حکم پر سینکڑوں ہندوستانیوں کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ایک سیاسی جلسے میں شریک لوگ گولیاں کھا کر ایک دوسرے پر گر رہے ہیں اور جنرل ڈائر ابھی بھی افسردہ کھڑا ہے۔ آرمڈ گاڑی چھوٹی گلی کی وجہ سے وہاں باغ کے اندر تک نہیں جاسکتی ورنہ وہ بندوقوں کی بجائے مشین گن سے سب کو بھون دیتا۔

اس غیرمعمولی کتاب کی خاتون مصنفہ انینا آنند کا دادا ایشور داد آنند بھی اس دن اس باغ میں موجود تھا۔ وہ اپنے دوستوں ساتھ وہاں گیا ہوا تھا۔ جنرل ڈائر کو پتہ چلا کہ صوبے میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے باوجود ہندوستانی جلسہ کررہے تھے تو وہ پولیس لے کر نکل کھڑا ہوا اور سپاہیوں کو کہا فائرنگ اس جگہ کی جائے جہاں زیادہ لوگ اکھٹے ہیں۔

اس قتل عام شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایشور داد آنند کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ وہ اس باغ سے باہر نکل گیا۔ اس کے دوست وہیں موجود رہے۔ جب وہ نکل کر جارہا تھا تو اس نے گلی میں ہی جنرل ڈائر کے فوجیوں کی گاڑیاں باغ کی طرف آتے دیکھیں۔ لیکن اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ کیوں جارہی تھیں۔

گولیوں کی گھن گرج نے پورے ماحول کو لہولہان کر دیا۔ پوری فضا میں لہو کی سرخی پھیل گئی۔ جب گولیاں رکیں جس میں ایک اندازے مطابق چار سو سے ایک ہزار لوگ مارے گئے تھے جس میں چھ ماہ کے بچے سے لے کر اسی سال تک عمر کے لوگ شامل تھے۔

لوگ باغ کی طرف دوڑے تو ایشور آنند داد بھی واپس دوڑا کہ وہ اپنے پیچھے وہاں دوست چھوڑ آیا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس کے سارے دوست مر چکے تھے۔

ایشور آنند عمر بھر اس احساس جرم سے نہ نکل سکا کہ وہ اس دن اکیلا کیوں زندہ بچ گیا تھا جب اس کے سارے دوست وہاں مارےگئے۔ اس کی ساری عمر اس احساس جرم کے زیراثر گزری۔ وہ کبھی اس حقیقت کو نہ جان سکا کہ جب اس کے سارے دوست مارے گئے تھے تو وہ اکیلا کیوں بچ گیا تھا۔ وہ کیوں اچانک باغ چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ابھی بھی وہ پچاس برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ اس نے اپنے بچوں سے کہا مجھ پر بالکل ترس نہ کھانا کہ میری بینائی چلی گئی ہے۔ اس دن خدا نے مجھے اکیلے بچا لیا تھا۔ اب اتنا تو خدا کا بھی بنتا ہے وہ میری آنکھیں ہی واپس لے۔ پچاس سال کی عمر سے پہنچنے سے پہلے ہی ایشور آنند چل بسا۔

اور پھر برسوں بعد اس ایشور آنند داد کی پوتی انیتا آنند جو بچپن سے ہی یہ سب کہانیاں اپنے دادا بارے سنتے بڑی ہوئی تھی اس نے اپنے دادا کے اس دن اکیلے بچ جانے والے احساس جرم کی کہانی کو نئے انداز میں سوچنا اور ریسرچ کرنا شروع کیا۔ یہ تجسس اسے اودھم سنگھ تک لے گیا جس نے اس دن جیانوالہ باغ میں قسم کھائی تھی کہ وہ جنرل ڈائر سے اپنے دوستوں کے قتل کا بدلہ لے گا۔ اودھم سنگھ کی مکمل کہانی کی تلاش اسے چار براعظموں تک لے گئی جہاں پرسرار اور حیرت انگیز واقعات اس کے منتظر تھے۔

اودھم سنگھ نے جب بیس برس بعد 1940 میں جنرل ڈائر کو برطانیہ میں ڈھونڈ کر گولی مار کر ہلاک کیا تو پھانسی کے پھندے کی طرف جاتے ہوئے اس نے سوچا تک نہ تھا وہ ہندوستانیوں کا ہیرو بن جائے گا، اس کا نام تاریخ میں زندہ رہے گا یا پھر اسے کسی گمنام قبر میں دفن کر دیا جائے گا۔

برسوں بعد اسی اودھم سنگھ کی باقیات ہندوستان نے واپس لیں۔ 1918 میں اودھم سنگھ کا مجسمہ اسی جگہ بنایا گیا جہاں بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوا تھا۔

اب جیانوالہ باغ ٹریجڈی کے تقریبا ایک سو سال بعد ایشور آنند کی پوتی نے ایک ایسی کتاب لکھی ہے جسے پڑھتے ہوئے آپ کو اپنے بدن میں بار بار سنسنی پیدا ہوتی محسوس ہوتی ہے۔

ایک پوتی نے اپنے دادا کے اس دن اکیلے زندہ بچ جانےکے احساس جرم کی کہانی کو کیا خوبصورت انداز میں لکھا ہے۔ وہ دادا جو عمر بھر اس پچھتاوے ساتھ زندہ رہا جب اس کے سارے دوست جیانوالہ باغ میں مارے گئے تھے تو وہ کیوں اکیلا وہ ان کا دکھ اپنے کندھوں پر اٹھا کر زندہ رہنے کے لیے بچ گیا تھا۔ ایک ایسا پچھتاوا جو نہ اسے جینے دیتا تھا نہ مرنے دیتا تھا۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.