Sunday, 05 January 2025
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ghairon Pe Khul Na Jaye Kahin Raz Dekhna

Ghairon Pe Khul Na Jaye Kahin Raz Dekhna

پھر اک اور سال گزرا۔ پھر سے نئے سال کا استقبال۔ اب بھی طریق و طریقت میں نئے ریپر تو ہیں۔ مگر چلن وہی پرانا۔ اوتار وہی فرسودہ۔ جنگل میں بندر ہاتھ میں ڈھیروں کارڈز لیے چھلاوا بنا چکرا رہا تھا اور جنگل میں بھیڑ لگی تھی۔ خرگوش کی جوڑی نے بڑی مشکل سے اس کو روکا۔ بھائی بندر! کچھ بتاؤ تو سہی۔ آخر کیا ہونے والا ہے؟

بندر چھلانگ لگا کر درخت سے نیچے اترا اور خرگوش کو بتایا کہ یہ سب نئے سال کی تیاریاں ہیں۔ ابھی جنگل میں مزید لائٹیں لگیں گی اور تو اور باجے بھی تقسیم کیے جائیں گے۔ جس پر ہر ایک کو اپنا راگ الاپنے کا لائسنس بھی جاری کیا جائے گا۔ سب جانتے تھے کہ پچھلے سال شیر نے باجوں پر پابندی لگا دی تھی۔ اس دوران خرگوش کے ساتھ اور بہت سے جانور بھی مجمع کی صورت بندر کی باتیں سن رہے تھے۔

دانا جانوروں کو بندر کی بات پر کم ہی یقین آتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے جنگل میں خبریں پھیلانے کا واحد سورس اب بندر ہی تھا۔ بلیوں کو روٹی کی منصفانہ تقسیم کے بعد بندر کو انصاف کا لقب دیا گیا تھا اور باقی ماندہ بلیوں کی روٹی کھانے کی آزادی بھی۔ اس زعم میں بندر کئی اور جانوروں کی روٹیاں کھا کر قلب مطمعئنہ پر فخر کرنے لگا۔ اب وہ آزادانہ آتے جاتے جانوروں کے سر پر کبھی چپت لگاتا، کبھی کسی کی دم کھینچ لیتا۔ کبھی کبھار وہ کسی جانور کی دم پر پیر رکھ کر اس کے بھاگنے کا انتظار کرتا اور پھر ایک دم ٹپوسی لگا کر درخت پر جھولنے لگتا۔

اس گفتگو کے دوران بھی وہ کبھی درخت پر جھولتا اور کبھی شاخ پکڑ کر نیچے زمین پر اچھلنے لگتا۔ اس دوران اس نے باقی ماندہ کارڈ بھی جانوروں میں تقسیم کر دیے تھے۔ اب وہ ہاتھ جھاڑ کر تقریر کرنے والا تھا۔ یہ تقریر الفاظ کے ہیر پھیر سے ہر سال ہی وہ دہرایا کرتا تھا۔ بندر نے بتایا کہ نئے اور پرانے کا فرق ان کے خاندان سے بہتر دور حاضر میں کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ کیونکہ صرف بندر خاندان ہی اولڈ ورلڈ مونکیز اور نیو ورلڈ مونکیز پر مشتمل ہے۔

بندر کا چچیرا بھائی بھائی بابون (Baboon) اولڈ ورلڈ مونکیز کے خاندان سے ہے جبکہ جدید خاندان Marmoset یعنی نیو ورلڈ مونکیز سے تعلق رکھتے ہیں۔ بندر نے سب جانوروں کو بتایا کہ جدید طریق زندگی کو اپناتے ہوئے کچھ بندر خاک نشیں ہیں تو کچھ بوریا نشیں اور ان میں سے کچھ زیر زمین بھی رہتے ہیں۔ کچھ درختوں پر بھی رہتے ہیں۔ زیر زمین کے ذکر پر خرگوش کی آنکھیں جھلملا اٹھیں۔ کئی بار بندر اس کی سرنگ میں گھس کر چوری کر چکا تھا۔ بندر ہمیشہ نقاب پہن کر ایسی واردات سر انجام دیتا۔ کسی کیمرہ میں اس کا چہرہ پہچاننا نا ممکن تھا۔

اس تقریر کے ایک ایک لفظ پر تمام جانور تالیاں بجانے پر مامور کیے گئے تھے۔ جانوروں کے پوچھنے پر بندر نے بتایا کہ اس بار نئے سال کی تقریب دھوم دھام سے منائی جائے گی۔ ہر بار تاریخ میں پرانا سال رد کر دیا جاتا تھا اور کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے پر آمادہ نہیں تھا۔ یہ بھی لازمی قرار دیا گیا کہ تمام جانور اس تقریب نو میں استطاعت سے بڑھ کر نذرانہ بھی پیش کریں گے۔ تمام جانور کسمسا کر رہ گئے۔ اس کے سوا ان کا کسی بت پر بس تھا نہ ہی ہمت مرداں۔ ہر بار کسی تقریب کے نام پر ان کو یہی خوش خبری سنائی جاتی تھی۔ لیکن بندر کے پاس اپنے خاندان کی کرامات کی لمبی لسٹ موجود تھی۔

کیا یہ کم تھا کہ اس کے خاندان میں ہی کچھ بندر کیڑے مکوڑے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ ان کے خاندان میں کئی بندریا کی دم ہی نہ تھی اور وہ بغیر دم کے زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ بندر نے خاندان کے ان بزرگ بندروں کا ذکر تک نہ کیا۔ جن کا دماغ ہی نہ تھا۔ کرامت تو یہ تھی کہ بغیر دماغ سے بھی درختوں پر ان بندروں کی چھلانگیں اڑان سے مماثلت رکھتی تھیں اور ان پر پیسہ ہن کی طرح برس رہا تھا۔

لومڑی نے البتہ بندر کی زقند بھرنے کی کرامت کو "چھالاں مارنا" ہی سمجھا۔ اس نے بندر کو یوں درخت درخت لٹکنے سے باز رہنے کی تاکید کی۔ مزید لومڑ نے یہ بھی کہا کہ ایسی چھلانگوں کے لیے تمہیں کسی بنے بنائے "مرشد" کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر تم اکیلے چھلانگیں مارتے رہے تو کسی روز اچانک تمہیں شیطان درخت سے ہی اچک لے گا۔ لیکن اگر تم نے مرشد کا نام لیا تو شیطان کسی اور شکار کی تلاش میں رہے گا۔ بہتر یہ ہی ہے کہ شیطان کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے اور ہم سب جانور اس کا آسان شکار نہ ثابت ہوں۔

ذہانت کے باوجود بندر کے دل میں وسوسوں کی یوں آمد ہوئی جیسے نئے سال اور آزادی کے دن باجے بجتے ہیں۔ ان جدید اور robotic وسوسوں نے بندر کے دل کو یوں جکڑا کہ محبوب کی یاد تک رخصت ہوگئی۔ فی زمانا محبوب کا تصور ویسے بھی معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ جلد بازی میں بندر نے لومڑ کو ہی اپنے مرشد کا درجہ دیا اور پھل دار درختوں کی شاخیں ہلا کر جنگل کو بخارا و ثمر قند بنا دیا۔ بندروں نے ایک اجلاس میں یہ محاورہ بھی متروک قرار دینے کی سفارش کی تھی۔ "بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔ " اس کی بجائے تمام بندروں نے ایک نیا محاورہ پیش کیا تاکہ اسے اصل محاورہ سے ری پلیس replace کر دیا جائے جو کچھ یوں تھا۔ "ادرک کوحق نہیں بندر تک رسائی کا۔ "بھلا گلی کے ہر ٹوکرے میں موجود ادرک بندر کے چست دماغ کو کیا سمجھے گا۔

دنیا کے سب سے ذہین بندر Capuchin نئی ایجادات اور اوزار و Apps کا استعمال بخوبی جانتے ہیں اور ایسا غل مچا سکتے ہیں جس میں پتھر پانی نظر آتا ہے۔ کون جانتا ہے بندر کہاں ہے۔ گدھا کہاں اور لومڑ کہاں۔ سیہہ کدھر قیام پذیر ہے اور شیر کے مصنوعی دانت کہاں سے لگوائے جاتے ہیں۔ یہ راز بھی سربستہ قیود ہیں کہ بھیڑ کو شیر کی کھال کہاں سے میسر آتی ہے اور مچھلی کے پیٹ سے موتی کس تجوری میں جمع کیے جاتے ہیں۔ ہائیےے نیا نو دن اور پرانا سو دن۔

یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ
تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں