ہر سال ربیع الاول کے موقع پر سیرت النبی کانفرنس منعقد ہوتی ہے، سیرت النبی پر لکھی ہوئی کتابوں کو انعامات دیے جاتے ہیں۔ اس سال جس کتاب کو سیرت النبی کے حوالے سے پہلے انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا وہ نصرت محمود قریشی کی لکھی ہوئی ہے۔ میری خوش قسمتی کہ نصرت محمود سے مل چکی ہوں میری دوست فرح ہاشمی نے مجھے ان سے ملوایا۔ گزشتہ برس یہ کتاب منظر عام پر آئی، کتاب کی رونمائی کی تقریب میں مجھے بات کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا میں نے عرض کی کہ میں بغیر پڑھے کتاب پر نہیں بولوں گی اگرچہ پڑھے بغیر بھی اچھا بول سکتی ہوں لیکن ایسا کرنا میرے نزدیک بددیانتی ہوگا۔ تو اسی شام مصنفہ کی بیٹی پروفیسر رابعہ عامر ہمارے گھر کتاب دینے کے لیے تشریف لائیں۔ جب میں نے اس کا مطالعہ کرنا شروع کیا تم مجھے یہ ایک بالکل مختلف ذائقے کی کتاب لگی، سب سے پہلے تو کتاب کا نام ہی آپ کی توجہ کھنچتا ہے۔ کیسے تھے محمد ﷺ؟
کتاب کا نام ایک سوال ہے جو قاری کے اندر تجسس، کتاب پڑھنے کا تحرک پیدا کرتا ہے، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کو آپ پڑھنے کے لئے کھولیں تو آپ ضرور اس کو پڑھتے چلے جاتے ہیں، اگلی شام اس تقریب میں میری مصنفہ سے ملاقات ہوئی۔ درازقد بزرگ خاتون سفید لباس میں ملبوس اور چہرے پر شفقت و محبت کے تاثرات پوری شخصیت کو ایک اپنائیت اور محبت کی ملائمیت میں ڈھالتے ہوئے۔ مل کر بہت اچھالگا، حیرانی کی بات یہ کہ انہوں نے کتابیں لکھنے کا آغاز اس عمر میں کیا جب وہ نانی اور دادی بن چکی تھیں کیونکہ وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو اسلام کی اصل روح اور اسلام کے اصل پیغام سے روشناس کروانا چاہتی تھیں، اس کے لیے انہوں نے قرآن سے اخذ کی گئی کہانیوں پر مبنی ایک سیریز لکھی۔ اس کتاب کو بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے پہلا انعام مل چکا ہے۔ سیرت کی یہ کتاب لکھنے کا محرک کتاب کے پیش لفظ میں وہ یوں بیان کرتی ہیں۔ میں اپنے آپ کو اس قابل تو نہیں سمجھتی تھی کہ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک بغیر کسی وقفہ کے سیرت نگاروں کا جو لامتناہی سلسلہ چلا آرہا ہے اس میں کسی طور اضافہ کر سکوں گی۔ لیکن میری اس کاوش کی وجہ وہ خاکے اور کارٹونوں کے مقابلے اور کتابیں بنیں جو ان لوگوں نے پیش کیں اور رسول اللہ ﷺ کے قول مبارک کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جنہیں علم ہی نہیں۔
بہت رو لیا بہت دکھی ہو چکی، ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کر لیا تو مجھے خیال آیا کہ وہ اس طرح کاخاکہ دنیا کو دکھاتے ہیں تو اللہ تعالی مجھے توفیق دے تو میں وہ خاکہ پیش کرنے کی کوشش کروں جواللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کا قرآن حکیم میں پیش کیا ہے اور ان کے صحابہؓ نے حدیث کی شکل میں پیش کیا ہے۔ میں نے اپنی اس کتاب کے لئے صرف دو ہی ماخذ چنے ہیں اور وہ ہیں قرآن حکیم اور حدیث کی مستند کتابیں۔
کتاب کا اظہار بیان منفرد ہے، عام فہم اردو کے ساتھ جگہ جگہ انگریزی کے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جو اردو کی نسبت آج کل کے بچوں کے لیے زیادہ شناسا ہیں اور جن کے استعمال سے پڑھنے والا بیان کئے ہوئے خیال کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ مثلاً حضرت خدیجہ ؓ کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ وہ اپنے وقت کی ایک تاجرخاتون تھیں، صرف اس ایک اصطلاح سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓکا تجارت میں کیا مرتبہ اور مقام تھا۔ آج کی نسل کے بچے جو انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں نصاب کی کتابوں سے لے کر فکشن تک انگریزی میں ہے۔ اس کے بعد پھر سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس پر انٹرنیٹ پر انگریزی میں بلاگز پڑھتے ہیں انگریزی میں بلاگز لکھتے ہیں ثقیل اردو میں لکھی ہوئی کتابیں ایسے بچوں کے ذہن میں جذب نہیں ہوتیں۔ ہماری نوجوان نسل اگر رسول پاک ﷺ کی حیات مبارکہ کے بارے میں پڑھنا اور سمجھنا چاہتی ہے تو نصرت محمود قریشی صاحبہ کی لکھی ہوئی کتاب ان کے لیے بہترین انتخاب ہے۔ ایک پیراگراف دیکھئے۔
اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میرے خیال میں مسلمانوں کی ہجرت سے پہلے کی زندگی حزب اللہ یعنی اللہ کے لشکر کی rigorous military training پر مشتمل تھی، اس ٹریننگ اور سخت قسم کی تراش خراش کے بعد جو ہیرے diamond مومنین کی شکل میں تیار ہوئے، ہجرت کے بعد ان کی زندگی ان ہیروں کی کار آزمانے کا دور تھا، پوری کتاب اسی طرح کے اظہار بیان میں لکھی گئی ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک محفل میں آج کی نوجوان نسل کے بچے موجود ہیں اور نصرت محمود ان بچوں کے فہم کے سطح پر آکر ان کو سیرت النبی کے بارے میں بتا رہی ہیں سمجھانے کا انداز خلوص سے بھرپور ہے۔
ان کا جذبہ بہت قابل قدر ہے، نوجوانوں اور بچوں کو اسلامی تعلیمات اور قرآن میں دیے ہوئے اللہ کے پیغام سے روشناس کرانے کے لیے نصرت محمود نے سوشل میڈیا چینل بھی ابھی شروع کیا ہے۔ نصیحت کی بات کو اگر کہانی کی صورت میں بچوں تک پہنچایا جائے تو وہ اسے زیادہ خوش دلی سے قبول کرتے ہیں، اس وقت ہمارے ہاں بچوں کے ادب پر اور ان کی مثبت ذہن سازی کے حوالے سے زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی، بس زیادہ سے زیادہ نمبروں کی دوڑ میں ہمارے بچے شریک ہیں، ایسے میں نصرت محمود قریشی جس طرح اپنا فرض نبھا رہی ہیں، ان کو ضرور سراہنا چاہیے، انہوں نے اس دور میں کہانی سنانے کی روایت کو زندہ کیا۔
پرانے زمانوں میں تو دادی نانی صرف اپنے پوتے پوتیوں کو کہانی سنا سکتی تھی مگر ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہے کہ اب سوشل میڈیاچینل پر کہانی سناتی ہیں اور ان گنت بچے یہ کہانی سن سکتے ہیں۔