عربی میں ایمرجنسی قوت، صندوق، قانون، حالت اور جلسہ کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ایسی صورت حال جس کو پلٹ کر یا قوت بازو اور قوت تخیل سے بہتر بنایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہتری کا مطلب الٹنا پلٹنا ہی ہے۔ طاقت و قوت کا استمال کہاں اور کیسے کرنا ہے۔ یہ سلیقہ ندارد ہے۔ کئی لوگ تو جست بھرنے کا مطلب دوسروں کے گھر کودنے کا لیتے ہیں۔
ہمارے ہمسائے نیچے والی منزل سے سیڑھی لگا کر ہمارے گھر میں جھانکتے رہتے ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے شاید بہتری ریت کی طرح مٹھی سے پھسل جاتی ہے۔ نئے پاکستان سمیت ہم کتنی ہی ایمرجنسیاں بھگت چکے ہیں۔ نئی تصاویر بنانے میں دل کے کتنے ٹکڑے ادھڑ گیے اس پر بات دشوار ہے۔ لیکن اس وقت بات ہے تعلیمی ایمرجنسی کی۔ جس کے ذریعہ سکول میں زیادہ سے زیادہ بچے بھرتی کیے جائیں گے۔ یعنی وہ بچے جن کی سکول تک رسائی نہیں یا ان کے والدین ان کو سکول بھیجنا نہیں چاہتے۔
ذہنی امراض کے پیکر والدین سے بچوں کو محفوظ رکھنے کا نسخہ ابھی دریافت نہیں ہوا۔ قریباً سال پہلے بھی کچھ اس قسم کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جہاں اساتذہ کو گھر گھر جا کر والدین کو قائل کرنا ہوتا تھا کہ وہ بچوں کو سکول داخل کروائیں۔ کچھ علاقوں میں بچے سکول تو آتے ہیں لیکن گندم اور چاول کی کٹائی کے دنوں میں چھٹیاں کرکے مزدوری جاری رکھتے ہیں۔ جائیکا نے آؤٹ آف سکول چلڈرن کے لیے زمینی حقائق پر سروے کے بعد بہت عمدہ اور قابل عمل منصوبہ بنایا ہے بلکہ ایسے بچوں کے لیے الگ نصاب بھی ترتیب دیا ہے۔ جس کو رائج کیا جا سکتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں نصاب کے لیے بھی ایک ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ موجودہ نصاب باوزن تو ہے لیکن با وضع قطعی نہیں۔
کسی بھی سکول میں بچوں کے بجھے، بے زار اور لاتعلق چہرے اس حقیقت کے غماز ہیں۔ سوائے ان سکولوں کے جہاں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے والے استاد انھیں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رکھتے ہیں۔ سیالکوٹ کے صہیب فاروق انتہائی تخلیقی ذہن کے مالک اور بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ وہ نہ صرف بچوں کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہیں بلکہ ان صلاحیتوں کے مطابق کام لے کر بچوں کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کو ٹریننگ کے لیے ہر سکول میں بھجا جانا چاہیے۔
دوسری طرف ہماری یونیورسٹیز کے بعض اساتذہ طلبہ کو صرف اس لیے فیل کر دیتے ہیں کہ وہ کینٹین میں کسی لڑکی کے ساتھ چائے پی رہا تھا۔ یا پھر طالب علم کو اس سوال کا جواب کیوں معلوم ہے، جسے استاد نے نہیں پڑھ رکھا۔ ایسی صورت حال کو کئی استاد اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک گورنمنٹ ملازم کی اے سی آر سے اس پر پیڈا لگانے اور اس کی پروموشن کو کارکردگی سے ملحق رکھا جاتا ہے لیکن یونیورسٹیز میں بھرتی ذہنی مریضوں کو تا زندگی کلین چٹ کیوں دی جاتی ہے۔
نہ صرف یہ استثنی بلکہ پی ایچ ڈی کی بنا پر انیسویں سکیل میں پروموشن بھی ریپر میں لپیٹ کر دی جاتی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے بی ایس طلبہ و طالبات کو دی گئی سہولیات اور ان کے اعتماد اور گرومنگ میں بھی زمین آسمان کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ لاہور کالج یونیورسٹی نے تو اپنے Repatriate ہونے والے آدھے سٹاف کے بقایا جات تک ڈکار لیے۔ حالانکہ لسٹ موجود تھی۔ اس کے باوجود 2021 میں repatriate ہونے والے آدھے اساتذہ کے بقایا جات تا حال نہ مل سکے۔
یہ کوئی فیثا غورث کا مسئلہ تو نہیں کہ repatriate ہونے والوں کی لسٹ موجود ہو اور آدھے نام شامل نہ کیے جائیں۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ دس میزوں سے فائل گزرنے میں کوئی ایک بھی ایسا انسان نہیں تھا جسے فائل پڑھنا آتا۔ اس کا جواب کون دے گا کہ یہ typing error تھی یا کرپشن۔ لیکن یہ طے ہے کہ اگر یہ typing error ہے تو اتھارٹی کی نا اہلی ہے اور بد نیتی ہے تو کرپشن۔ کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ایمرسن یونیورسٹی سے واپس جانے والے اساتذہ کو بھی ہے۔
کالجز میں سی ٹی آئی بھرتی کرنے کے لیے دس بار میرٹ بنایا گیا۔ ان کے انٹرویوز کے لیے سلیکشن بورڈ کو ہدایات دی گئیں لیکن یونیورسٹیز میں اگلے سمسٹر کے بچے بنا کسی اخلاقی یا آفیشل ٹیسٹ پاس کیے استاد کے درجہ پر فائز ہو جاتے ہیں اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو چغل خوری اور جاسوسی کے ذریعہ معلومات مہیا کرتے ہیں۔ اس پر کون سی ایمرجنسی کا اطلاق ہوگا۔
ایک ایمرجنسی ان اخلاقی رویوں پر بھی لگائی جائے اور بولنے سے پہلے تولنے کی پالیسی بھی وضع کی جائے۔ پنجاب کالج کے حوالے سے جھوٹ سچ تو الگ چیز ہے لیکن جن طلبہ و طالبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا وہ ساری زندگی جھوٹ اور سچ کی راہداریوں میں بھٹکتے رہیں گے۔ پہلے ہی ہم نے بچوں کو نصاب کے نام پر ہاں اور نہیں سکھا رکھی ہے۔ درمیانی راستہ میں دلیل، سوال اور وضاحت کی گنجائش تک نہیں چھوڑی۔
ایک طرف سے یہ سوال بھی تواتر سے ہوتا رہا کہ وہ بچی سامنے آئے۔ یعنی میڈیا پر آئے بنا کسی جرم کی شنوائی نہیں ہو سکے گی۔ کون وائرل ہے یہ بھی ہمیں بتایا جائے گا۔ یعنی دکھائی سے زیادہ سنائی دے گا۔ جہاں لیڈر انصاف کے نام پر لٹتے رہیں وہاں عام آدمی کا کیا حال ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔ محمد نواز شریف نے جو شعر پڑھا۔ اس کا اطلاق سیاست سے لے کر ہر ایمرجنسی پر کیا جا سکتا ہے۔
ناز و انداز سے کہتے ہیں کے جینا ہوگا
زہر دیتے ہیں تو کہتے ہیں پینا ہوگا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں
جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
کتنے ہی سقراط زہر سمیٹ کر مٹی ہو گئے۔ لیکن سرخ فیتے نہیں کھل سکے۔ اب یہ فیتے دماغوں پر باندھے گئے ہیں اور سوچ و فکر پر خطرہ کا نشان چسپاں ہے کہ خبردار عقل کا استعمال ممنوع ہے۔