ڈاکٹر اے ایچ خیال، انگریزی لسانیات کے استاد تھے گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے رہے۔ سنا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بھی استاد رہے۔ اپنے شاگردوں کے بہت محبوب اور محترم استاد تھے۔ 80کی دہائی کے وسط میں نواز شریف پنجاب کے چیف منسٹر بنے، تو انہوں نے اپنے استاد ڈاکٹر اے ایچ خیال کو وزیر اعلیٰ ہائوس کھانے پر کئی بار مدعو کیا، ہر دفعہ ڈاکٹر خیال کی طرف سے انکار ہوتا۔ ان کے چیف منسٹر شاگرد نے پوچھا کہ آپ دعوت قبول کر کے ہماری عزت افزائی کیوں نہیں کرتے، تو پروفیسر خیال نے کہا جو میں کھانا چاہتا ہوں، وہ آپ مجھے کھلا نہیں سکیں گے۔ حیرت سے سوال ہوا۔ آخر ایسی کون سی چیزجو ہم آپ کو نہیں کھلا سکیں گے۔؟
پروفیسر خیال نے جواب دیا میری بیوی کے ہاتھ کی مسور کی دال۔ تو یہ تھے درویشی کی حد تک بے نیاز ڈاکٹر اے ایچ خیال جنہوں نے پاکستانی سیاست اور سماج پر مختصر اور موثر انداز میں کچھ ایسی کاٹ دار تحریریں قلم بند کی ہیں کہ دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی پوری سچائی کے ساتھ ہمارے سماج اور سیاست کے اندر موجود دوغلے پن کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ اظہار کا ذریعہ انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کو بنایا، طنزو مزاح کی گہرائی زبان کی سادگی اور مشاہدے کی باریک بینی ایسی کہ آج بھی تحریر کے ان ٹکڑوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ میرے ہاتھ میں جو کتاب ہے اس کا نام ہے اندھا سورج، اس سے کچھ اقتباسات کالم کا حصہ بناتے ہیں۔ عنوان ہے دو قسمیں۔ پاکستانی لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک نہایت ارفع لوگوں کی ہے، انہیں سرکاری طور پر VIPکہا جاتا ہے، دوسری قسم نہایت گھٹیا لوگوں کی ہے۔ انہیں غیر سرکاری طور پر VUPsیعنی Very Unimporlam Personکہا جاتا ہے۔ اسلام ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے، اس لحاظ سے پاکستان میں لوگوں کی فقط ایک قسم ہونی چاہیے تھی، ہم سے جہاں تک ہو سکا، ہم نے مساوات کے درس پر عمل کیا ہے، یہ اس عمل کا نتیجہ ہے کہہ ہم نے لوگوں کو فقط دو قسموں میں تقسیم کر دیا ہے، اگر مساوات کا درس ہمارا رہنما نہ ہوتا، تو خدا جانے ہم لوگوں کو کتنی قسموں میں تقسیم کرتے۔ عورت کسی کو کیا معلوم کہ عورت اپنے مقام سے اس قدر گر جائے گی کہ وہ مرد سے برابری کا دعویٰ کرنے لگے گی۔
وقت نماز محمود و ایاز، محمود ایاز نہیں رہتے۔ لیکن بعد ازنمازوہ پھر سے محمود و ایاز بن جاتے ہیں
عنوان ہے انصاف: ہم نے آج تک غریبوں سے ان کی غربت چھینی ہے نہ دولت مندوں سے ان کی دولت۔ انصاف اور کیا ہوتا ہے۔؟
عنوان علم:ہم نے کالج اور یونیورسٹیاں اس لئے قائم کی ہیں تاکہ عوام کو جہالت کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرنا پڑے۔ ٭٭٭عنوان ہے۔ پیشہ ورانہ جمہوریت:ہماری جمہوریت میں ہاری کی نمائندگی جاگیردار کرتا ہے۔ مزدور کی نمائندگی کارخانے دار کرتا ہے کبوتر کی نمائندگی بلا کرتا ہے۔
٭ حکمرانوں نے عوام کو ہمیشہ بتایا ہے کہ انہیں عوام کی بھوک کا علم ہے، کاش حکمرانوں کو علم ہوتا بھوک کا جب تک ذاتی تجربہ نہ ہو، بھوک کا مطلب سمجھ نہیں آ سکتا۔ اگر حکمرانوں کو دو دو ہفتے کے بھوک کے کورس کروائے جائیں تو پاکستان سے بھوک ختم ہو سکتی ہے۔
٭ ہمیں اسلام پر فخر ہے کاش ہم بھی اسلام کے لئے قابل فخر ہوتے۔ کاش ہم بھی اسلام کے لئے قابل عشق ہوتے۔ یک طرفہ عشق سے رشتے قائم نہیں رہتے۔
٭بے کاری غربت رشوت بیماری اور جہالت ہمارے بنیادی حقوق ہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے ہمارے ان حقوق سے ہمیں محروم نہیں کیا۔
٭پاکستان کو فقط پڑھے لکھے طبقے نے لوٹا ہے، آج تک کسی ہاری کسی مزارع کسی ٹانگے والے کسی خوانچے والے کسی مزدور نے بینکوں سے قرض لئے ہیں، نہ قرض معاف کروائے ہیں، نہ ہی اس ان پڑھ طبقے نے زمینیں الاٹ کروائی ہیں۔ بینکوں کے قرض صرف پڑھے لکھے، طبقے نے معاف کروائے ہیں، زمینیں فقط پڑھے لکھے، لوگوں نے الاٹ کروائی ہیں، اگر پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ نہ ہوتا، تو پاکستان میں قرضوں اور زمینوں کی لوٹ نہ پڑتی۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے، چھوٹے سے پڑھے لکھے طبقے نے پاکستان کو عذاب میں ڈال دیا ہے، اگر شرح خواندگی زیادہ ہوتی، تو خدا جانے کیا خطرہ ہوتا، ہماری بقا اسی میں ہے کہ فوراً تمام کالج اور سکول بند کروا دیے جائیں۔
٭عنوان ہے ایک پاکستانی کی دعا:یااللہ! میں اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں، مجھے ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما، مجھے پچیس تیس کنال کی کوٹھی دے، مجھے ہوائی جہاز دے، مجھے لگژری کاریں دے۔ مجھے اپنے بیٹوں کی تعلیم کے لئے یورپ کی یورنیورسٹیاں دے۔ مجھے اپنے جسم کی مرمت کے لئے یورپ کے ہسپتال دے اور مجھے لوگوں کے پیسوں سے حج کرنے کی توفیق عطا فرما!
٭ہم نے پاکستان کا جو حشر کیا ہے، قائد اعظمؒ کو اس سے باخبر رکھنے کے لئے ہمارے حکمران باقاعدہ مزار قائد پر حاضری دیتے ہیں، ہر حاضری کا مقصد روح قائد کو پاکستانی عوام کی روز بروز بڑھتی زبوں حالی سے باخبر رکھنا ہے، یہ خبر رسانی روح قائد پر بہت بڑا احسان ہے۔ پروفیسر اے ایچ خیال کے یہ طنزو مزاح سے بھر پور اظہار ہے حکمرانوں اور عوام کے درمیان موجود حالات و وسائل کے خوفناک تضاد سے جنم لیتے ہیں انگریزی کا یہ مقولہ درست معلوم ہوتا ہے کہSatire is traditionally the weapon of the powerless against the powerfull.