امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں بلوچستان میں قدرتی وسائل کی بھرمار تو ہے یہ رقبے کے حوالے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے وسیع ساحل ہے جس پر گوادر جیسی جدید ترین بندرگاہ ہے لیکن ملک کا آج بھی سب سے پس ماندہ ہے جس کی وجہ بدامنی ہے۔ دہشت گرد اگر ترقی کے عمل کو سبوتاژ نہ کریں تو پس ماندگی ختم کرنا دشوار نہیں مگر کچھ قوم پرست یہاں جاری دہشت گردی کی مذمت نہیں کرتے بلکہ پس ماندگی کو احساسِ محرومی کی وجہ قرار دیتے ہیں جس کے ردِ عمل میں ہتھیار اُٹھانا بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ قوم پرستی یا عوام سے اخلاص تو یہ ہے کہ امن کو یقینی بنانے میں ریاستی اِداروں کا ساتھ دیا جائے تاکہ صوبہ خوشحال ہو لیکن ہر مسلے کی بنیاد قانون نافذ کرنے والے اِداروں کو ٹھہرانے کی روش پر گامزن ہیں ایسے طرزِ عمل کی تائید کوئی محب الوطن نہیں کر سکتا۔
منگل 19 نومبر کو قومی ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کئی ایک نہایت اہمیت کے حامل فیصلے کیے گئے جن میں سے ایک فیصلہ جو امن قائم کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے وہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری ہے۔ اجلاس میں سول و عسکری قیادت کا مل بیٹھنا اور اتفاقِ رائے سے فیصلہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ صوبہ کی دگرگوں صورتحال کا سبھی کو کامل ادارک ہے اور امن کو یقینی بنانے کے لیے یکسو ہیں امید ہے کہ بلوچستان کے امن کو برباد کرنے والے عناصر کاخاتمہ کرنے کے دوران کسی سے رورعایت نہیں ہوگی اور بدامنی پھیلانے میں ملوث گروہوں کا پوری طاقت سے خاتمہ کیا جائے گا۔
1947 سے لیکر اب تک بلوچستان میں کئی فوجی آپریشن ہوئے ہیں اور ہر بار وعدہ کیا گیا کہ آپریشن سے بدامنی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اِس بدقسمت صوبے میں معدنی وسائل کی کثرت ہے یہاں کی نابغہ روزگار ہستیوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ علم و کھیل کے میدان میں بھی یہ صوبہ کسی سے پیچھے نہیں لیکن کمی ہے تو صرف امن کی جو یہاں نایاب ہے۔ بیرونی مالی معاونت سے مٹھی بھر شرپسند عناصر امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ شرپسند اپنے عمل کا جواز احساسِ محرومی قرار دیتے ہیں لیکن جب حکومت ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرتی ہے تو یہ رخنہ اندازی کرتے ہیں۔
قومیت کا نعرہ لگانے والے سفاک لوگ دیگر صوبوں کے مزدوروں کا قتلِ عام کرتے ہیں۔ سی پیک بھی اِن کا خاص طور پر ہدف ہے جس سے کوئی ابہام نہیں رہتا کہ یہ شرپسند قوم پرست ہرگز نہیں بلکہ اِن کا ایجنڈا کچھ اورہی ہے۔ اگر قوم پرست ہوتے تو ترقیاتی منصوبوں کو مکمل ہونے دیتے تاکہ نہ صرف ترقی ہوتی بلکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے۔ یہ عجیب قوم پرست ہیں جو اپنی قوم پرستی کا اظہار مزدوروں کے قتلِ عام سے کرتے ہیں۔ ایسی درندگی کا کھیل دنیا میں کہیں نہیں کھیلا جاتا جیسا بلوچستان میں کھیلا جارہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ فوجی آپریشن کا فیصلہ کرہی لیا گیا ہے تو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر جاری رکھاجائے یہی ملک اور صوبے کے مفادمیں ہے کیونکہ اب ناکامی یا تاخیر کا مطلب صورتحال کو ناقابلِ حل بنانے کے مترادف ہوگا۔
آپریشن کا آغاز کرنے سے قبل ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لینا بہتر ہوگا تاکہ دوبارہ نہ دہرائی جائیں۔ یہاں بلوچ اور پشتون کی تفریق ہے۔ مسلکی تفریق ایک الگ بڑا مسئلہ ہے لہذا عملی کاروائی سوچ سمجھ کر کی جائے تاکہ امن تو آئے مگر ناراض عناصر کو افرادی قوت ملنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو۔ کوئی لاکھ تردید کرے یا جھٹلائے مگر یہ حقیقت ہے کہ نواب اکبر بگٹی قیامِ پاکستان کی جدوجہد شامل رہے انھوں نے قائدِ اعظم کا نہ صرف استقبال کیا بلکہ شاہی جرگے میں پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے بلوچ سرداروں کو قائل کرتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد ملک فیروزخان نون کی حکومت بنی جس نے گوادر کو پاکستان کا حصہ بنایا تو وفاقی وزیرِ داخلہ کا قلمدان نواب اکبر بگٹی کے پاس ہی تھا لیکن جلد ہی اِس سردار کو بعد میں جیل بھیج دیا گیا۔ رہائی کے بعد بھی وہ گورنر اور وزیرِ اعلٰی رہے اور عمر کے آخری حصے میں وفاق سے نالاں ہو کر پہاڑوں پر چلے گئے اور پرویز مشرف کے دور میں ایک پُراسرار موت کا شکار ہوئے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد قائد اعظم کے ہمرکاب چلنے والے کے لیے آخر وہ کون سے حالات و اسباب تھے جنھوں نے ایک محب الوطن کو ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کر دیا؟
تسلیم کہ ریاست کے پاس بے پناہ وسائل ہوتے ہیں لیکن وسائل کا استعمال کرتے ہوئے دوست اور دشمن میں تمیز کرنا ضروری ہے جو غلطیوں سے تائب ہوکر قومی دھارے میں آجائے اُسے گلے لگانا اور ساتھ لیکر چلنا ضروری ہے۔ ناراضگیاں بڑھانا کوئی دانشمندی نہیں۔ جنرل ایوب خاں بارے جو بھی کہا جائے وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آئے تھے بلکہ ایک جمہوری حکومت کو چلتا کرکے اقتدار پر قابض ہوئے ظاہر ہوئے۔
1958 میں بلوچ رہنما نواب نوروز خان نے آمر ایوب خان کی بدترین مخالف کرنا شروع کی جس سے بلوچستان میں شورش بڑھنے لگی جس سے حکومتی رَٹ کمزور ہوتی گئی جس سے تنگ آکر منانے کی کوششیں شروع کی گئیں آخر کار قرآن کا واسطہ دیکر بلوچ سردار کو پہاڑوں سے اُترنے پر رضامند کیا گیا مگر پھر حالات بہتر ہوتے ہی وعدے فراموش کر دیے گئے حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ مسئلہ کا مستقل حل تلاش کیاجاتا لیکن ایسا کرنے کی بجائے نواب نوروز خان کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ اسیری کے ایام میں ہی وہ 1964 میں ایسی حالت میں خالقِ حقیقی سے جا ملے جب اُن کی عمر ستانوے برس کے لگ بھگ تھی اب یہاں سوال ہے کہ اہلِ اقتدار وعدے پورے کرنے کی بجائے رسوئی سمیٹنے اور ناراض بلوچوں کی تعداد بڑھانے پر کیوں بضد رہے؟
سابق وزیرِ اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے بھی ایک وقت میں بلوچ حقوق کے لیے ہتھیار اُٹھائے اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ ریاست کی پسندیدہ ترین شخصیت بن کر وزارتِ اعلٰی کا منصب لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اِس دوران انھوں نے ناراض بلوچوں سے مزاکرات بھی کیے اب شنید ہے کہ دوبارہ خفا ہوکر الگ تھلگ خاموش ہیں۔ کسی دہشت گرد کو معافی دینے کی بجائے جو ناراض بلوچ ریاست کی وفاداری پر آمادہ ہیں اُنھیں ساتھ لیکر چلنے میں اگر امن میں بہتری آسکتی ہے تو ریاستی اِداروں کو اِس پہلو پر بھی کام کرنا چاہیے۔
عیاں حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت قیامِ پاکستان سے بھی پہلے سے جاری ہے پہلی جنگِ عظیم میں بلوچ قبائل کے سرداروں نے برطانیہ کے خلاف جرمنی سے مدد لی اب بھی افغانستان کے راستے بھارت کی مالی سرپرستی سے دہشت گرد متحرک ہیں۔ مالی سرپرستی کے راستے بند کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کے لیے حال ہی میں پاک چین فوجی مشقیں اختتام پذیر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے خیال ہے کہ فوجی آپریشن کا فیصلہ بھی چین سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ہرگز مناسب نہیں اپنی ضرورت کومدِ نظر رکھ کر فیصلے کیے جائیں اور پھر منطقی انجام تک پہنچائے بغیر کام کیا جائے تاکہ نہ صرف امن قائم ہوبلکہ کسی کو دشنام طرازی کا موقع نہ ملے۔